سائنسی انقلاب کے ثمرات
جدید ایجادات نے انسانی زندگی کو سہل بنا دیا ہے
اگر ہم اپنے ماضی کے شعرائ، علماء اور دانشوروں کے افکار کا تحقیقی جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کے بیشتر اشعار و افکار میں ہمیں اگر عملی سائنس نہیں تو سائنسی تصورات وافر مقدار میں ملتے ہیں۔
اور اصل چیز زندگی کے بارے میں سوچ، فکر اور تصور ہی ہوتا ہے، پشتو کے صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
چا وے لار د ختو نشتہ دے آسمان تہ
ما وے لار بہ زہ پیدا کڑم پہ ہنر
(کسی نے مجھ سے کہا کہ آسماں تک پہنچنے کے لیے راستہ نہیں ہے، میں نے کہا وہ راستہ میں ہنر اور ایجاد کے طفیل پیدا کرلوں گا)
دیکھا جائے تو آج کا انسان اپنے علم وہنر اور نت نئی ایجادات کی بدولت کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور یہ سفر جاری ہے۔
کہنے کا مطلب یہ کہ جب تک اس کرہ ارض پرانسانی زندگی رہے گی اس وقت تک انسان اپنے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنے کے لیے نئے تجربات اور نئی ایجادات کرتا رہے گا۔ کمپیوٹر سائنس کو دنیا میں ایک جدید پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا، یہ کارنامہ بھی انسان نے خالق کائنات کی طرف سے ودیعت کردہ تخلیقی صلاحیتوں اور ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے انجام دیا۔
نئی سائنسی ایجادات اور انکشافات سے باخبر ہونے کے لیے ٹی وی پر نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری چینل ضرور دیکھنا چاہیئے۔
جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ دنیا کی کئی اقوام گہرے سمندروں کے اندر سرنگیں نکال رہے ہیں، اس کے اوپر پل بچھا رہے ہیں، انہیں دیکھ کرعقل و حیرت بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔ یہ قدرت کا کتنا بڑا انعام اور عطیہ ہے جس نے انسان کے مختصر دماغ کو اس قدر کمال اور فراست بخشی ہے کہ وہ محیر العقول کارنامے تخلیق کر رہا ہے۔
اپنے ملک کے مختلف شہروں میں موجود قدیم تاریخی قلعے دیکھیں، صوبہ سندھ میں موہنجوداڑو، لاہورمیں واقع شاہی قلعہ، شالیمار باغ، پشاور کی مسجد مہابت خان، قلعہ بالا حصار، ضلع مردان کی تحصیل تخت بہائی میں واقع کھنڈرات کی طرز تعمیر اور اس زمانے کی زندگی گزارنے کے لیے ان مقامات میں سہولتیں دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ قدیم تاریخی عمارتیں، پل، سرنگیں جو صدیوں پرانی ہیں مگر ان کی چمک دمک آج تک ماند نہیں پڑی، اور نہ ہی ان عمارتوں، پلوں اور سرنگوں اور اس کی دیواروں میں کوئی دراڑ سامنے آئی ہے۔
سائنسی انقلاب کے ثمرات دیکھیں کہ فرانس اور برطانیہ دو الگ ممالک ہیں جن کے بیچ میں ایک زور آور سمندر حائل ہے، لیکن ان دونوں ممالک کو اندر ہی اندر اس طرح ملا دیا گیا ہے کہ فرانس سے داخل ہونے والا کوئی بھی شخص راستے میں پانی کا ایک قطرہ تک نہیں دیکھتا اور برطانیہ پہنچ جاتا ہے۔
انسان نے صنعتی میدان میں بھی تیزی سے ترقی کی۔ آبادی میں اضافے کے باعث غذائی اجناس کی ضروریات بڑھتی گئیں۔ پھر اس مسئلے کے حل کے لئے فصلوں میں مصنوعی کھاد اور فصلوں کو کیڑے سے بچانے کے لئے زرعی ادویات کا استعمال شروع کیا گیا۔
سائنس وٹیکنالوجی کی بدولت انسان نے طب میں ترقی کی، جن بیماریوں کا علاج کبھی ممکن ہی نہیں تھا یعنی چیچک، ٹی بی اور کینسر وغیرہ آج میڈیکل سائنس ان امراض پر قابو پانے میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑ رہی ہے۔ انسانوں نے سائنس کی بدولت زمین، چاند اور ستاروں کو بھی مسخر کر لیا ہے۔
ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجادات نے انسانی زندگی میں بے شمار آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کے ذریعے ہم گھر بیٹھے دین اور دنیاوی علم، ہنر اور معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ ہی کے ذریعے کاروبار، شاپنگ اور خرید و فروخت تو اب ایک معمول بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے ذریعے ویڈیوز نے انسانوں کے مابین ملاقاتوں اور رابطوں کو انتہائی سہل بنا دیا ہے اور اب ہم دنیا بھر میں کسی بھی دوست، رشتہ دار یا اپنے کارباری شراکت دار سے بات چیت کر سکتے ہیں۔
سائنس وٹیکنالوجی نے انسان کی زندگی کو آرام دہ بنا دیا ہے اور آنے والے وقتوں میں دنیا کا نقشہ کیا ہوگا، اس حوالے سے پشتو کے معروف شاعر مرحوم اکرام اللہ گران کی ایک غزل کا مطلع یاد آیا کہ
راتلونکی وخت کے بہ یو زڑہ جمال تہ سنگہ گوری
خدائے خبر خلق بہ د مینے خیال تہ سنگہ گوری؟
(آنے والے وقت میں ایک دل حسن وجمال کو کس نظر سے دیکھے گا، خدا جانے آدمی محبت کے خیال کو کس نگاہ سے دیکھے گا؟)
موبائل فون کا انوکھا انقلاب تو ہماری نگاہوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا، اور اب صرف ایک بٹن دبانے سے آپ چند سیکنڈ میں دنیا کے کسی بھی کونے تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
موبائل فون کی ایجاد کے بعد انسانی زندگی میں اس قدر تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی کا تصور بھی محال لگتا ہے۔
اپنے ارد گرد جس طرف بھی نظرڈالیں سائنسی کرشموں کے حیرت انگیز نظارے، ایجادات اور انکشافات کی دنیا آپ کو نظر آئے گی۔
صدیوں کے فاصلے سمٹ کر لمحوں کی دسترس میں آگئے ہیں۔ دنیا نہ صرف عالمی گاؤں کا منظر پیش کر رہی ہے بلکہ آج کی دنیا گلوبل ہوم یعنی عالمی گھر بن چکی ہے۔ اگر ایک واقعہ دنیا کے کسی دور دراز علاقے میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو اسی وقت اس کی خبر پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہے۔
آج جدید موبائل اور انٹرنیٹ کی شکل میں شعرو ادب، سائنس وٹیکنالوجی، فن و موسیقی سمیت دنیا کے تمام علوم و فنون کا ایک بحرِ بے کراں ہے جس نے معلومات کے ایک سیلِ رواں کی صورت اختیار کر لی ہے۔ شمسی توانائی سے چلنے والے پینل بجلی گھروں کی جگہ لے رہے ہیں۔ آپٹیکل فائبر کی ایجاد نے پیغامات کی ترسیل کا کام اتنا سریع اور تیز رفتار بنا دیا کہ اب انسان یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ''آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟''