کل سے ایک بڑی خبر پوری دنیا کے میڈیا پر گردش کررہی ہے کہ بھارت کا خلائی مشن کامیاب رہا اور چندریان تھری چاند کے جنوبی قطب پر اتر گیا ہے۔ یہ یقیناً کم ترقی یافتہ ملک کےلیے بڑی خبر اور بہت بڑی کامیابی ہے۔
بھارت نے اس سے قبل بھی کوششیں کیں، جن میں وہ ناکام رہا، یہ اس کی تیسری کوشش تھی جس میں بھارت نے چاند تک رسائی حاصل کر ہی لی۔ اس سے قبل بھارت کی ناکامی پر ہمارے ہاں خوشیاں منائی جاتی رہیں اور کافی شوروغوغا بھی ہوا، بھارت کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اگر وہ ناکام ہوا بھی تھا تو کیا ہوا؟ کم از کم اس نے کوشش تو کی تھی اور کوشش کرنے والے ناکام بھی ہوا کرتے ہیں۔ ہم خود ہی تو ایک شعر پڑھتے ہیں کہ ''گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں، وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے''۔
بھارت نے کم از کم ایک کوشش تو کی اور بھرپور کوشش کے بعد ناکام ہوجانا یہ ناکامی نہیں ہوتی بلکہ کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کوشش کی اور بار بار کوشش کی، ناکام ہوئے، ہمارے مذاق اڑانے کے باوجود انہوں نے کسی بات کو خاطر میں نہ لائے اور پھر کوشش کی۔ اور بالآخر وہ کامیاب ہوگئے۔ یوں بھارت دنیا کا چوتھا اور ایشیا کا دوسرا ملک بن گیا، جس نے چاند تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ بھارت اس لحاظ سے بھی ایک بڑی کامیابی حاصل کرچکا ہے کہ اس نے چاند کے ایسے تاریک حصے پر قدم رکھا ہے جہاں ابھی تک ترقی یافتہ ممالک بھی نہیں پہنچ سکے۔ اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ دنیا کو اس حصے کے بارے میں بھی اہم معلومات حاصل کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔
ہمارے ہاں ایک مثال عام طور پر بولی جاتی ہے کہ ''دنیا چاند پر پہنچ گئی اور تم یہیں بیٹھے ہو''۔ یہ مثال بالکل درست ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا، جس کے حالات بھی پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں تھے مگر آج اس نے اس قدر کامیابی حاصل کرلی ہے کہ وہ چاند تک پہنچ گیا، مگر ہم کہاں بیٹھے ہیں؟ یہ ہمیں خود ہی بہت اچھی طرح اندازہ ہے۔
ہمارے ہاں سب کو صرف اور صرف اس بات کی فکر ہے کہ کس کو کرسی دینی ہے، کس کو عہدہ دینا ہے، کس سے عہدہ چھیننا ہے، کس کو بٹھانا ہے اور کس کو اتارنا ہے؟ کیا سیاست دان، کیا ادارے، کیا بیوروکریٹس، کیا صحافی، ہر ایک کو یہی فکر ہے کہ کون حکومت سنبھالے گا، کون حکومت چھوڑے گا، کون آئندہ انتخابات میں کامیاب ہوگا اور ملک کی باگ ڈور سنبھالے گا؟ کوئی بھی ترقیاتی کام ہونے لگے، کوئی بھی ملک کےلیے بھلائی سوچنے لگے تو سب کچھ سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی نہیں کر پارہا۔
ہمارا تعلیمی نظام بھی ایسا ہے جو طلبا میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا نہیں کرتا اور ہمارا حکمران طبقہ اس تعلیمی نظام کو بہتر کرنا بھی نہیں چاہتا۔ کیونکہ اگر طلبا میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوجائیں اور ان میں شعور آجائے تو حکمران طبقے کی عیاشیاں ختم ہوجائیں گی، جس کی وجہ سے انہوں نے عوام کو اسی حد تک رکھا ہے کہ بس لوگوں کا یہ ذہن بنے کہ انہوں نے پڑھ کر یا تو ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے یا کہیں ملازمت کےلیے خود کو تیار کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اندر تخلیق یا تحقیق کے بارے میں کوئی سوچ پیدا نہ ہو۔ اگر ڈاکٹر بنیں تو پھر بھی ملازمت ڈھونڈیں، اگر انجینئر بن جائیں تب بھی ملازمتیں تلاش کرتے پھریں۔ اگر بزنس مینجمنٹ میں ماسٹرز بھی کرلیں تب بھی ملازمتیں ہی تلاش کرتے پھریں۔ خود سے کچھ کرنا، خود سے کوئی نئی چیز تخلیق کرنا، کسی چیز پر تحقیق کرنا یا ایک کم از کم اپنے کاروبار کے بارے میں بھی ان میں سوچ نہ پیدا ہو۔ ایسے طلبا بہت ہی کم ہیں جو اپنے کاروبار کی طرف جاتے ہیں، ورنہ زیادہ تر کے اذہان کو ملازمتوں کی طرف ہی رکھا جاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ملازمت چاہے چھوٹی موٹی ہی ہو، تلاش کرکے اپنی زندگی گزاریں۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ''اسلامی نشاۃ ثانیہ کا دور عالم اسلام کا عظیم دور تھا۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اس دور میں عرب میں ایسی ایسی درسگاہیں قائم کی گئی تھیں کہ جہاں دنیا کے تمام علوم پر تحقیقی کام ہوتا تھا اور یہی وہ دور ہے کہ جب عالم اسلام نے الفارابی، ابن سینا، ابن رشد، خوارزمی، رازی، ابن الہیثم، مسعودی، ابوالوفا، البیرونی، طوسی، نصیرالدین، ابن نفیس، ابن طفیل، الکندی جیسے عظیم مفکر اور فلاسفر اور سائنسدان پیدا کیے تھے۔ ان کے تحقیقی کاموں سے آج بھی دنیا فیضیاب ہورہی ہے، یہاں تک کہ ایک وہ شہر جسے لوگ دنیا کے کسی گوشے کا گمنام شہر کہتے ہیں، وہاں بھی 16 ویں صدی میں 25 ہزار طلبا تعلیم حاصل کرتے تھے۔ میرا مطلب مالی کے شہر ٹمبکٹو سے ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج عالم اسلام میں ان جیسا ایک بھی قابل قدر فرد موجود نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم میں صلاحیت موجود نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک میں کوئی بھی ایسی تعلیمی درسگاہ موجود نہیں جہاں سائنسی و دیگر علوم کے شعبوں پر کوئی تحقیق کا کام ہورہا ہو، جس کو بین الاقوامی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل ہو۔ آج ہماری پسماندگی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے علم سے، جو ہماری میراث تھی، پہلو تہی کی ہے۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