مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے
مذہبی انتہا پسندی ایک ایسا خطرناک مرض ہے جس سے ملک کے تشخص کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے
جڑانوالہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل ہے۔ جڑانوالہ کی آبادی تازہ مردم شماری کے مطابق 135801 ہے۔
جڑانوالہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر اب عیسائی آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ عیسائی زیادہ تر غریب ہیں، چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے ہیں، ان میں سے اکثریت صفائی کے پیشہ سے منسلک ہے۔ جڑانوالہ میں خواندگی کا تناسب 57.10 فیصد ہے۔
مردوں میں خواندگی کا تناسب 65.76 فیصد بتایا گیا ہے۔ جڑانوالہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بھائی چارہ کی فضا پائی جاتی تھی مگر گزشتہ ہفتہ ایک افواہ کی بناء پر عیسائی برادری کے علاقہ کرسچن اور ناصر کالونی وغیرہ کے مکین بربریت کا نشانہ بنے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک شخص نے لوگوں کو مشتعل کیا اور بے ہنگم ہجوم نے چھ گرجا گھروں اور سیکڑوں مکانات کو نذرِ آتش کر دیا۔
پولیس نے اشتعال پھیلانے والے شخص سمیت سو کے قریب افراد کوگرفتار کیا، مگر اس جنونیت کے ماحول میں کچھ مسلمانوں نے انسانیت کی لاج رکھ لی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جڑانوالہ چرچ کے پادری جاوید بھٹی نے بتایا ہے کہ مقامی مسلمانوں نے عیسائیوں کو مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے بھرپور کوشش کی، جب خوف و ہراس میں لوگ ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے تو مسلمانوں نے انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور بعض باشعور مسلمانوں نے عیسائیوں کو بچانے کے لیے ان کے دروازوں پر قرآنی آیات چسپاں کیں۔
اس ہولناک واقعہ کی صدر عارف علوی، وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر اور اہم رہنماؤں نے مذمت کی۔ ملک کے نامزد چیف جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ جڑانوالہ گئے اور متاثرہ افراد سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
معروف عالم دین مولانا طاہر اشرفی کی قیادت میں وفد نے لاہور کے مرکزی گرجا گھر میں حاضری دے کر اس واقعے کی مذمت کی۔ عیسائیوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنوں نے پورے ملک میں احتجاجی جلوس نکالے۔ امریکی وزارت خارجہ اور برطانوی حکومت نے بھی جڑانوالہ میں گرجا گھروں پر حملوں کی مذمت کی۔
برطانوی وزیر مملکت برائے جنوبی ایشیاء و مشرق وسطیٰ لارڈ طارق احمد نے کہا کہ جڑانوالہ میں مسیحی برادری پر تشدد پریشان کن ہے۔ ان کا مدعا ہے کہ اس سانحہ کے ذمے دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پاکستان کے تمام شہریوں کو ظلم و ستم کے بغیر کسی خوف کے عبادت کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
لارڈ طارق کا کہنا ہے کہ برطانیہ سب کے لیے مذہبی یا عقیدہ کی آزادی کے لیے پرعزم ہے۔ ملک میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ابھی چند سال قبل خانیوال میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ ایسے ہی واقعات شانتی نگر، جوزف کالونی لاہور، سیالکوٹ اور پشاور وغیرہ میں بھی رونما ہوئے تھے۔
ایسے واقعات جب بھی ہوتے ہیں صدر، وزیر اعظم اور وزراء مذمت کرتے ہیں۔ کچھ واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بھی بنتے ہیں مگر پھر کچھ عرصہ بعد سازشی عناصر اپنے چھپے ہوئے مفادات کے لیے غریب عوام کو متصادم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر ان واقعات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو حقیقی تاریخ سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ دوسرا یہ کہ برسر اقتدار حکومتوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں جن سے مذہبی انتہا پسندی کو تحفظ حاصل ہوا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان بنانے میں مسلمانوں کے علاوہ اقلیتوں کا بہت اہم کردار تھا۔ جب پاکستان بنانے کی قرارداد متحدہ پنجاب کی اسمبلی میں پیش کی گئی تو آل انڈیا مسلم لیگ کو ایوان میں اکثریت حاصل نہیں تھی۔
