کس کا گھوڑا ہنہنائے گا
ہماری کوئی مانے گا نہیں ورنہ ہمارے پاس ایک اچھا مشورہ موجود ہے
بظاہر تو ایسا لگتاہے جیسے:
سب پیچ وتاب شوق کے طوفان تھم گئے
وہ زلف کھل گئی تو ہوائوں کے خم گئے
صرف یہاں وہاں جو چھوٹے موٹے جکھڑ اورآندھیاں چل رہی تھیں، وہ تھم گئیں، یایوں کہئیے کہ سارے فریق اپنے اپنے گھوڑوں کودانہ پانی ڈال رہے ہیں تاکہ جب آیندہ شہرخموشاں پرہلہ بول ہوتو زیادہ سے زیادہ مال غنیمت ہاتھ لگے یعنی اس مظاہرخموشی کی کوکھ میں آیندہ کے طوفان پل رہے ہیں خاص طور پر سربراہی کا تاج جھپٹنے کے لیے تو سب اپنی اپنی اسٹرٹیجی ڈویلپ کررہے ہیں ، نئے نئے رشتے باندھ رہے ہیں، نئے ناظے جوڑ رہے ہیں:
ٹکڑے اٹھارہے ہیں مرے دل کوتوڑ کر
وہ اوردل بنائیں گے ٹکڑوں کوجوڑ کر
اس آنے والے طوفان کے بارے میں تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے کیوں کہ میدان میں بڑے بڑے گھاگ اورآزمودہ کارکھلاڑی موجود ہیں اورہرایک کی نظر تاج پر ہے،اس قسم کی صورت حال پر مبنی ایک کہانی بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے بھی بیان کی۔پارس کے مشہوربادشاہ اور فاتح کورش یاسائرس کاجب انتقال ہوا تو اس کے دوسرے بیٹے کمبوجہ (کمبائس) نے اپنے بڑے بھائی سیمردیس کو خفیہ طریقے پر قتل کرایا اورخود بادشاہ بن گیا، پھرجب وہ مصر فتح کرنے کے لیے نکل گیا تو مجوسی میگوں نے کہیں سمیردیس کاایک ہمشکل میگی تلاش کیا اورکورش کے بیٹے کے طورپر تخت نشین کیا، کمبوجہ کو جب مصر میں یہ خبر ملی تو حیران وپریشان ہوگیا کہ اپنے بھائی سمیر دیس کو تو وہ قتل کرواچکاتھا، یہ دوسرا سمیر دیس کہاں سے پیدا ہوا۔
مصر کی مہم ادھورا چھوڑ کر وہ پارس کی طرف روانہ ہوگیا لیکن راستے میں مرگیا اوریہاں وہ نقلی سمیردیس بلاخوف وخطر حکمران بن گیا لیکن ہخامشی سردار جانتے تھے کہ کورش کابیٹا سمیر دیس نہیں بلکہ نقلی میگی ہے چنانچہ سارے سرداروں نے مل کر اس سمیر دیس کو راستے سے ہٹانے کافیصلہ کیا اورایک دن موقع پاکر سمیر دیس کو مارڈالا، ان سرداروں میں داریوش اعظم یا دارائے کبیر بھی تھا جو بعد میں بہت نامورہخامشی حکمران بنا اورکورش سے بھی بڑی سلطنت بنانے میں کامیاب ہوا لیکن وہ ان سارے سرداروں میں سے حکمران کیسے بنا، یہ قصہ جو ہیروڈئٹس نے تفصیل سے بیان کیاہے۔
بڑادلچسپ ہے اس وقت صورت حال کچھ ایسی ہی تھی جیسی آج کل ہمارے ہاں ہے، وہ کل سات سردارتھے اورہرایک بادشاہ بننے کاامیدوار تھا ، اس مسلے کاحل یوں ڈھونڈاگیاکہ صبح سویرے سارے سردار اپنے گھوڑوں پر سوارہوکر ایک طرف چل پڑیں گے اورجس کاگھوڑا سب سے پہلے ہنہنایا وہی بادشاہ ہوگا اورصبح جب اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر نکلے تو سب سے پہلے دارا کا گھوڑا ہنہنایا اوراسے بادشاہ بنادیاگیا لیکن یہ نہ قسمت تھی نہ اتفاق تھا بلکہ باقاعدہ انتظام تھا۔
ہیروڈئٹس نے لکھا ہے کہ دارا کے پاس ایک گھوڑوں کا ماہر داروغہ یعنی سائیس تھا ، اس نے رات کو دارا کاگھوڑا لیا اوراس کے ساتھ ایک گھوڑی لگا دی، سائیس نے گھوڑے اورگھوڑی کو کچھ وقت تک ساتھ رہنے دیا اورپھر گھوڑی کو وہیں جنگل میں چھپاکر باندھا اورگھوڑے کو واپس لے آیا جس پر دارا سوارہوا اورگھوڑا جب اس مقام پر پہنچا جہاں گھوڑی تھی تو ہنہنایا۔
مولانا سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ لفظ ''سیاست'' بھی ''سائیس'' اسائس سے نکلاجس طرح گھوڑوں کو سدھانے سکھانے اورپالنے والا سائیس کہلاتا ہے، اسی طرح انسانوں کو بھی قابو کرنے والے کو سیاس کہتے ہیں جس سے سیاست کالفظ بناہے۔
اب یہ جو ہمارے سامنے صورت حال ہے تقریباً ویسی ہے ، سرداروں نے میگیوں کے بنائے ہوئے سمیردیس کو تو انجام تک پہنچایا لیکن اب دارا کون بنے گا ، یہ دیکھنا ہے، ظاہرہے کہ جو ماہرسیاس نکلے گا وہی دارا بنے گا۔
ہماری کوئی مانے گا نہیں ورنہ ہمارے پاس ایک اچھا مشورہ موجود ہے ، دیکھا جائے تو سرداروں کے اس ٹولے میں اکثر وہی ہیں ،ایک بار دیکھاہے اورباربار دیکھنے کی ہوس ہے ۔ بھٹو زرداری خاندان بھی اس گنگا میں باربار نہا چکاہے ، شریف خاندان بھی خوب خوب اپنے برتن پھانڈے بھر چکاہے ، ایک بچارے مولانا ہیں ، وہ کچھ نہ کچھ اقتدار کا مزہ لے چکے ہیں، پورا اقتدار نہیں ملا ہے یعنی دوردورسے دیکھ چکے ہیں اورباربار دیکھنے کی تمنا ہے چنانچہ اگر اس مرتبہ مولانا کے گھوڑے کو ہنہنایاجائے تو حصہ بقدر جثہ کاسلسلہ پورا ہوجائے گا۔
اس حسن کے ''سچے موتی'' کو ہم دیکھ سکے پر چھونہ سکے
جسے دیکھ سکے پر چھونہ سکے وہ دولت کیا وہ خزانہ کیا
مولانا سے بھی اتنی گزارش ہے کہ اگر بلی کے بھاگوں چھنکا ٹوٹ گیا تو ایک تو ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں کہ پیچھے قطار میں اور بھی کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اوردوسرے یہ کہ ہم بھی ایک عرصے سے آپ جیسے کسی مہربان کے منتظر ہیں۔