گئے وقتوں کی بات ہے بھٹو زند ہ تھا۔ ہم ایٹمی قوت نہیں تھے، بالکل ایسے ہی جیسے آج ہم چاند پر نہیں گئے۔ خلائی میدان میں ہمارا کہیں شمار نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان دولخت ہوچکا تھا، بچے کچھے پاکستان پر بھٹو کی حکومت تھی۔ ہم ہر لحاظ سے کمزور تھے۔ بھارت کو اس وقت بھی ہم پر معاشی، فوجی لحاظ سے برتری حاصل تھی، نہلے پر دہلا بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے گویا ہمیں پاتال میں دھکیل دیا۔
ایسے میں بھٹو جو روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر حکومت میں آئے تھے، انہوں نے اپنے منشور کی پرواہ کیے بغیر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے یہ تک نہ سوچا کہ اگر وہ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان نہ دے سکے تو اگلا الیکشن ہار جائیں گے۔ 'ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے' کا نعرہ لگادیا۔ اور پھر دیوانے کے خواب کو حقیقت کر دکھایا۔
آج تقریباً نصف صدی بعد ایک بار پھر ہم معاشی، سیاسی ہر لحاظ سے کمزور ہیں اور ہمارا پڑوسی بھارت چاند پر پہنچنے والا چوتھا ملک بن چکا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس اب کی بار بھٹو زندہ نہیں جو یہ کہہ سکے کہ ہم گھاس لیں گے مگر چاند پر جائیں گے۔
اگر آج بھٹو زندہ ہوتے تو مسلم امہ ہمارے ساتھ ہوتی، وطن عزیز میں اسلامی کانفرنس منعقد کرواتے، پاکستان کو سفارتی تنہائی سے نکالتے، معاشی میدان میں ترقی کےلیے پاکستانیوں کےلیے دنیا کے بارڈر کھلوائے جاتے، سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاتا۔ افسوس صد افسوس آج بھٹو کے زندہ ہونے کا محض نعرہ تو ہے مگر آج کے حکمران پاکستان کو خلائی طاقت بنانے کے بجائے خود کو طاقت ور بنانے میں مصروف ہیں۔
آج کے حکمران اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالت زار تو کیا درست کرتے، اپنے اپنے علاقوں کی ٹوٹی، پھوٹی سڑکیں تک ٹھیک کرانے کے روادار نہیں۔ ، آج کے حکمران دشمن ممالک کی گیدڑ بھبکیوں کا جواب کیا دیتے، وہ تو اپنے علاقوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین بھی مہیا نہیں کرپارہے۔ آج کے حکمران برسوں سے اور باری باری اقتدار میں ہونے کے باوجود عوام کے دن بدلنے کے بجائے صرف اپنے وزیروں کے دن بدل رہے ہیں۔ آج کے حکمرانوں کی ترجیحات عوام نہیں صرف اور صرف ذاتی مفادات ہیں، اس لیے نہ تو عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ علاج معالجے کی سہولیات، اس پر مستزاد ہوشربا مہنگائی نے عوام پر زندگی تنگ کردی ہے۔
آج کے وہ حکمران جنھیں بھٹو کی طرح پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا تھا، وہ اپنی ہی سیاست بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب ان سیاستدانوں کا مطمع نظر صرف ذاتی مفادات ہی ہوں تو پھر وہ پاکستان کو کیسے خلائی طاقت بنائیں گے، کس طرح دشمن ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں گے، کس طرح پڑوسی ملک کی طرح چاند پر جاسکیں گے؟
آج اگر بھٹو زندہ ہوتے تو وہ نہ صرف ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے بلکہ بارش کے پانی میں ڈوبتے صوبوں کی حالت زار بھی درست کرتے۔ وہ ملک میں عجب کرپشن کی غضب کہانیوں کی روک تھام بھی کرتے، وہ تمام صوبوں میں امن و امان کے مسئلے حل کراتے ہوئے ماورائے عدالت قتل، کالج کی طالبات کی نازیبا ویڈیوز جیسے سنگین مسائل، بلوچستان کی غربت، احساس محرومی اور مہنگائی جیسے مسائل حل کرنے کےلیے جامع منصوبے پیش کرتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم من حیث القوم یک جان ہوجائیں۔ پاکستان کی خاطر سیاست کو ایک طرف رکھ دیں۔ اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر کم ازکم میثاق معیشت اور میثاق قانون ہی کرلیں، اور اس میثاق کو توڑنے والے کے خلاف ایکشن پر متحد ہوجائیں۔ قانون سب کےلیے برابر ہو اور اس پر سو فیصد عمل ہو۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر آزادی کے نام پر جو مغلظات بکی جاتی ہیں ان کا یکسر خاتمہ ہو، اسی میں ہماری بقا ہے۔
بصورت دیگر بقول نریندر مودی انڈیا چاند کے بعد سورج پر پہنچ جائے گا اور ہم بس کرکٹ میچ میں بھارت کو ہرانے کا خواب دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہیں گے، سوشل میڈیا پر بھارت کو دھول چٹانے کی ناکام کوشش کرتے رہیں گے۔ ہماری زیادہ سے زیادہ کامیابی آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات، دوست ملکوں سے امداد کا مل جانا یا پھر ڈولی لفٹ میں پھنسے لوگوں کی بحفاظت واپسی ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