ترکیہ و ایرانی ساختہ ڈرونز اور امریکی پریشانی
ایران ڈرونز فروخت کرکے ایک طرف زرِ مبادلہ کما رہا ہے اور دوسری طرف امریکی ناک بھی رگڑ رہا ہے
رُوس و یوکرائن جنگ( جسے شروع ہُوئے500 سے اوپردن ہو چکے ہیں) میں جنگی ڈرونز مرکزی کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔دونوں متحارب ممالک مہلک جنگی ڈرونز بکثرت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
دُنیا بھر میں جنگی ڈرونز کا خوف پھیل رہا ہے۔اِسی خوف کے پس منظر میں21اگست2023 کو نیدر لینڈز نے اسرائیل کے ساتھ 55ملین ڈالرز کا معاہدہ کیا ہے۔اِس معاہدے کے تحت اسرائیل ، نیدر لینڈز کو ایک ایسا جدید ترین Albit System فراہم کرے گا جس کے تحت حملہ آور ڈرونز کا تدارک کیا جا سکے گا۔
2اگست2023ء کو خبر آئی کہ رُوسی دارالحکومت، ماسکو، کی ایک ہائی رائز بلڈنگ( جس میں تین اہم رُوسی وزارتوں کے دفاتر تھے) پر ڈرونز نے پھر حملہ کیا ہے۔
ماسکو میں یہ بلڈنگ IQ Quarter کہلاتی ہے ۔پچھلے تین مہینوں میں ماسکو پر جنگی ڈرونز کا یہ تیسرا حملہ تھا۔اگرچہ اِن حملوں میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہُوا لیکن مالی نقصان خاصا ہے ۔
6اگست کو بھی بحیرۂ اسود میں کھڑے ایک رُوسی آئل ٹینکر پر ڈرون حملہ ہُوا۔ رُوسی حکومت کے ترجمانDmitry Peskov نے الزام لگایا ہے کہ '' یہ ڈرونز حملے یوکرائن نے کروائے ہیں۔
ہم اِن کا اِسی شدت سے جواب دیں گے۔''اگست2023کے تیسرے ہفتے ممتاز امریکی اخبار ( واشنگٹن پوسٹ) نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ روس و یوکرائن جنگ میں بروئے کار آنے والے مہلک ڈرونز کے پیش منظر میں امریکا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھی جنگی ڈرونز کی انتہائی جدید قسم میدان میں اُتارے گا۔
عالمِ اسلام کی جانب نظر دوڑائی جائے تو نظر آتا ہے کہ ترکیہ اور ایران عالمِ اسلام کے دو ایسے ممالک ہیں جو جدید جنگی ڈرونز ٹیکنالوجی سے زرِ مبادلہ بھی کما رہے ہیں اور عالمی جنگی اسلحہ سازی کے میدان میں امریکا و مغربی ممالک کی برابری کے دعویدار بھی ہیں۔
جولائی2023 کے وسط میں ترکیہ کے صدر، جناب طیب ایردوان، نے سعودی عرب کا مفید دَورہ کیا ۔مثال کے طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ترکیہ صدر طیب ایردوان کے درمیان ایسے کئی معاہدوں پر دستخط ہُوئے ہیںکہ دونوں ممالک انرجی، دفاع، صنعت اور میڈیا کے میدانوں میں ایک دوسرے سے تعاون بھی کریں گے اور سرمایہ کاری بھی ۔ اِن معاہدوں میں مگر سب سے اہم ترین یہ معاہدہ سامنے آیا ہے کہ ترکیہ اپنے ملک کے تیار کردہ جنگی ڈرونز سعودی عرب کو فروخت کرے گا۔ یہ ڈرونز ترکیہ کی ممتاز ٹیکنیکل کمپنی Baykarبنا رہی ہے۔
مذکورہ ڈرون ساز کمپنی کے سی ای او Haluk Bayraktarکا کہنا ہے : ''جمہوریہ ترکیہ کی تاریخ میں ، سعودی عرب کو ڈرونز فراہم کرنے کے حوالے سے، یہ معاہدہ ڈیفنس اور ایوی ایشن کا سب سے بڑا ایکسپورٹ معاہدہ ہے ۔''
سعودی سرکاری میڈیا ( SPA) بھی اِس بارے تصدیق کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔مثال کے طور پر سعودی وزیر دفاع، شہزادہ خالد بن سلمان ، سے منسوب ایک بیان یوں سامنے آیا ہے :''سعودی عرب یہ ڈرونز اِس نیت اور مقصد کے تحت حاصل کررہا ہے کہ اِن سے سعودی دفاع کو بھی مطلوبہ استحکام ملے گا اور ہماری اپنی مینو فیکچرنگ صلاحیتوں میں اضافہ بھی ہوگا۔'' دوسری جانب اِس ڈرون سودے سے برادر اسلامی ملک ترکیہ کی معیشت کو بھی سنبھالا ملے گا۔
مذکورہ ترکیہ کمپنی کے تیار کردہ جنگی ڈرونز مبینہ طور پر پہلے ہی لیبیا، یوکرائن اور آزربائیجان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اگرچہ ترکیہ ساختہ ڈرونز کی اِن کامیابیوں سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو کئی پریشانیاں بھی لاحق ہو چکی ہیں۔
جدید جنگی ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی اسلامی ملک کو ترقی کرتے ہُوئے امریکا کیسے ہضم کر سکتا ہے ؟ وہ تو ہر جنگی ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکی اجارہ داری کے خواب دیکھتا ہے۔
