کیا یہ قائداعظم کا پاکستان ہے پہلا حصہ
ہم نام صبح و شام قائد اعظم کا لیتے ہیں اور ان ہی کے اصولوں کو قدموں تلے روندتے ہیں
جڑانوالہ میں مسیحی پاکستانیوں کے ساتھ جوکچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس قومی سانحے کے بعد ہماری مسیحی برادری ناقابل بیان اذیت، عذاب اور صدمے سے گزر رہی ہے۔ کم از کم اتنا تو ہوا کہ ہمارے ذرایع ابلاغ نے اس واقعہ کو چھپانے کی کوئی دانستہ کوشش نہیں کی۔
ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے سیاسی ومذہبی رہنماؤں نے اس پر گہرے دکھ اور شدید ندامت کا اظہارکیا ہے۔
پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ نے متاثرہ بستی کا دورہ کیا اور اسی مقام پر اپنی کابینہ کا اجلاس منعقد کر کے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو کے لیے امدادی چیک دینے کا اعلان کیا۔ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کوئی لمحہ ضایع کیے بغیر متاثر بستی جا پہنچے اور مسیحی متاثرین کے دکھ میں شریک ہوئے۔
ان کی جانب سے یہ بات واضح کردی گئی کہ وہ ایک پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناتے اپنی ذاتی حیثیت میں متاثرہ بستی کے دورے پر آئے ہیں تاکہ مسیحی برادری مشکل اور صدمے کی اس گھڑی میں خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔ اس سانحے پر قاضی صاحب نے بڑے واضح انداز میں اپنے خیالات بیان کیے ۔
انھوں نے کہا کہ اگر کوئی گرجا گھر پر حملہ کرتا ہے تو مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ حملہ آوروں کو پکڑیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان ہونے کے ناتے قرآن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔
ان کے مطابق گرجا گھروں پر حملہ کرنے والوں نے قرآن پاک کے احکامات کی خلاف ورزی کی، اسلامی شریعت کی اس خلاف ورزی کو کسی بدلے یا انتقام سے جواز نہیں دیا جا سکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیٰسی نے کہا کہ قومی پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، آئین پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی گئی ہے،کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سزا 10 سال قید اور جرمانہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہر مسلمان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جان، مال، جائیداد، عزت اور عبادت گاہوں کی حفاظت کریں اور ان پر حملہ کرنے والوں کو روکیں اور ان کو پہنچنے والے نقصان کی ہر ممکن تلافی کریں۔
اس سے قبل اس اندوہناک واقعے کے حوالے سے انھوں نے ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ '' مسلمان ہونے کے ناتے قرآن شریف پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔
قرآن شریف میں گرجا گھروں اور دیگر عبادت گاہوں کے تحفظ کا بالخصوص حکم دیا گیا ہے۔ (سورۃ الحج (22)، آیت 40 ) اور ان کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورۃ الحج (22)، آیت 39)۔ ان آیات کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناً ان ظالموں کے خلاف جہاد کرنے والوں کی مدد کریں گے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا پیغمبر نہ ماننے والا اور ان کے ساتھ دلی عقیدت نہ رکھنے والا کوئی شخص خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کا قرآن شریف میں کثرت سے ( 34 بار ) ذکر ہے اور ایک سورۃ انھی کے نام پر ہے۔
مسلمانوں کی مسیحیوں سے قربت کا اظہار بھی قرآن میں صراحت کے ساتھ آیا ہے (سورۃ المائدہ (5)، آیت28)۔ ترجمہ '' تم دیکھو گے کہ مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں، جب مکہ میں مسلمانوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے، تو قرآن کریم (سورۃ النحل (16)، آیت 41 اور سورہ العنکبوت (21)، آیت 56) میں مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کرنے کے لیے کہا گیا اور رسول اللہ نے اپنے صحابہ کی ہجرت کے لیے حبشہ کی سرزمین پسند کی اور فرمایا کہ وہاں کا مسیحی حکمران انصاف کرنے والا اور مظلوموں کی مدد کرنے والا ہے۔
