ڈرگ روڈ سے گنبد خضرا تک
محمود شام نے اس سفر نامے کو سفر ناموں کی تاریخ میں منفرد اضافہ قرار دیا
وہ بھی ایک وقت تھا جب ہماری ہاکی ٹیم عروج پر تھی پوری دنیا پر اس کا راج تھا وہ ہر بین الاقوامی میچ میں کامیاب ہوتی تھی شکست کا تو وہ نام ہی نہیں جانتی تھی۔
پوری پاکستانی قوم ہاکی ٹیم سے خوش تھی کہ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں نہ صرف پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا بلکہ پوری دنیا میں پاکستانی قوم کی عظمت کا ڈنکا بج رہا تھا۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے کہ عروج کے بعد ہاکی ٹیم پستی کی جانب گامزن ہوگئی اور رفتہ رفتہ ایک شکست خوردہ ٹیم بن گئی۔ جب عروج کا زمانہ تھا ہاکی ٹیم کی کارکردگی کو اجاگر کرنے اور اسے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اخبارات اور رسائل میں ہاکی کی دلچسپ خبریں اور خصوصاً مضامین بھی شایع ہوتے تھے جنھیں لوگ شوق سے پڑھتے تھے۔
ہاکی کے اسی عروج کے زمانے میں نامور جرنلسٹ شاہد منصور نے ہاکی پر پاکستان کا پہلا اکلوتا اور خوبصورت میگزین '' ٹائمز آف ہاکی'' کے نام سے جاری کیا جو عوام اور خواص میں بے حد مقبول ہوا۔ اس میگزین کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہاکی پر بے لاگ تبصرے کیے جاتے تھے جس پلیئر کی کارکردگی اچھی ہوتی اسے سراہا جاتا مگر پرچی والے پلیئرز کی کارکردگی پر تنقید کی جاتی تھی۔
پرچی پلیئرز کے ان داتاؤں کو یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی تاہم شاہد منصور نے حق و سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور قوم کو ہاکی کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کرتے رہے پھر ہوا یہ کہ بالآخر پرچی پلیئرز اور ان کے آقاؤں نے ہاکی کی عظمت کو بالکل خاک میں ملا دیا اور ہاکی ٹیم پھر وہ نہ رہی جو اصلاح الدین، سلیم اللہ اور کلیم اللہ کے زمانے میں تھی۔
اب تو ہاکی ہر معرکے میں شکست سے دوچار ہوتی اور قومی امنگوں کو پامال کرتی ایسے حالات میں قوم کی ہاکی کے کھیل میں دلچسپی ختم ہو کر رہ گئی اور پھر وہ درجنوں میگزین اور اخبارات جو ہاکی پر خصوصی مضامین اور خبریں شایع کرتے تھے رفتہ رفتہ وہ سلسلہ بند ہو گیا مگر شاہد منصور نے پھر بھی اپنا میگزین جاری رکھا۔ اب شاہد منصور صرف اور صرف اپنے خرچ پر اسے چلا رہے تھے۔ ہاکی کا حلیہ بگاڑنے والے آقاؤں نے اپنے پرچی پلیئرز کی تنقید کی پاداش میں شاہد منصورکے میگزین کے لیے اشتہارات کے تمام دروازے بند کرا دیے تھے۔
ناچار میگزین کی اشاعت تعطل کا شکار ہوگئی مگر ہاکی کی محبت پھر بھی شاہد منصور کے دل سے نہ جا سکی۔ اس کے بعد شاہد منصور نے حب کی ایک فیکٹری میں نوکری کر لی۔ اب وہ کراچی سے کوسوں میل دور جا چکے تھے جو شخص اپنے دوستوں اور عزیزوں کی آنکھ کا تارا رہا ہو اور جس کی خوش اخلاقی اور بزلہ سنجی سے محفلیں زعفران زار بنتی رہی تھیں اب وہ ان محفلوں سے بہت دور ہو چکا تھا۔
