پیر پرستی اور چاند
اب سندھ تبدیل ہونا چاہتا ہے، کئی رانگ نمبرز ہیں جو سندھ کی درگاہوں کے اندر ہیں
سلطان باہو، بابا فرید، سچل سرمست، سامی و بھٹائی اور ان سب کا رہنما مولانا رومی اور کبیر ایک طرف اور دوسری طرف یہ درگاہیں، جہاں ان کے سجادہ نشین یکے بعد دیگرے گدی نشین بنتے ہیں۔
میں کسی کے اعتباروعقیدے پر تنقید نہیں کررہا ، بندے کا عمل اس کا اور اس کے رب کا نجی معاملہ ہے، وہ اپنے رب سے جس طرح سے بھی رجوع کرنا چاہے کرسکتا ہے اور دلوں کے بھید تو رب ہی جانتا ہے۔ کسی بندے کا یہ کام ہی نہیں کہ وہ خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط جانے۔
بات وہیں سے بگڑتی ہے جب بندہ خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط جاننے لگتا ہے، جب ہم دوسروں کے عمل میں مداخلت کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر یہ بگڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ جواہر لعل نہرو اور گاندھی کی سوچ نے ریاست اور مذہب کو الگ الگ کر دیا۔
ڈاکٹر امبیدکر جو ہندو ذاتوں میں اچھوت ذات سے ہیں، وہ شخص لیڈ کر رہا تھا ہندوستان کے آئین کو تحریر کرنے کا اہم کام۔ ہندوستان کے آئین میں یہ شقیں پھر بھی مبہم تھیں جب تک کہ ہندوستان کی کورٹ نے کیشو ونندا کیس کے ذریعے خود سیکیولر ازم کے عنصر کو ہندوستان کے آئین میں مضبوط نہ کیا کہ پارلیمنٹ ترمیم کے ذریعے چاہتے ہوئے بھی ان شقوں کو آئین سے نکال نہیں سکتی۔
کیشو ونندا کیس نے Doctrine of Implied Limitation کے اصولوں کے تحت سیکیولر ازم کو آئین کا حصہ بنایا، چونکہ سیکیولر ازم ہندوستان کے آئین میں تحریری طور پر موجود نہ تھا، صرف آئین کے تمہید میں تھا اور آئین کی تمہید عملی طور پر آئین کا حصہ نہیں ہوتی۔ سیکولر ازم کو آئین کا حصہ یہ بتا کر بنایا گیا کہ کانگریس کی تمام جدوجہد اور تاریخ اور ہندوستانی آئین کے اپنے خدوخال اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے، مگر ہمارے شیخ مجیب الرحمن نے تو وہ کام کر دکھایا جو کیشوونندا کیس میں بھی نہیں ہوا۔
شیخ مجیب الرحمن کے تحریر کردہ بنگلہ دیش کے آئین میں سیکولرازم تحریری طور پر بہ حیثیت salient feature موجود تھا۔ بعد میں جنرل ضیاء الرحمن نے سیکولر ازم کو نکال کر مذہب کو نمایاں خدوخال بنایا۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنے دورِ حکومت میں آئین کے خد وخال میں سیکولر ازم کو دوبارہ بحال تو کیا لیکن وہ اس کام کو اس طرح سے انجام نہ دے سکیں جیسا کہ شیخ مجیب الرحمن نے کیا تھا بہرِحال ارتقاء کا عمل جاری ہے۔
محمدعلی جناح نے بھی گیارہ اگست 1947 کو اس ملک کی بنیادوں میں سیکیولر ازم کو پیوست کیا تھا مگر ہم اس کے برعکس لے آئے قراردادِ مقاصد اور اب تو ہم اتنے بھٹک چکے ہیں کہ ایک ظلم کی داستان جلیانوالہ باغ کی جنرل ڈائر نے رقم کی تھی اور ایک داستان جڑانوالہ کی ہم نے رقم کی ہے ۔ توہین کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے نئے قوانین بنائے اور آئین میں ترامیم کیں۔
اب ہمارے ملک کے وہ حالات ہیں کہ کبھی بھی اور کہیں بھی کوئی کسی کو کافر قرار دے دیتا ہے، ایک ہجوم لگ جاتا ہے، وہیں عدالت لگ جاتی ہے۔ سزا کا تعین بھی ہوجاتا ہے اور وہیں سزا بھی دے دی جاتی ہے پھر بعد میں کہیں پتا چلتا ہے کہ کوئی آپس کی رنجش تھی جس پر لوگوں کو اکسایا گیا یا پھر کچھ اور۔سندھ برِصغیر کا ایک عجیب حصہ تھا، اس کے کئی تاریخی حقائق و پہلو بھی تھے۔ سب سے زیادہ صوفی مسلک کا اثر سندھ میں ہے۔
