300 کا ڈر تو ختم ہوا

اہل ثروت کا فکر کچھ اور ہے کہ اس شرح کا اگلا پڑاؤ 350 بلکہ400 کب تک ہو گا؟



انٹر بینک میں روپے ڈالر کی شرح مبادلہ نگرانی سے آزاد ہوئی تو چند ہی دنوں میں 300کی حد پھلانگ گئی۔

کرنسی ہو یا اسٹاک ایکسچینج ، جب بھی یہ چھلانگیں مارتے ہوئے نئی بلندی پر جائے یا لڑھکتی ہوئی مندی کی ڈھلوان پر ہو تو ہر اونچائی یا مندی کے نزدیک ترین بڑے نئے عددی لیول کو ماہرین نفسیاتی حد سے تعبیرکرتے ہیں۔

ایک بار حد کراس ہو جائے تو مارکیٹ پلئیرز اور مارکیٹ اگلی حد پار کرنے پر کمر کس لیتے ہیں ۔ مارکیٹ بڑی سنگ دل ہوتی ہے، کم بخت ماری سپلائی اور ڈیمانڈ کی بے رحم تھیوری نیک خواہشات ، دعاؤں اور سیاسی لفاظی سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوتی۔

روپے ڈالر شرح کی 300کی نفسیاتی حد عبور ہونے پر اہل ثروت کا فکر کچھ اور ہے کہ اس شرح کا اگلا پڑاؤ 350 بلکہ400 کب تک ہو گا؟ ہر نئی حد پر ان کا منافع کتنا بڑھے گا؟ لیکن ہر نفسیاتی حد عبوری پر باقی قوم کے فکر کچھ اور ہیں، بجلی وگیس بلز، پٹرول ، مہنگائی، دوا دارو، ٹرانسپورٹ کرایوں، اسکول فیسوں پر مشتمل قسم ہا قسم کی فکروں نے انھیں نفسیاتی بنا دیا ہے۔ پہلے ہی قوم کو نفسیاتی چرکوں کی کمی نہ تھی لیکن پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں تو حد ہی ہو گئی۔

ہمارے ایک ڈاکٹر دوست بتاتے ہیں کہ ان کے ایک ملازم کو بخار تھا۔ انھوں نے نسخہ تجویز کیا اور کچھ رقم بھی دی کہ دوائیں لو ، کچھ کھاؤ پیو اور ریسٹ کرکے واپس آنا۔ تین چار روز بعد اسی ملازم کو دیکھا تو حیران رہ گئے کہ بخار میں جل رہا ہے۔

احوال پوچھا تو علم ہوا اس نے دوائیں لی ہی نہیں۔ کیوں؟ میں نے تو تمہیں نسخہ لکھ کر دیا اور دوائیوں کے پیسے بھی، پھر کون سی مجبوری آن پڑی؟ ہمارے دوست نے حیرانی سے پوچھا۔

ملازم نے گلوگیر لہجے میں کہا؛ اللہ آپ کو سلامت رکھے، اس بار بجلی کا بل تین گنا زیادہ آیا، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے ادا کروں اور کیسے بچوں کے لیے راشن پانی پورا کروں ۔ اُس روز بل جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ آپ کی دی ہوئی رقم اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر جمع کی ہوئی رقم سے بجلی کا بل ادا کیا تاکہ بجلی نہ کٹ جائے۔ سوچا پیناڈول کھا لوں گا، بخار کا کیا ہے دو چار دن میں اتر جائے گا!

لاہور میںایک بڑی کمپنی کے ایک سینئر اہلکار سے ملاقات ہوئی ۔ کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے تو پھر بھی جیسے تیسے بجلی کے دہرے تہرے بلز ادا کیے لیکن ہمارے فیکٹری ورکرز کا تو دھواں نکل گیا ہے۔

اس بار مہینے کے دوران تنخواہ ایڈوانس لینے کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ جسے دیکھو، ایڈوانس کی درخواست اٹھائے منت ترلے کر رہا ہے؛ا بجلی کے بلز دو گنا سے بھی زائد ہیں، کہاں سے دیں مہنگائی نے پیٹ بھر کر کھانے پینے سے بھی معذور کر رکھا ہے، اس پر یہ کم بخت ڈبل ڈبل بل!

