ڈالر ریٹ اور آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات
ملک میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے اگر کہیں برائے نام ہے تو موثر نہیں، کارآمد نہیں اور کئی اقسام کے مسائل کا شکار ہے
پاکستان میں ان دنوں ڈالرکی اڑان کی خبریں ایک بھیانک حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ اس ماہ کے پہلے پندرھواڑے کے گزرنے کے ساتھ ہی اوپن مارکیٹ میں ڈالر 300 کی حد کو پار کر چکا تھا۔ (اب یہ اوپن مارکیٹ میں 314روپے کا ہو گیا ہے) چنانچہ اس سلسلے میں میری دلچسپی بڑھنے لگی۔
ماہ جولائی کی درآمدات و برآمدات کے اعداد و شمار آ چکے تھے لیکن یہ ایک سمری تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ صرف درآمدات کا حجم 3 ارب 70 کروڑ ڈالر ریکارڈ ہو چکا ہے۔ لہٰذا ماہ اگست میں بھاری مقدار میں درآمدات کی خاطر کافی مقدار میں ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔
ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈالر ریٹ کی صحیح صورت حال جاننے کے لیے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کئی بار مختلف فارن ایکسچینج کمپنیز جا کر پوچھا تو معلوم ہوا کہ 16 اگست تک ایک ڈالر 306 روپے کا دستیاب تھا۔ اس کے دو دن بعد یہ ریٹ بڑھ کر 309 روپے تک پہنچ چکا تھا۔
گزشتہ منگل 311 روپے اور بروز بدھ جب اخبارات میں دیے گئے ریٹ سے بھی زیادہ کہیں دو روپے کہیں تین روپے کے اضافے کے ساتھ 316 یا 317 روپے فی ڈالر دستیاب ہو رہا تھا لیکن اس میں بھی کئی اقسام کی پابندیاں شرطیں لاگو تھیں کیونکہ حکومت کی طرف سے درست اقدام اٹھاتے ہوئے مختلف دستاویز کے ثبوت کے ساتھ ہی محدود مقدار میں ڈالرز فراہم کیے جا رہے تھے۔
اس وقت سب سے زیادہ پریشانی ان ایکسپورٹرز کو ہے جن کو اپنی برآمدات کی تیاری کے لیے مختلف اقسام کے درآمدی میٹریلز کی انتہائی سخت ترین ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ ماہ جولائی کے دوران گزشتہ مالی سال کے اسی ماہ کے مقابلے میں درآمدی بل میں ایک ارب 28 کروڑ ڈالرز کی کمی ہوئی ہے لیکن جس طرح سے بندرگاہ پر ہزاروں کنٹینرز ریلیز کے انتظار میں کھڑے ہیں جلد ہی پاکستان کا درآمدی بل زائد ہونے پر ڈالر کی چاندی ہونے والی ہے۔
البتہ حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فوری اثر یہ ہوا کہ جولائی 2023 کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر 79 کروڑ ڈالر خرچ آیا ہے۔ جب کہ گزشتہ سال جولائی کے دوران درآمدات کا حجم ایک ارب 43 کروڑ ڈالرز کے باعث 37 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن ماہ جولائی کی درآمدات کو ماہ جون کی درآمدات کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے ماہ جون 2023 کے دوران ایک ارب 63 کروڑ ڈالرز کی درآمدات ہو چکی تھیں۔
ان اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات متوقع ہے کہ آیندہ ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل مزید بڑھے گا۔ اگرچہ ماہ جولائی میں خوراک کی درآمدات میں کمی ہوئی ہے اور مشینری، ٹیکسٹائل، زرعی سامان کی درآمد کی گئی ہے، جوکہ آیندہ ایک ایسی معیشت جوکہ جمود کا شکار ہے جہاں بہت سارے معاشی مسائل موجود ہیں جن کے حل کرنے میں ڈالر کی بڑھتی قدر نے دیوار کھڑی کر دی ہے۔
لہٰذا مصنوعات کی برآمدات کی لاگت میں اضافے سے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ برآمدات پہلے ہی کمی کا شکار ہے اور اضافے کے لیے طویل المدت منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اب بھی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے روپے کو مضبوط کرنے کے کئی راستے موجود ہیں جن میں سے ایک آئی ٹی سیکٹر ہے۔
بعض ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات کو 25 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے حکومت وقت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کئی مسائل حل کرے جس میں اہم ٹیکسوں کا بوجھ ہے وغیرہ وغیرہ۔ بعض ماہرین کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایک ساتھ آزاد ہوئے لیکن پاکستان کے تعلیمی بجٹ اور آئی ٹی کے لیے مختص کیے جانے والے بجٹ کو دیکھیں اور بھارت جوکہ گزشتہ دو عشروں سے آئی ٹی کی تعلیم و تربیت اس کے فروغ اس کی ایکسپورٹ کے لیے جتنی زیادہ رقم خرچ کر رہا ہے، پاکستان میں اس طرف بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔
آج بھارت کی صرف آئی ٹی برآمدات کا حجم 190 ارب ڈالر سے زائد اور پاکستان کی برآمدات دو سے ڈھائی ارب ڈالر سے زائد نہیں ہے۔ اس علاقائی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا یہ دعویٰ درست نظر آ رہا ہے کہ اگر آئی ٹی شعبے کو مراعات، طلبا و طالبات کو مفت تعلیم و تربیت اور اس شعبے کو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے بجٹ سے پہلے اور بعد میں انتہائی مختصر مدت کے لیے اور دیگر امور کو سامنے رکھتے ہوئے فوری فیصلے کیے جائیں تو اس شعبے کی ترقی، جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا اور اعلیٰ ترین ماہرین تیار کرنا کچھ مشکل نہیں اور پھر برآمدات میں کئی گنا اضافہ قطعاً مشکل نہیں ہوگا۔
پاکستان میں ماہ جولائی میں اس شعبے کی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق صرف موبائل فون کی درآمد پر 75.59 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح ماہ جولائی میں موبائل فون کی درآمد پر 19 ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کی گئی ہے۔
پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت اس شعبے سے گہری دلچسپی رکھتی ہے اور دیگر ملکوں کی نسبت یہاں کے نوجوانوں میں کافی ٹیلنٹ موجود ہے۔ صرف ان پر مختصر مدت کے لیے فوری توجہ کی ضرورت ہے اور اس کام کے لیے صحیح قسم کی موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ان امور کے لیے دو سے تین ماہ ابتدائی طور پر صرف کرنا ہوں گے۔ ظاہر ہے مزید طویل مدت کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی لیکن کم ازکم اتنا وقت لے کر بھی کام کا آغاز کیا جاسکتا ہے جس سے یہ شعبہ جوکہ پہلے ہی فعال ہے لیکن سست رفتار ہے بھارت کے لاکھوں آئی ٹی ماہرین دنیا بھر میں موجود ہیں اور وہ اپنے ملک کو کھربوں روپے کا زرمبادلہ بھجوا رہے ہیں۔
پاکستان بھی لاکھوں آئی ٹی ماہرین تیار کرکے ان کی تربیت کرکے انھیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرکے اور مختلف ممالک کی زبانوں کا ماہر بنا کر بیرون ملک ایسی کارآمد اور لاکھوں ڈالرز سالانہ کمانے والے ماہرین کو روانہ کرکے اپنی ترسیلات زر میں بیش بہا اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ تمام باتیں بہ ظاہر مشکل نظر آ سکتی ہیں کیونکہ ملک میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے اگر کہیں برائے نام ہے تو موثر نہیں، کارآمد نہیں اور کئی اقسام کے مسائل کا شکار ہے جن کو حل کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