شاہ لطیف سندھ کے صوفی شاعر تھے، شاہ لطیف نے سندھی زبان میں شاعری کی۔ بادشاہ سلامت مذہب کو ریاست میں استعمال کرتے تھے مگر سچل نے بغاوت کی۔ سچل سر مست ، مدرسہ والوں کو بھاتے نہیں تھے۔ یہ اس وقت کی سیکیولر جنگ تھی، جس طرح یورپ میں پروٹسٹننٹ، کیتھولکس سے نبرد آزما ہوئے اور پھر اس کی بنیادوں سے نکلا سیکیولر یورپ۔
گورنر غلام محمد نے پاکستان کی تاریخ کو حملہ آوروں کی بہادری وشجاعت سے جوڑا اور سندھ اس تاریخ کو اپنے اندر جذب نہ کرسکا۔ پنجاب بھی اب بلھے و باہو کی طرف لوٹنا چاہتا ہے یا شاید '' ابھی شب میں گرانی نہیں آئی، چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی'' بہت سے پشتون خوشحال خان خٹک کو مانتے ہیں وہ خوشحال خان خٹک جس کو اورنگزیب بادشاہ نے پابندِ سلاسل کیا تھا۔
اس حوالے سے بلوچوں کی اپنی داستانیں ہیں، مگر بلوچ اور سندھیوں میں پیر پرستی اور وڈیرہ شاہی کا راج ہے۔ وہ بھی اتنے ہی پیر پرست ہیں جتنے کہ ہم سندھی۔ ہمارا سرائیکی بیلٹ بھی اسی پیر پرستی کا غلام ہے۔ ہمارے ملک میں کئی سیاستدانوں نے ہماری اسی توہم پرستی کا فائدہ اٹھایا۔ بشریٰ بی بی اور عمران خان نے بھی اس بات کا خوب چرچا کیا۔
ہماری بے نظیر بھٹو کی باتیں عظیم، ان کی قربانیاں عظیم، ان کے والد کی قربانی بھی عظیم، لیکن جلاوطنی کے بعد ان کی بھی ایک تصویر شایع ہوئی کہ وہ وطن واپسی پر لاڑکانہ میں ایک پیر صاحب کے قدموں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور پیر صاحب کرسی پر۔ پھر کیا تھا جناب ان پیر سائیں کی تو چاندی لگ گئی۔ بڑے بڑے لوگ ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے اور بے نظیر صاحبہ سے وڈیروں کے علاوہ سندھ کے پیر بھی ملنے لگے کیونکہ پیروں کی بڑی بڑی گدیاں ان کی پارٹی میں نہ تھیں۔
آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ بے نظیر بھی سندھ کی روایتی کا حصہ بن گئیں۔ بے نظیر بھٹو کی ایک تصویر نے لوگوں کو قائل کر دیا کہ پیر پرستی صحیح ہے، ۔ فاطمہ کی شہادت نے پورے سندھ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یقیناً سب پیر ایسے نہیں ہیں، جیسا کہ فاطمہ کے ساتھ ہوا۔
آرٹیفشل انٹیلیجنس کے اس دور میں یہ حویلیاں، یہ سیاسی پیر ، یہ سیاسی پیروں کے زیر کنٹرول درگاہیں اور سجادہ نشینی نے سندھ کو اقتصادی پسماندگی کے ساتھ ذہنی پسماندگی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔ اب اس ملک کو فرقہ واریت اور توہم پرستی کے شکنجے سے آزاد ہونا ہے۔ آج سے دو سو سال پہلے یورپ میں بھی شاید ایسا ہی تھا لیکن یورپ کس طرح سے تبدیل ہوا۔
ہندوستان چاند پر جا پہنچا ! ہندوستان کا چاند تک پہنچنا ان کے پنڈتوں اور انتہاپسند سیاستدانوں کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں۔ بلکہ یہ خبر تو خود مودی صاحب کے لیے بھی اچھی نہیں، وہ مودی جس نے ہندوستان کے سیکیولر ڈھانچے کو متاثر کیا۔ ہندوستان کا چاند پر پہنچنا پاکستان اور جنرل ضیاء الحق کی باقیات پر بھی سوالیہ نشان ہیں، اگر ہماری قوم نے جناح کی دی ہوئی گیارہ اگست کی ہدایات پر عمل کیا ہوتا تو آج ہم بھی چاند پر ہوتے۔
اب سندھ تبدیل ہونا چاہتا ہے، کئی رانگ نمبرز ہیں جو سندھ کی درگاہوں کے اندر ہیں۔ باقی جنگ آمنے سامنے کی ہے، یہ جنگ مذہبی اجارہ داریوں اور تواہم کے خلاف کل بھی تھی اورآج بھی ہے۔ پاکستان کی بنیادی جنگ تعلیم کی جنگ ہے، شرح خواندگی کی جنگ ہے، توہم پرستی اور فتویٰ پرستی کی جنگ ہے۔ سیاسی سجادہ نشینی اور گدی نشینی کی سے آزادی کی جنگ ہے۔ ہماری جنگ چاند پر پہنچنے کی جنگ ہے اور ہم چاند پر تبھی پہنچ سکتے ہیں جب اپنے اندر وہ اجالا لائیں۔