فیصل آباد سے ایک بہت بڑے نجی اسکول کی ایک سینئیر ٹیچر نے رابطہ کیا۔ روہانسی آواز میں اپنا گریہ کچھ یوں بیان کیا؛ اللہ جانے کیا ہو گا۔ سفید پوش تو مارے گئے۔ تمام بڑے برانڈز کے نجی اسکولوں نے 30-35% فیسیں بڑھا دی ہیں۔

او اور اے لیول کی اسکول فیس 45سے 55 ہراز روپے ماہانہ کر دی گئی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ٹیچرز کے لیے وہی رونا دھونا کہ مہنگائی کی وجہ سے کمپنی کے پاس تنخواہ بڑھانے کی گنجائش ہی نہیں۔

ماں باپ کی حالت دیدنی ہے۔ پچاس ہزار کے لگ بھگ اے لیول اسٹوڈنٹ کا اسکول کو دیں، امتحان تیاری کے لیے گھر ٹیوشن کا تیس پینتیس ہزار کا ریٹ ہے، اکیڈمی جائیں تو فی مضمون آٹھ ہزار، تقریباً ہر اسٹوڈنٹ اسکول کے ساتھ اکیڈمی یا ٹیوشن پڑھنے پر مجبور ہے۔ماں با پ ذہنی مریض ہو رہے ہیں لیکن اسکولوں کو کسی کا فکر ہے نہ ڈر۔

لوگوں کی استطاعت، ہمت، صبر اور حوصلہ جواب دے رہے ہیں۔ کل کی ہیڈ لائین ہے؛ مہنگی بجلی کی دہائی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے، بل نذر آتش، بجلی تقسیم کار کمپنی میپکو کے دفاتر کا گھیراؤ، کراچی میں کے الیکٹرک کے عملے کی دھلائی۔

روپے ڈالر کی 300کی نفسیاتی حد عبور ہوتے ہی معیشت دانوں اور تجزیہ کاروں کی جانی پہچانی کھیپ میڈیا پر براجمان ہو کر سمجھانے بیٹھ گئی ۔

یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اب آگے کیا ہوگا؟ خلاصہ جس کا یہ تھا کہ روپے ڈالر کی شرح کو 75 سے 150تک پہنچنے میں گیارہ سال لگے لیکن 150 سے 300 تک پہنچنے میں صرف تین سال لگے ۔ اگلی حد تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

قابل اجمیری نے کیا خوب کہا ہے ؛

فلک کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

300 روپے فی ڈالر کا حادثہ تین دِہائیوں سے تشکیل پا رہا تھا ۔ سیاسی کھلواڑ اور مفادات کی باڑ کے پار کوئی دیکھتا تو اس صاف دکھائی دے سکتا تھا مگر خواہشوں نے قرض کی مستی میں ہر حکومت کو حال مست رکھا۔ ملکی معیشت اور گورننس اشرافیہ کے ہاتھوں تباہ حال ہمارے سامنے ہے۔ جن کے ہاتھوں تباہ ہوئی وہ آج بھی مفاداتی چھریاں کانٹے سنبھالے مزید ہڑپنے پر کمربستہ ہیں۔

ایکسپورٹ بڑھانے اور گورننس بہتر کرنے کا راستہ مشکل تھا اور اپنی استطاعت سے دو اڑھائی گنا سستی امپورٹس کا راستہ آسان تھا۔ حواری بھی خوش تھے موالی بھی شاداں۔ یہ حال مستی کسی نہ کسی دن حادثے کا شکار ہونا تھی۔ اعزاز احمد آذر کا شعر یاد آیا؛

اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی

اب اس میں اگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا

مارکیٹ کی نفسیاتی حدوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار شیرہو جائیں تو پھر انھیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فی الحال یہی لگتا ہے کہ جو کرنا ہے شیر نے کرنا ہے عوام کو بس اپنی قربانی کی صفیں درست رکھنی ہیں تاکہ اشرافیہ کی ماضی کی ''حال مستیوں'' کا جرمانہ ادا ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