فیصلہ ہونے کو ہے

رواں سال منعقدہ الیکشن کے ذریعے بھارت میں 16 ویں لوک سبھا وجود میں آئے گی۔


آصف زیدی May 11, 2014
لوک سبھا کی مجموعی نشستیں 543 ہیں، جن پر الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق مختلف مراحل میں انتخابات کرائے گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

JAMSHORO: کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، لیکن پڑوسی ملک بھارت کے عام انتخابات میں امیدواروں کی زبانی معرکہ آرائی، الزام تراشیاں، نوک جھونک اور خود کو ''ایمان دار'' اور ''محب وطن'' جب کہ اپنے حریفوں کو ''ملک دشمن'' اور ''بدعنوان ترین'' ثابت کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی انتخابات میں بھی سب کچھ جائز ہے۔

گذشتہ ماہ کی 7 تاریخ سے شروع ہونے والے انتخابی دنگل نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے، بھارت اور دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگار آئندہ بھارتی حکومت کے خدوخال کے بارے میں رائے زنی کررہے ہیں۔ بھارتی ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے انتخابات کا آخری مرحلہ 12 مئی کو مکمل ہونے والا ہے، جس کے بعد 16مئی سے ووٹوں کی گنتی اور امیدواروں کی جیت اور ہار کا فیصلہ ہوگا۔ رواں سال منعقدہ الیکشن کے ذریعے 16 ویں لوک سبھا وجود میں آئے گی۔

ان انتخابات میں حکم راں جماعت کانگریس اپنی حکومت بچانے اور دوبارہ برسر اقتدار آنے کے لیے بھر پور کوششیں کررہی ہے تو دوسری طرف انتہاپسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار نریندر مودی نے ابھی سے وزیراعظم بننے کے خواب دیکھنا شروع کردیے ہیں۔ خود کو اشرافیہ کے بجائے عام آدمی کی جماعت کہلانے والی عام آدمی پارٹی بھی عوام کو ان کے تمام حقوق دلانے کے لیے میدان میں اتری ہے۔ ان تین جماعتوں کے علاوہ بھی مختلف ریاستوں میں ایسی پارٹیاں موجود ہیں جن کا ووٹ بینک انھیں حکومت سازی کے عمل میں شریک ہونے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔ مختلف انتخابی تجزیوں اور تبصروں میں سیاسی مبصرین کھل کر کسی بھی پارٹی کی فتح کا اعلان نہیں کرپا رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اور حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو دوسری پارٹیوں سے ہاتھ ملانا ہوگا۔

لوک سبھا کی مجموعی نشستیں 543 ہیں، جن پر الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق مختلف مراحل میں انتخابات کرائے گئے ہیں۔ بھارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 7 اپریل کو ہوا جب آسام اور تریپورہ کی ریاستوں میں ووٹ ڈالے گئے۔9 اپریل کو منعقدہ دوسرے انتخابی مرحلے میں اروناچل پردیش، منی پور، میگھالیا اور ناگالینڈ کے عوام نے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دیے۔

10 اپریل کو تیسرے انتخابی معرکے میں ریاست بہار اور ہریانہ کے باسی پولنگ اسٹیشن پہنچے اور اپنے حق رائے دہی استعمال کیا۔11 اپریل کو میزورام کی ریاست میں ووٹ ڈالے گئے۔12 اپریل کو انتخابات کے پانچویں مرحلے میں آسام، گوا، سکم اور تریپورہ میں ووٹنگ ہوئی۔ بھارتی الیکشن کا چھٹا مرحلہ 17 اپریل کو ہوا جب بہار، مقبوضہ کشمیر اور کرناٹک میں ووٹنگ ہوئی، مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام نے بھرپور انداز میں بھارتی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اپنی رائے اور بھارت سے بیزاری کا بھرپور اظہار کیا۔بھارتی انتخابات کا 7واں مرحلہ 24 اپریل کو ہوا جب آسام، بہار، مقبوضہ کشمیر اور مدھیہ پردیش میں ووٹ ڈالنے کے انتظامات کیے گئے تھے، اس بار بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام نے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اپنے فیصلے سے دنیا بھر کو آگاہ کیا۔ الیکشن کا 8واں مرحلہ 30 اپریل کو بہار اور گجرات کی ریاستوں میں پولنگ کے ذریعے انجام پایا۔9 ویں اور آخری مرحلے میں آندھراپردیش، بہار اور اترپردیش میں 12 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔



