کیا یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے آخری حصہ
ہمارا فرض ہے کہ ہم ملک میں ایسا ماحول پیدا کریں جس میں ہمارے غیر مسلم پاکستانی خود کو محفوظ تصور کریں
مسلک کی بناء پر قتل اب ہمارے یہاں معمول بن چکے ہیں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اگر زبان سے نہ کہیں، تو دل میں اس نوعیت کی ہلاکتوں پر خوش ہوتے ہیں۔
ایک طرف یہ کہا جاتاہے کہ ایک بے گناہ اور معصوم انسان کا قتل، ساری انسانیت کا قتل ہے اور دوسری طرف بعض گروہ مسلک یا مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
ہمارا یہی وہ رویہ ہے جس نے ہماری اقلیتوں کو دل برداشتہ کر دیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ پاکستان جب وجود میں آرہا تھا اس وقت بانیٔ پاکستان نے ان سے مساوی حقوق کے جو وعدے کیے تھے، وہ محض دل فریب وعدے تھے۔ پاکستانی پرچم میں جس سفید پٹی کو ملکی اقلیتوں کی علامت قرار دیا گیا ہے کیا اب وہ کفن کی علامت نہیں بن گئی ہے؟
آج سے چند سال پہلے والے اس بچے کو بھی یاد کیجیے جس کا نام شیرون مسیح تھا اور جو اپنے علاقے کے بچوں کے ساتھ بورے والا ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، وہ جس وحشت و بربریت کا شکار ہوا وہ ناقابل یقین ہے۔ یہ ایک معصوم بچہ تھا لیکن اسے پڑھانے والوں اور اس کے ساتھ پڑھنے والوں کے سینے میں تعصب اور نفرت کی آگ بھڑکتی تھی جو شیرون کو جلا کر راکھ کر گئی۔ اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ وہ چوڑا ہے اسے ان کے واٹر کولر اور گلاس سے پانی پینے کا حق نہیں۔ اس نے اگر ان کے گلاس سے پانی پیا تو وہ نجس ہوجائے گا۔
شیرون کی ہلاکت کے بعد اس کی ماں رضیہ بی بی نے بتایا کہ وہ اسکول ختم ہونے اور بچوں کے کلاس سے چلے جانے کا انتظار کرتا تھا۔ اس روز شاید اسے زیادہ زور کی پیاس لگی تھی۔ تب ہی اس نے دن کے 11 بجے ہی پانی پینا چاہا تو اس کے ہم جماعتوں نے اسے روکا اور پھر ایک لڑکے نے وحشیانہ انداز میں اسے مارا، شیرون جب بیہوش ہو گیا تو لڑکے گھبرا گئے اور اسے رکشے میں ڈال کر بورے والا تحصیل اسپتال لے گئے لیکن وہ بچایا نہ جاسکا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم نے فروری 1948 کو پارسی برادری سے خطاب کیا تھا۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اقلیت کے تحفظ کے نام پر بنا ہے۔ اس لیے یہاں رہنے والی اقلیتوں کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔ مسیحی برادری نے قیام پاکستان کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا تھا، ہمیں ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ کیا ان کی ایک صدی قدیم بستی کے مکانات، گرجا گھروں اور مقدس کتابوں کو جلاکر ہم نے ان کے احسان کا بدلہ چکا رہے ہیں؟
قائد اعظم نے 1992 میں پارلیمنٹ کے مسیحی ارکان کے ایک وفد سے ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا۔ '' اگر پاکستان بنانے میں آپ مسلم لیگ کی مدد کرتے ہیں تو پاکستان کے قیام کے بعد ہم آپ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے، مسلمان آپ کا تعاون کبھی نہ بھولیں گے۔ مسیحی اقلیت ہمارے لیے ایک مقدس ذمے داری ہوگی اور ان کے جان و مال کی حفاظت ہمارے فرائض کا حصہ ہوگا۔''
1947 میں جناح صاحب نے پنجاب اسمبلی کے مسیحی اسپیکر ایس پی سنگھا سے ملاقات کر کے مسیحی برادری سے درخواست کی تھی کہ وہ تحریک پاکستان کی حمایت کریں۔ قائد اعظم نے یہاں تک کہا کہ مسیحی برادری کی مدد کو مسلمان نسل در نسل فراموش نہیں کرسکیں گے۔ ذرا سوچیے 75 برسوں میں ہم نے نسل در نسل ان سے کیا سلوک روا رکھا ہے؟
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ جب پنجاب اسمبلی میں مغربی پنجاب کو پاکستان بنانے کے لیے جب رائے شماری کی گئی تو اس کے حق اور مخالفت میں ووٹوں کی تعداد برابر تھی، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ایس پی سنگھا نے اپنا فیصلہ کن ووٹ مغربی پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنانے کی حمایت میں ڈالا۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے فوجیوں نے جنگوں کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایئر فورس کے اور بحریہ کے افسروں اور جوانوں کو اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں غیر مسلم پاکستانیوں یعنی مذہبی اقلیتوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، اسے ابتدائی تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے اور ہر مناسب موقع پر اسے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا رہے۔