پھر ایک دن وہ آیا جب اس نے حب کی نوکری چھوڑ دی اور کراچی واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ دوست احباب یہ سمجھے کہ اب اس کے آنے سے پھر سے دوستوں کی محفلیں گرم اور رنگین ہوں گی دراصل دوستوں کی زندگی میں جو جمود سا آگیا تھا وہ اسے دور کرنا چاہتے تھے مگر یہاں تو شاہد منصور کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے اب انھیں کسی رنگین محفل کی طلب نہیں تھی وہ تو دیارِ نبیؐ اور خانہ خدا کے دیدار کے لیے تڑپ رہے تھے مگر وسائل کی کمی پر آبدیدہ تھے کہ ایسے میں امریکا میں مقیم ایک دیرینہ دوست محمد اشرف نے ان کی تڑپ اور جستجو کو دیکھتے ہوئے وسائل پیدا کردیے اور پھر وہ نہ صرف خود بلکہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مقدس سفر پر روانہ ہوگئے، وہ مکہ مکرمہ میں عمرہ کرنے کے بعد زیارت روضہ نبیؐ کے لیے مدینہ منورہ گئے۔ وہاں سے طائف بھی گئے۔ اس مقدس اور مبارک سفر نے ان کی دنیا ہی بدل دی اب وہ پہلے والا کھلنڈر شاہد منصور ایک سنجیدہ بندہ خدا اور عاشق رسولؐ بن چکا تھا۔
اس سفر نے اسے اتنا متاثر کیا کہ اس نے اسے یادگار بنانے کے لیے اس کی تمام روئیداد تحریر کرنے کا عزم کرلیا اور پھر واپسی پر '' ڈرگ روڈ سے گنبد خضرا تک '' نامی سفر نامہ مرتب کر ڈالا۔ شاہد منصور نے اپنے حجاز مقدس کے سفر کو منفرد انداز میں تحریر کرکے سفر ناموں کی فہرست میں ایک انقلابی سفر نامے کا اضافہ کردیا ہے۔ اس سفر نامے کو اتنی محبت اور عقیدت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اسے پڑھنے کے بعد شاہد منصور کی قلم نگاری، واقعہ نگاری اور مشاہدے کی گہرائی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
'' ڈرگ روڈ سے گنبد خضرا تک'' کے سفر نامے میں شاہد منصور نے مقدس مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں کی بلکہ تاریخی حوالے بھی پیش کیے ہیں جس سے ان کی تاریخ اسلام سے واقفیت اور دلچسپی ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ ان کے تاریخ اسلام کے گہرے مطالعے اور دینی معلومات پر گہری نظر ہونے کا پتا بھی چلتا ہے اور ان کی زندگی کا یہ وہ سنہری اور متبرک پہلو ہے جو ان کے اسپورٹس جرنلزم کی آڑ میں چھپا ہوا تھا اب سب کے سامنے آ گیا ہے۔ ان کے اس پہلو کے اجاگر ہونے سے ان کی قدر و منزلت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
گزشتہ دنوں بہادر یار جنگ اکیڈمی کراچی میں ان کے سفر نامہ ''ڈرگ روڈ سے گنبد خضرا تک'' کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس میں کئی نام ور ادیب، صحافی، شعرا اور سماجی رہنما شریک ہوئے۔ اس پروقار اور ایمان افروز تقریب کے مہمان خصوصی رضوان صدیقی اور صدارت کی سعادت محمود شام نے حاصل کی۔ اس تقریب میں عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اصلاح الدین نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس تقریب کے دیگر مہمانوں میں جناب سعید خاور، اقبال یوسف، ریاض الدین، راؤ شکیل، رانا اشفاق رسول اور مبشر میر شامل تھے۔
محمود شام نے اس سفر نامے کو سفر ناموں کی تاریخ میں منفرد اضافہ قرار دیا جس کے مندرجات اور اسلوب کی لذتیں بہت دیر تک محسوس کی جاتی رہیں گی۔ مہمان خصوصی رضوان صدیقی نے کہا شاہد منصور نے اپنے سفرنامے کی جہتوں کو ایک نیا آہنگ دیا ہے جس نے انھیں سفر نامہ نگاروں کی صف میں منفرد مقام عطا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سفرنامہ ''ڈرگ روڈ سے گنبد خضرا تک'' ایک نادر سفر نامہ ہے جسے ایک بار نہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