موجودہ اسمبلی (لوک سبھا) کی آئینی مدت 31 مئی کو پوری ہوجائے گی، گذشتہ 2 انتخابات سے جو 2004 اور 2009 میں ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت بنانے سے محروم رہی، اس بار مودی اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھرپور کوششیں کررہے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح اپنی پارٹی کی انتخابی شکست کی ہیٹ ٹرک سے بچ جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 میں گجرات کے فسادات میں ایک ہزار سے زاید مسلمانوں کے قتل عام پر کبھی وہ ڈرامائی طور پر ''دکھ ''کا اظہار کررہے ہیں تو کبھی خود کو عوام کا حقیقی نمائندہ ثابت کرنے کے لیے بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ مودی نے اس الزام کی بھی ڈھٹائی سے نفی کی ہے کہ بطور وزیراعلیٰ گجرات وہ فسادات روکنے میں ناکام رہے تھے۔ لوک سبھا میں بی جے پی گذشتہ دو ادوار سے سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے اور اب اس انتخابی جنگ میں اس کا تمام امیدوار دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ملک بھر میں شان دار فتح حاصل کرکے نریندر مودی کی قیادت میں حکومت بنائیں گے۔

اسمبلی کی 543 نشستوں پر الیکشن ہورہے ہیں۔ تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی نے 429حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے ہیں، وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی اترپردیش کے علاقے بنارس اور اپنے آبائی علاقے گجرات سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ کانگریس کی راہ نما سونیا گاندھی رائے بریلی سے فتح حاصل کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔

دوسری جانب کانگریس پارٹی اور اس کے حامیوں کی نظریں پارٹی سربراہ سونیا گاندھی، وزیراعظم منموہن سے زیادہ راہول گاندھی پر جمی ہوئی ہیں۔ کانگریس کے حامیوں کا خیال ہے کہ راہول گاندھی نوجوان اور پرجوش ہیں، وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے زیادہ محنت اور جوش سے کام کرسکتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے کچھ ماہ قبل ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن میں حیران کن کام یابی حاصل کرکے اپنے حریفوں کو چونکادیا تھا خاص طور پر اروند کیجری وال اور ان کی ٹیم کو جس طرح بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے عوام نے پذیرائی بخشی، اس کا نتیجہ کانگریس کی برسوں پرانی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی صورت میں نکلا۔

اروند کیجری وال نے وزیراعلیٰ نئی دہلی کا حلف بھی اٹھایا، لیکن چند دنوں بعد ہی خود کو بے بس قرار دیتے ہوئے وزارت اعلیٰ چھوڑدی۔ کہا جارہا ہے کہ دہلی سرکار چھوڑنے کے اس فیصلے نے عام آدمی پارٹی کے ووٹ بینک کو کافی دھچکا پہنچایا ہے۔ لوگ اس فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ عام آدمی پارٹی ہی انھیں بنیادی حقوق دلانے کے لیے بہترین آپشن ہے، لیکن مشکل صورت حال میں اپنی بے بسی کا اعتراف کرکے اروند کیجری وال نے ووٹروں کو مایوس کردیا۔ اب یہ بات کس حد تک صحیح ہے، اس کا فیصلہ تو اس وقت ہوگا جب انتخابی نتائج سامنے آئیں گے۔



بھارتی الیکشن میں ووٹروں کے سامنے ایک جانب تو انتہا پسند بی جے پی کے نریندر مودی کی متنازع شخصیت ہے تو دوسری طرف راہول گاندھی ہیں جو اپنی پارٹی اور حکومت کی ساکھ بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کررہے ہیں، کانگریس کی حکومت کو کرپشن کے بڑے اسکینڈلز، عوامی مفادات کا خیال نہ رکھنے ار دیگر معاملات کی وجہ سے اندرون و بیرون ملک شدید تنقید کا سامنا ہے، راہول گاندھی انتخابی مہم میں اپنی سی کوشش کررہے ہیں کہ عوام میں اپنی پارٹی کے لیے موجود بے چینی اور کسی حد تک بیزاری کو دور کیا جاسکے، اس مشن میں راہول کی بہن پریانکا گاندھی بھی آگے آگے ہیں۔

اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کی جانب سے عوام کی آواز بننے کا عزم بھی بڑی پارٹیوں کے لیے بڑا چیلینج ہے۔انتخابات کے حوالے سے یوں تو پورے انڈیا میں سخت سیکیوریٹی انتظامات کیے گئے تھے لیکن آسام میں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات نے بھارتی الیکشن اور انتظامیہ پر سوالیہ نشان لگادیے ہیں۔ انتہاپسندوں نے مسلمانوں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا کیوںکہ انھوں نے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالے اور انتہاپسندوں کی مرضی سے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ 3 درجن سے زاید مسلمان انتخابات کی نذر ہوئے، درجنوں مکانات نذرآتش کردیے گئے، اب حالات کشیدہ ہیں۔ گوکہ ہر واقعے کے بعد سیکیوریٹی الرٹ ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ انتہاپسندوں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچادیا۔

الیکشن کے حوالے سے سروے اور مختلف اداروں کی جانب سے کرائے گئے جائزے بتاتے ہیں کہ نریندر مودی کو اپنے حریفوں پر کچھ برتری حاصل ہے اور قوی امکان ہے کہ بی جے پی کئی برسوں کے طویل انتظار کے بعد مرکز میں حکومت بنالے۔

اب آئیے، ایک نظر بھارتی انتخابی تاریخ کے فاتحین پر ڈالتے ہیں جو ملک کے وزیر اعظم بنے:

٭1947 میں ملک بننے کے بعد جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے٭1952 میں جب الیکشن ہوئے تو نہرو کی قیادت میں کانگریس نے کام یابی حاصل کی اور وزارت عظمیٰ نہرو کے پاس ہی رہی ٭1967 کے الیکشن میں بھی کانگریس نے کام یابی حاصل کی اور نہرو کی صاحب زادی اندرا گاندھی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں، 1971 کے الیکشن میں بھی اندرا گاندھی نے فتح حاصل کی ٭1977 میں انتخابی دنگل سجا اور مرار جی ڈیسائی وزیراعظم بنے٭1980 میں اندراگاندھی ایک بار پھر بھارت کی وزیراعظم بنیں لیکن کچھ عرصے بعد ہی انھیں قتل کردیا گیا٭1984 میں اندرا گاندھی کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے بطور وزیراعظم عنان حکومت سنبھالی، انھیں انڈیا کے سب سے کم عمر وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ راجیو گاندھی ایک خودکش دھماکے میں مارے گئے تھے۔

٭1996میں بی کے پی پہلی بار اقتدار میں آئی اور اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم بنے٭2004 میں کانگریس نے دوبارہ انتخابی جنگ جیتی اور منموہن سنگھ وزیراعظم بنے٭ بھارتی سیاسی تاریخ کے سفر میں نرسہما رائو، وی پی سنگھ، دیوی گوڑا بھی وزیراعظم بنے۔ اب نریندر مودی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے سپنے دیکھ رہے ہیں لیکن فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو سب سے زیادہ اپنے حقوق کی فراہمی، مذہبی آزادی اور انتہاپسندی سے تحفظ کا احساس ہے، وہ کھل کر کانگریس کی حمایت کررہے ہیں نہ بی جے پی کی، کیوںکہ بھارت میں موجود بعض مسلم راہ نمائوں کے مطابق ایک کھلا دشمن ہے تو دوسرا خاموشی سے اسلام دشمنی اور مسلمان دشمنی کا کام کرتا ہے۔



عام آدمی پارٹی کو گوکہ عوام کی بڑی تعداد کی پذیرائی حاصل ہے، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اروند کیجری وال اور ان کی پارٹی ابھی اس قابل نہیں کہ مرکز میں واضح اکثریت سے حکومت بناسکے۔ کانگریس اور بی جے پی سے تو عام آدمی پارٹی نے دہلی کے ریاستی انتخابات میں بھی ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کا ہُما کانگریس یا بی جے پی ہی کے سر پر بیٹھے گا۔ یہ اور بات ہے کہ دونوں جماعتوں کو ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے کسی نہ کسی پارٹی کو اپنا اتحادی بنانا ہوگا۔