اور جب کبھی کسی اسلامی ملک کو اِس ضمن میں آگے بڑھتے دیکھتا ہے، مختلف حیلوں بہانوں سے رکاوٹیں ڈالنے کی سعی کرتا ہے۔ ترکیہ صدر جناب طیب ایردوان مگر امریکی دھمکیوں سے ڈرتے ہیں نہ امریکا ساختہ رکاوٹوں سے خائف ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران بھی اُن اسلامی ممالک میں سے ایک ہے جس کی ڈرونز جنگی ٹیکنالوجی میں حاصل کردہ تخصص اور مہارت امریکا کی آنکھ میں خارِ مغیلاں کی طرح کھٹک رہی ہے۔امریکا کو ایران کی بھی یہ مہارت اُسی طرح ہضم نہیں ہو رہی جس طرح اُسے آج تک پاکستان کی حاصل کردہ ایٹمی صلاحیت ہضم نہیں ہو رہی۔
امریکا آج تک پاکستان پر یہ بیہودہ الزام عائد کرتا آ رہا ہے کہ اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے مشکل راز مغربی ممالک سے ''چوری'' کیے تھے۔ ایسے ہی الزامات مغربی ممالک اور امریکا ، ایران پر بھی عائد کرتے ہُوئے کہہ رہے ہیں کہ ''ایران نے20برس قبل جرمنی سے ، غیر قانونی طور پر، جنگی ڈرون سازی کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی ''۔ معروف برطانوی اخبار، گارڈین، نے تو اِس ضمن میں ایران مخالف ایک لمبا چوڑا طومار بھی باندھ دیا ہے۔
مشہور امریکی الیکٹرانک میڈیا، سی این این، بھی ایسا ہی الزام ایران پر عائد کررہا ہے ۔ مگر تمام تر امریکی ہتھکنڈوں کے باوصف ایران کو جنگی مقاصد کے لیے ڈرونز بنانے سے روکا جا سکا ہے نہ فروخت کرنے سے !
خاص امریکی پریشانی یہ ہے کہ ایران کیوں اپنے ڈرونزرُوس کو فروخت کررہا ہے ؟ روس کو فروخت کیے جانے والے ''شہید136'' نامی یہ جنگی ایرانی ڈرونز مبینہ طور پر یوکرائن کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔ امریکا کا خیال ہے کہ اِس جنگ میں رُوس کی جانب سے استعمال ہونے والے ایرانی ڈرونز (شہید136)رُوس کی بالا دستی قائم کر رہے ہیں۔
یوکرائن نے اپنے علاقے پر حملہ آور کئی رُوسی ڈرونز مار گرائے ہیں۔برطانیہ میں بروئے کار ایک تحقیقی ادارے CAR(Conflict Armament Research) نے جب گرائے گئے اِن ڈرونز کا لیب تجزیہ کیا تو مبینہ طور پر یہ انکشاف ہُوا کہ '' یہ ایرانی ساختہ ڈرونز ''شہید136'' ہی ہیں '' اور یہ کہ '' ان ڈرونز میں استعمال ہونے والے انجن دراصل وہی جرمن ٹیکنالوجی ہے جسے2عشرے قبل ایران نے جرمنی سے''غیر قانونی طور پر'' حاصل کیا تھا۔''
گزشتہ روز یوکرائن کے ڈیفنس انٹیلی جنس چیف(Kyrylo Budanov)کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ''رُوس نے حال ہی میں ایران سے مختلف صلاحیتوں کے حامل1700ڈرونز خریدنے کا آرڈر دیا ہے۔'' 25 جولائی2023کو سی این این نے یہ تہلکہ خیز خبر دی کہ ایران کے تعاون سے رُوس اپنے ہاں جنگی ڈرونز بنانے کا کارخانہ لگا رہا ہے۔ یہ خبریں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے پیٹ میں مروڑ ڈال رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں ہر شئے اور ہر اقدام جائز ہو جاتا ہے ؛چنانچہ رُوس بھی یوکرائن کی جنگ جیتنے کے لیے ہر جائز ، ناجائز اقدام کررہا ہے ۔ اِن اقدامات میں ماسکو اور تہران کے بڑھتے عسکری تعلقات نمایاں طور پر سامنے آ رہے ہیں۔
امریکا گزشتہ کئی برسوں سے ایران کی مذہبی و ملّا حکومت کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے ایران پر جو مسلسل اور ظالمانہ معاشی و سفارتی پابندیاں عائد کر رہا ہے، اپنی بقا کے لیے ایران کو رُوس کی قربت اختیار کرنا پڑی ہے ۔رُوس کو ایرانی ڈرونز کی مبینہ دھڑا دھڑ فراہمی ماسکو و تہران دوستی کو مضبوط تر کررہی ہے۔
جدید جنگی ٹیکنالوجی میں خود کفیل رُوس خود بھی ڈرونز بنا رہا ہے لیکن اُسے ایرانی ساختہ ڈرونز ( جن کی تیاری پر فی ڈرون 20ہزار ڈالر خرچ ہو رہے ہیں) ارزاں پڑ رہے ہیں ۔ ایران ڈرونز فروخت کرکے ایک طرف زرِ مبادلہ کما رہا ہے اور دوسری طرف امریکی ناک بھی رگڑ رہا ہے۔