(سیرت ابن اسحاق، ص 154)۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسیحیوں کو یہ ضمانتیں تحریری طور پر بھی دیں۔
'' یہ امان ہے جو اللہ کے بندے اور مسلمانوں کے حکمران عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم کے لوگوں کو دی ہے۔ اس نے انھیں امان دی ہے ، ان کی جانوں، ان کے اموال ، ان کے گر جا گھروں اور ان کی صلیبوں کے لیے اور ان کے پورے مذہب کے لیے۔ ان کے گرجا گھروں میں مسلمانوں کو بسایا نہیں جائے گا اور نہ ہی انھیں نقصان پہنچایا جائے گا۔
نہ ان کو ، نہ ہی اس زمین کو جس پر وہ آباد ہیں، نہ ان کی صلیب کو اور نہ ہی ان کی جائیداد کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ '' (تاریخ طبری، ج3،ص609) گرجا گھروں پر حملے کرنے والوں نے قرآن کے صریح احکام ، رسول اللہ کی واضح ہدایات اور خلفائے راشدین کے روشن کر دارکی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔''
جس فرقہ پرستی، تعصب اور تنگ نظری کی فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں، کیا قائد اعظم اسی فضا کو یہاں پروان چڑھانا چاہتے تھے؟ بیسویں صدی کے نصف آخر میں کیا ایسے ہی تنگ دل و تنگ نظر سماج کو دنیا کے نقشے پر ابھارنے کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں صرف کردی تھیں؟ اس ملک کی اقلیتیں جو قومی دھارے سے کاٹ کر دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا شہری بنادی گئی ہیں۔
جن کے انتخابات جداگانہ کر دیے گئے ہیں، جن کی عبادت گاہوں کو اپنے غم و غصے یا تعصبات کا نشانہ بنانا ہمارا روز کا معمول بن گیا ہے، ملازمتوں میں جن کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، جن کی جان و مال اور کاروبار ہمارے جنونیوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں اور سماجی طور پر جن سے اچھوتوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے، تو کیا قیام پاکستان کے وقت ان اقلیتوں کو ہم نے اسی پاکستان کے خواب دکھائے تھے؟
ہم نام صبح و شام قائد اعظم کا لیتے ہیں اور ان ہی کے اصولوں کو قدموں تلے روندتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ آئینی اور جمہوری اصولوں کو ہر بات پر فوقیت دی۔ سیاست میں کسی بھی مرحلے پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھوں نے نہ مذہبی نعرے لگائے اور نہ مذہبی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں انھوں نے جو تقریرکی تھی، وہ ہم سب کو ازبر ہے۔
یہ بھی قائد اعظم تھے جنھوں نے فروری 1948 میں امریکی عوام کے نام اپنی نشری تقریر میں کہا تھا کہ ''پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس میں مذہبی پیشوا مامور من ان اللہ کے طور پر حکومت کریں۔ ہمارے یہاں بہت سے غیر مسلم ہیں۔ ہندو، عیسائی اور پارسی، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ وہ بھی تمام دوسرے شہریوں کی طرح یکساں حقوق اور مراعات سے بہرہ ور ہوں گے۔
جنوری 1948 میں جب کراچی شہرکا سکون ہندوؤں کی املاک لوٹ کر اور ان کی جانیں لے کر تہ و بالا کرنے کی کوشش کی گئی تو قائد اعظم آگ بگولہ ہوگئے تھے اور انھوں نے سختی سے اس بات کا حکم دیا تھا کہ ہندوؤں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والے افراد کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔
چنانچہ وہ فرقہ وارانہ فسادات جو تیزی سے اٹھے تھے، چند گھنٹوں کے اندر بلبلے کی طرح بیٹھ گئے۔ لاہور میں مرحوم خواجہ ناظم الدین کے دور حکومت میں فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن پر فوراً ہی قابو پا لیا گیا تھا۔
(جاری ہے)