’ یوم آزادی ‘ باجوں کا دن نہیں…
آج آپ بچوں سے پوچھ لیجیے کہ پاکستان کیسے بنا؟ تو اسے اس حوالے سے ذرا سا بھی پتا نہیں ہوگا؟
اسکول کی دو مہینے کی چھٹیوں کے بعد جہاں ہمارے دل پھر سے پڑھائی کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے، وہیں ایک دلی مسرت 14 اگست کی آمد کی بھی ہوتی تھی۔
اس کے لیے ہم ایک، ایک دن گن کرگزارتے تھے، ایک طرف اسکول کی تقریب کے لیے پرجوش ہوتے تھے، تو دوسری طرف ذاتی طور پر اس دن کے اہتمام کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ اپنے گھرکوکیسے سجانا ہے، ذرا الماری سے جھنڈا تو ڈھونڈ کے نکالا جائے، کہیں سال بھر میں کسی پوٹلی میں کھو نہ گیا ہو۔
ایک بار تو ایسا ہوا بھی تھا کہ ہماری امی پرچم کہیں رکھ کر بھول گئیں اور ہم نے اپنے روایتی جھنڈے کے بغیر ہی یوم آزادی منائی۔ گھر کی انگنائی، کھڑکیاں اور برآمدے کی سجاوٹ کے لیے پہلے سے جھنڈیاں لانا اور پھر انھیں باقاعدہ موٹے دھاگے میں پرونا، یہ ہم بچوں کی ایک باقاعدہ سرگرمی ہوا کرتی تھی۔ پھر محلے کی ہر دوسری تیسری گلی میں بھی بچے اور نوجوان نہایت دل جمعی سے اپنی گلی کو سبز ہلالی جھنڈیوں سے آراستہ کیا کرتے تھے، اس کے لیے پہلے سے گلی بھر سے 'چندا ' جمع کیا جاتا تھا۔
سارے حساب کتاب لگتے تھے کہ کتنے گھر ہیں، اور ہر گھر پر کتنے روپے چندا آئے گا۔ نہ صرف جھنڈیاں لگانا، بلکہ اس سے پہلے پوری گلی کی باقاعدہ صفائی،کہیں کونے کھدرے میں کوئی ملبا پڑا ہوا ہے تو بیلچے لے کر اسے ٹرالیوں میں بھرا جا رہا ہے، کہیں کوئی کاٹھ کباڑ یا پرانی موٹر سائیکل وغیرہ پڑی ہے تو اسے وہاں سے ہٹایا جا رہا ہے۔
اس کے بعد سبز جھنڈیوں کے ساتھ گلی کے نکڑ پر بانس گاڑکر اس پر ناریل کے درخت کی شاخوں سے 'دروازہ' بنانا، اور اس پر بانیان پاکستان کی تصاویر، برقی قمقمے اور دیگر آرائشی پھول آویزاں کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی ذہن اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں بڑے لڑکوں نے گلی میں حوض بنا کر فوارے بنانے شروع کر دیے تھے، کچی اینٹوں کا گھیرا بنا کر اس پر موٹا پلاسٹک بچھا کر اس میں پانی جمع کرنا۔
پھر اس میں مختلف رنگ ڈالے جاتے، جھاگ بنانے کے لیے کپڑے دھونے کا پائوڈر ڈالتے، اور بڑی محنت سے باقاعدہ موٹریں لگا کر فوارہ چلاتے تھے۔ ایک گلی نے اس کی شروعات کی تو دیکھا دیکھی محلے کی دیگر گلیوں کے لڑکوں نے بھی فوارے بنانے چاہے، لیکن یہ تیکنیکی اور محنت طلب کام کم ہی لوگوں سے ہو پاتا تھا۔
چودہ اگست کی یہ ساری سجاوٹ 13 اگست کی شام ہی سے شروع ہو جاتی تھی اور ساری رات جاگ کر صبح کو کہیں جا کر مکمل ہوتی تھی، ہم لوگ جب ان گلیوں کے نظارے کے لیے جاتے تھے، تو یہ ساری سجاوٹ کرنے والے بچوں کی آنکھیں رات بھر کی جاگ کی خبر دے رہی ہوتی تھیں، لیکن یہ ان کا جذبہ ہوتا تھا، جو ان سے یہ سب کرا رہا ہوتا تھا۔