یونینسٹ پارٹی کے اراکین مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر جب پنجاب اسمبلی میں قرارداد پر رائے شمار ہوئی تو پاکستان کے حامیوں اور مخالفین نے ووٹ پر برابر ہوئے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ستیا پرکاش سنگھا نے اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں دیا تھا، یوں قرارداد منظور ہوگئی تھی۔ اس زمانہ میں عمومی طور پر عیسائی انڈین نیشنل کانگریس کے حامی تھے۔
سنگھا نے آل انڈیا کرسچن ایسوسی ایشن قائم کی تھی۔ 1942میں مسلم لیگ کا ایک اجلاس لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں ہوا تھا۔
سنگھا نے اس اجلاس میں بیرسٹر محمد علی جناح کو عیسائی برادری کی طرف سے تعاون کا یقین دلایا تھا مگر تاریخ کا المیہ یہ ہوا کہ 1947میں نئے ملک کے قیام کے بعد سنگھا کو بتایا گیا کہ مسلمان پنجاب اسمبلی کا اسپیکر ہوگا، یوں سنگھا کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹا دیا گیا، سنگھا 1948میں انتقال کرگئے۔
تاریخ کے مطابق یہ پتہ چلتا ہے کہ 1965 اور1971 کی جنگوں کے دوران پاک فضائیہ اور بری فوج میں عیسائی فوجی افسروں نے بہادری کی کئی مثالیں قائم کیں مگر یہ سب کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔
جنرل ضیاء الحق حکومت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جانے لگا، ضیاء الحق حکومت نے ایسے قوانین متعارف کرائے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان بھی فرقہ واریت کو ہوا ملی۔ اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ گزشتہ پارلیمنٹ نے بھی متنازعہ قوانین پاس کیے۔
پیپلز پارٹی نے انسانی حقوق کے امور کا سیل منظم کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن سابق سینیٹر فرحت اﷲ بابر اس سیل کے سربراہ ہیں۔ اس سیل نے پارلیمنٹ کے ذریعہ پیش کیے جانے والے بعض قوانین بالخصوص کرمنل لاء ترمیمی بل 2023 پر تشویش کا اظہار کیا ۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اس ترمیمی بل سے فرقہ واریت کو فروغ ملے گا۔
اس اجلاس میں بتایا گیا کہ پہلے پرائیویٹ بل کے طور پر بغیر بحث اور بغیر کورم کے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور پھر سینیٹ سے بھی مناسب بحث کے بغیر منظور کرا لیا گیا۔ فرحت اﷲ بابر جو ہمیشہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین منظوری کے لیے متحرک رہے کا کہنا ہے کہ ایسی قانون سازی مذہبی انتہا پسندی کو تقویت دیتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ تحریر کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے پولیس کے ریٹائرڈ افسر ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا گیا۔
ڈاکٹر شعیب سڈل نے نصاب میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز پیش کی تھی مگر ان تجاویز پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی متاثرین سے ہمدردی اپنی جگہ مگر ان کا امتحان اس وقت شروع ہوگا جب وہ سابق چیف جسٹس جیلانی کے اقلیتوں کے بارے میں فیصلہ پر مکمل عملدرآمد کرائیں گے۔
مذہبی انتہا پسندی ایک ایسا خطرناک مرض ہے جس سے ملک کے تشخص کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس انتہا پسندی سے آبادی کا ایک حصہ ترقی کی دوڑ سے مجموعی طور پر دور ہو رہا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کے عالمی فورمز میں پاکستان کا چہرہ مسخ ہوتا ہے۔
یورپی ممالک کی تنظیم یورپی یونین نے پاکستان کو برآمدات کے لیے جی ایس پی پلس کا درجہ دیا ہوا ہے۔ جی ایس پی پلس کے درجہ کے بعد یورپی یونین کے ان ممالک کی منڈیوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔
یورپی یونین کی اسلام آباد میں تعینات یہ بات واضح کرچکی ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کو تحفظ دینے اور تقویت دینے والے قوانین کی بناء پر جی ایس پی پلس کا درجہ واپس لیا جاسکتا ہے۔ میاں نواز شریف کے دور میں جب پشاور پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا تو قومی ایکشن پلان منظور ہوا مگر اس پلان پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکا۔
اگر آج بھی ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ادارہ جاتی اقدامات نہیں کیے گئے تو پھر یہ ملک ایک اور تباہی کا شکار ہوگا۔