بٹ گرام کا واقعہ اور اداروں کے خلاف مہم
کوئی بھی ریسکیو آپریشن مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا، ہر جگہ آپ کو مقامی لوگوں کی مدد چاہیے ہوتی ہے
بٹ گرام کے سانحہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ سب سے اچھی بات یہی ہوئی کہ سب جانیں بچ گئیں۔ بچوں کو بچا لیا گیا ہے۔ اس سانحہ کے بعد ایک عجیب بحث شروع ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے حامی یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاک فوج نے یہ جانیں نہیں بچائی ہیں بلکہ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ جانیں بچائی ہیں۔
دوسری طرف ایک بڑی رائے یہی ہے کہ پاک فوج کے جوانوں نے ان بچوں کی جانیں بچائی ہیں جس پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ تحریک انصاف کے حامی فوج کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ان کو اس سے کیا حاصل ہو رہا ہے۔ لیکن شاید پاکستان میں اداروں کے خلاف جو مہم سازی کی جا رہی ہے یہ اسی کا حصہ ہے۔ اداروں کے مثبت کاموں کو بھی منفی بنا کر پیش کیا جائے۔
سانحہ کے حوالے سے دو طرح کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ ایک میں فوجی جوان ریسکیو کا کام کر رہے ہیں اور مقامی لوگ ان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ لیکن کچھ وڈیو کلپ ایسی بھی گردش کر رہی ہیں جس میں مقامی لوگ ریسکیو کا کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مقامی لوگ پاک فوج کے ایس ایس جی کے جوانوں کے ساتھ موجود تھے۔ ان کی مدد بھی کی گئی ہوگی۔
لیکن ایس ایس جی کمانڈوز کے کام اور ان کی کوششوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بغیر ریسکیو ممکن نہیں تھا۔ یہ پراپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے کہ ہیلی کاپٹر سے تو صرف ایک بچے کی جان بچانی ممکن ہوئی۔ اس لیے فوجی آپریشن ناکام ہوا۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ باقی جانیں بچانے کی حکمت عملی بھی کمانڈوز نے ہی بنائی۔
ایک طرف قوم کے بچے مشکل میں پھنسے ہوئے تھے۔ پوری قوم ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ان بچوں کے زندہ بچ جانے کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو صرف آپریشن کے ناکام ہونے کی دعائیں کر رہے تھے تا کہ انھیں اداروں کے خلاف بات کرنے کا موقع مل جائے۔
کوئی بھی ریسکیو آپریشن مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا، ہر جگہ آپ کو مقامی لوگوں کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ اس لیے مقامی لوگوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم ایس ایس جی کمانڈوز کی مہارت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ہیلی کاپٹر سے ایک بچے کی جان بچائی گئی۔ ایک جان کی بھی بہت قیمت ہے۔
لیکن اگر وہ بچے ایسی جگہ پھنسے ہوئے تھے جہاں ایک حد سے زیادہ ہیلی کاپٹر مددگار نہیں تھا تو کیا ہیلی کاپٹر سے کوشش نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ اگر ایک جان بھی ہیلی کاپٹر سے بچ سکتی تھی تو بچائی نہیں جانی چاہیے تھی۔ یہ لوگ کیا کہنا چاہ رہے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ میری رائے میں یہ منفی پراپیگنڈے کا وقت نہیں بلکہ سب کو خراج تحسین پیش کرنے کا وقت ہے۔ جس نے جو بھی کردار ادا کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ گزشتہ سیلاب میں دریائے سوات میں پانچ لوگ پھنس گئے تھے ان کو بچانے کے لیے نہ تو مقامی لوگ آگے آئے تھے اور نہ ہی تب کی تحریک انصاف کی حکومت نے کوئی ہیلی کاپٹر بھیجا تھا نہ ہی پاک فوج سے مدد طلب کی گئی تھی۔
وہ پانچ لوگ ہم سب کے سامنے زندگی کی بازی ہار گئے۔ صبح جب واقعہ ہوا تو فوری طور پر مقامی لوگوں نے ریسکیو کا کام خود ہی کیوں نہیں کر لیا۔ کیوں مدد آنے کے بعد یہ ریسکیوممکن ہوا۔یہ سوال ساری صورتحال سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔
آجکل پاکستان میں سول بالادستی کی بات بہت فیشن بن گیا ہے۔ یہ بات کی جاتی ہے کہ ہر جگہ فوج نظر آتی ہے۔ یہ ایک اچھا سوال ہے۔ کیا فوج نے سول اداروں کی استطاعت بڑھانے سے کسی حکومت کو روکا ہے۔ اب آپ کے پی کی ہی مثال لے لیں۔ کیا فوج نے قیام پاکستان سے قبل کی یہ فرسودہ ڈولی چیئر لفٹ قائم رکھنے کا کہا ہے۔
تحریک انصاف کے دوست اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ آپ نے کے پی پر دس سال حکومت کی ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ بچے اتنی خطرناک ڈولی چیئر لفٹ پر اسکول جاتے ہیں۔آپ دس سال میں بچوںکو اسکول جانے کا محفوظ راستہ اور محفوظ ذرایع نہیں دے سکے۔ آپ کام بھی نہ کریں اور پھر جب فوج کو کام کے لیے بلایا جائے تو تنقید بھی کریں۔
سول بالادستی کوئی اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے سے نہیں آئے گی بلکہ آپ کو سول اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ سوال تو یہ ہے کہ کے پی کے میں پی ڈی ایم اے کی کیا استطاعت ہے۔ وہ اس سانحہ کے وقت کہاں تھی۔ اگر فوج کو نہ بلایا جاتا تو کیا دس سال میں تحریک انصاف کی کے پی حکومت نے اپنے سول اداروں کو اتنا مضبوط کیا تھا کہ وہ اس طرح کی صورتحال سے نبٹ سکتے۔ ان کے کتنے لوگوں کو اس طرح کی صورتحال سے نبٹنے کے لیے ٹریننگ دلوائی گئی۔ کیا کچھ خریدا گیا۔ کیا ہر ضلع میں ان کا سیٹ اپ موجود ہے۔
ایک طرف سول بالادستی کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتیں اپنے دس دس سال کے دور حکومت میں سول اداروں پر کوئی کام نہیں کرتیں۔ دوسری طرف جس ادارے کے پاس استطاعت ہے اس کے کام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انھوں نے تو جنگوں میں کام کے لیے تیاری کی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ تیاری کیوں نہیں کی۔ آپ کو کس نے روکا ہے۔ سول بالادستی صرف نعروں سے نہیں آئے گی۔بہر حال اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے سے سول بالادستی نہیں آئے گی۔