انھوں نے کہا تھا '' اب ہمیں کیا کرنا ہوگا، اب اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پورے دل و جان سے اس کے عوام خصوصاً ناداروں کی فلاح و بہبود کے کام میں جت جانا ہوگا، اگر آپ نے ماضی اور پچھلی عداوتوں کو بھلا کر باہمی تعاون کے جذبے کے ساتھ کام کیا تو کامیابی آپ کا مقدر ٹھہرے گی، اگر آپ ماضی کی روش سے چھٹکارا پاکر اس جذبے کے ساتھ کام کریں کہ ہر فرد چاہے اس کا تعلق کسی بھی برادری سے ہو، ماضی میں اس کا آپ سے کیسا بھی تعلق رہا ہو، اس کے رنگ، نسل اور ذات سے قطع نظر وہ اول، اوسط اور آخر، مراعات ، حقوق اور فرائض رکھنے والا اس مملکت کا شہری ہے۔
اگر آپ جذبے سے کام لیں گے تو آپ کی ترقی کی کوئی حد نہ ہوگی۔ میں اس پر جتنا زور دوں وہ کم ہوگا۔ ہمیں اسی جذبے کے ساتھ کام کا آغاز کرنا چاہیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثریتی و اقلیتی برادری، ہندو برادری اور مسلمان برادری، کیونکہ خود مسلمانوں کے بیچ آپ کو پٹھان، پنجابی، شیعہ، سنی، جیسی تفریق دکھائی دیتی ہے۔ ہندوئوں کے مابین آپ کو برہمن، ویش، کھشتری کے ساتھ ساتھ بنگالی، مدراسی وغیرہ جیسی تفریق نظر آتی ہے۔
درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو ہندوستان کے لیے آزادی و خود مختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی شے ہے۔ اگر یہ سب کچھ ہوتا تو ہم بہت پہلے ہی آزادی حاصل کرچکے ہوتے۔ کوئی طاقت کسی دوسرے ملک کو غلام نہیں رکھ سکتی اور خاص طور پر چالیس کروڑ آبادی والے ملک کو غلام نہیں رکھا جاسکتا۔ اگر یہ تفرقے موجود نہ ہوں تو کوئی آپ کو مفتوح نہیں بناسکتا اور اگر ایسا ہوجائے تو کسی کے لیے بھی اپنا اقتدار طویل عرصے تک برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ لہٰذا ہمیں اس سے لازماً سبق سیکھنا چاہیے۔
آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ اپنی مساجد یا اس مملکت پاکستان میں کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو اس بات کا امور مملکت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ انگلستان میں کچھ عرصے پہلے تک صورتحال ہندوستان سے بھی کہیں زیادہ دگرگوں تھی۔ رومن کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ ایک دوسرے کے گلے کاٹتے تھے۔ حتیٰ کہ آج بھی کئی ریاستیں ایسی موجود ہیں جہاں امتیاز برتا جاتا ہے اور ایک خاص طبقے کے خلاف پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
خدا کا شکر ہے، ہمیں ان دنوں میں آغاز نہیں کرنا پڑا۔ ہم ان دنوں میں آغاز کر رہے ہیں جہاں کسی ایک نسل یا برادری اور دوسری کے مابین تفاوت یا امتیاز باقی نہیں ۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی شہری ہیں۔ انگلستان کے لوگوں نے طویل عرصے تک درپیش حقائق کا سامنا اور اپنی حکومت کی طرف سے لادا جانے والا بوجھ اٹھایا، انھوں نے قدم قدم انگاروں پر چل کر یہ منزل پائی۔
آج آپ عدل سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ رومن کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ موجود ہی نہیں۔ جو موجود ہے وہ کوئی اور نہیں ایک شہری ہے۔ برطانیہ عظمیٰ کا مساوی شہری اور وہ سب ایک قوم کے افراد ہیں۔ اب ہمیں اسی شے کو اپنے لیے نمونہ بنانا ہوگا اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ تو ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں بحیثیت ایک مملکت کے شہری کے۔
یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ملک میں ایسا ماحول پیدا کریں جس میں ہمارے غیر مسلم پاکستانی خود کو محفوظ تصور کریں۔ ہم سب کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کیا یہ بانی پاکستان محمد علی جناح کا پاکستان ہے یا ایک ایسا پاکستان جسے کوئی گمراہ اور انتہا پسند ہجوم جب چاہے یرغمال بناکر بے گناہوں کا خون بہا سکتا ہے؟