کیا چھوٹے کیا بڑے سارے لوگ جوق در جوق اس اہتمام کو دیکھنے آتے رہتے تھے اور بچوں کی محنت کو دیکھ کر داد دیے بغیر نہیں رہتے تھے۔ دن بھر ان گلیوں میں ملی نغمے چلتے رہتے، کہیں چھوٹے بچوں کے لیے چودہ اگست کے خوبصورت بیج اور اسٹیکر بھی دیے جاتے، ایک گلی میں تو ہر سال ایک بڑا سارا کیک بھی کاٹا جاتا۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس تہوارکو عید اور بقرعید سے کسی طرح کم نہیں مناتے تھے، بلکہ سجاوٹ اور اہتمام کو دیکھیے تو ہم بچوں کی مصروفیت کے لیے یہ ہمارے لیے اس سے بھی زیادہ ہوجایا کرتا تھا۔ ہم اپنے گھر میں تین چار دن پہلے جھنڈا لگاتے اور جھنڈیاں صرف ایک دن پہلے لگاتے اور اسے بعد میں بہت احتیاط سے اتارکر محفوظ بھی کرتے اور اکثر یہ اگلے سال پھر کام بھی آجاتی تھیں، اگر اسکولوں کی سرگرمی دیکھیے تو 'یوم آزادی' پر باقاعدہ قومی ترانہ پڑھنے کے اہتمام کے ساتھ ملی نغمے، تقاریر، ٹیبلو اور دل چسپ خاکے پیش کیے جاتے تھے، جہاں کھیل کھیل میں بچے پاکستان اور پاکستانیت کے بے شمار سبق پا لیتے تھے۔ اسکول کے اساتذہ اور منتظمین بھی ہمیں جدوجہد آزادی کے حوالے سے فکر انگیزگفتگو کرتے تھے۔
یہ سب باتیں آج ہمیں یوں یاد آرہی ہیں کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی ہم نے پاکستان کا یوم آزادی گزارا ہے، جس میں اب ہمارے بچپن کی یہ ساری یادیں باجوں اور پٹاخوں کی بھیانک سمع خراشی سے بری طرح پائمال ہوتی ہوئی دیکھی ہیں۔ نہ اسکولوں میں وہ معیار دیکھنے کو ملا اور گلی محلوں کی بات تو اب چھوڑ ہی دیجیے، وہاں اب یہی شور شرابے کی '' بے ہودگی'' راج کر رہی تھی اور روک ٹوک کرنے پر لوگ دست وگریباں بھی ہوئے۔
بات ساری یہی ہے کہ بچوں کو جب کوئی سرگرمی ہی نہیں ملے گی، تو وہ یہی سب کریں گے، اگر ہم انھیں مثبت طور پر یہ دن اسی طرح منانے کی طرف راغب کریں کہ جیسا کہ ہم سب مناتے آئے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ سماعت تباہ کردینے والے پٹاخوں اور باجوں سے باز نہ رہیں۔ اب تو چودہ اگست کی ''خوشی'' میں رات بارہ بجتے ہی ہوائی فائرنگ کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے، جو اس سے پہلے صرف نیا سال شروع ہونے پر ہوتا تھا۔ نتیجتاً اس موقعے پر بھی بہت سی قیمتی جانیں گئیں، اور درجنوں لوگ زخمی ہو کر اسپتال پہنچے۔
اب ہم اپنے بچوں کو کیا دوش دیں، یہ سب ہماری ہی غفلت ہے، اب اسکولوں میں بھی چودہ اگست کے پروگراموں میں گویا جان چھڑائی جاتی ہے، ایک تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام نے ماضی قریب کے خوب صورت ملی نغموں کو ازخود 'کالعدم' کر دیا ہے، جس میں ایک جذبہ اور اس کی شاعری میں گہرائی ہوتی تھی، غور کیجیے تو بعضے الفاظ دل پر جا کر لگتے تھے، لیکن اب شاذ ہی وہ شیریں کلام سننے کو ملتا ہے، یہی حال اسکولوں کا بھی ہے، وہاں اب یوم آزادی کو دیگر ثقافتوں کا کلچرل شو کی طرح پیش کیا جانے لگا ہے۔
ارے صاحب یہ دن صرف پاکستان کا ہے، اس دن پاکستانیت کی بات ہونی چاہیے، جدوجہد آزادی کا ذکر ہو، قومی تاریخ کو اجاگر کیا جائے، اور انھیں آزادی کی اہمیت اور اس کی حفاظت کے لیے جگایا جائے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، بس ہوہا، ہڑبونگ اور ایک فنکشن اور تفریح برائے تفریح کے دن کی طرح منایا جانے لگا ہے۔
آج آپ بچوں سے پوچھ لیجیے کہ پاکستان کیسے بنا؟ تو اسے اس حوالے سے ذرا سا بھی پتا نہیں ہوگا؟ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی اور فاطمہ جناح کے سوا اگر وہ تحریک آزادی کے کسی اور راہ نما کا نام بھی بتا سکے تو شکر کیجیے گا۔۔۔! وجہ وہی ہے کہ ان کی تربیت اور ماحول میں فرق آچکا ہے۔ ہم بڑوں اور اساتذہ نے اس تربیت سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ اس لیے اب ہمارا 'یوم آزادی' اپنی روایتی حلاوت اور مقصدیت کے جذبے سے بہت پرے ہو چکا ہے۔