بی جے پی کی جانب سے تو نریندر مودی وزیراعظم کے عہدے کے لیے سامنے ہیں لیکن اگر کانگریس جیتتی ہے تو وزیراعظم کون ہوگا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ابھی شاید کانگریس کے اپنے راہ نمائوں کے پاس بھی نہیں کیوںکہ گذشتہ الیکشن میں بھی کانگریس کی فتح کے بعد جب سب کو یقین تھا کہ سونیا گاندھی وزیراعظم بنیں گی، اندرون خانہ ڈرامائی تبدیلیوں کی وجہ سے منموہن سنگھ کانگریس کے من کو بھاگئے تھے۔ اس وقت گاندھی خاندان کے مداحوں اور پرستاروں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ بات اب بھی سب کو کھٹک رہی ہے۔

بھارت میں یوں تو مسائل کا انبار ہے، ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں پرکشش ماحول اور سہولتوں کے ڈھیر لگانے سے عام آدمی کی حالت پر فرق نہیں پڑتا۔ موجودہ الیکشن میں بھی ملک میں بڑھتی ہوئی غربت، کرپشن اور لوٹ مار، عوام کے لیے بنیادی سہولتیں، بڑھتی ہوئی منہگائی، اقلیتوں کا تحفظ اور دیگر معاملات ایسے ہیں جن پر تمام جماعتیں کم ازکم ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے ضرور توجہ دے رہی ہیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلقات بھی نئی حکومت کے لیے چیلینج ہیں، انتہاپسندی اور تنگ نظری کے خول سے نکل کر اب بھارتی حکومت کو آگے بڑھنا ہوگا۔

پاکستان مخالف بیان بازی ووٹروں کو خوش تو کرسکتی ہے لیکن حکومت کو مستحکم بنیادوں پر چلانے کے لیے روشن خیالی کے جذبے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ دیکھنا یہ کہ اقتدار میں آکر کانگریس اور بی جے پی جیسی پارٹیاں کس طرح اپنے وعدوں کو پورا کرتی ہیں، کس طرح اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتی ہیں۔ایک اور اہم سوال جو انڈیا کے مسلمانوں کے کافی اہمیت رکھتا ہے اور پاکستان میں بھی اس پر رائے زنی کی جارہی ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر انتہا پسند جماعت کے راہ نما نریندر مودی وزیراعظم بن گئے تو کیا ہوگا؟ تقریبا ً 12سال قبل گجرات میں ہونے والے فسادات کے مرکزی کردار کی حیثیت سے انتہائی متنازع کردار بن جانے والے مودی مسلمانوں کے لیے کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہیں۔

مسلمانوں کے قتل عام کی تلخ اور الم ناک یادیں اب بھی نہ صرف گجرات کے باسیوں بلکہ پورے انڈیا میں پھیلے مسلمانوں کے لیے ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان میں بھی مودی کے خلاف اسی حوالے سے غصہ پایا جاتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انتخابی وعدوں اور نعروں کی گونج انتخابی ریلیوں میں تو بہت زوردار ہوتی ہے، لیکن حکومتی ایوان میں جاکر سفارت کاری، عالمی برادری کے معاملات اور دیگر وجوہ کے سبب ان دعووں اور نعروں کی دھمک کافی ہلکی ہوجاتی ہے اور وہاں عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں مختلف طاقتوں کے مشورے سے حکمت عملی بنانی پڑتی ہے۔

اگر مودی وزیراعظم بن گئے تو پاک بھارت تعلقات کس سطح پر رہیں گے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس کے دورحکومت میں بھی دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات سردوگرم ماحول میں آگے بڑھے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارتی الزام تراشیوں کا سلسلہ من موہن سنگھ کے دور میں جاری رہا اور آگے بھی لگتا ہے کہ اگر مودی وزیراعظم بن گئے تو صورت حال شاید ایسی ہی رہے گی۔

مختلف تجزیوں، تبصروں اور انٹرویوز کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت کا عام آدمی تو چاہتا ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو، اسے اس کے حقوق، بنیادی سہولتیں اور تحفظ ملے، اس خطے کی سیاسی صورت حال اور عالمی برادری کے علاقے میں اثرورسوخ کی وجہ سے یہ امید کی جانی چاہیے کہ نئی بھارتی حکومت ماضی کی تنقید برائے تنقید اور الزام تراشی کی سیاست چھوڑ کر مثبت طرز عمل اپنائے گی ، ایسا طرز عمل جس کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے عوام کو امن اور چین میسر آسکے۔ یہ بات تو طے ہے کہ بھارت میں نئی حکومت کانگریس اور بی جے پی ہی میں سے کوئی جماعت بنائے گی، دونوں جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ 16مئی یا اس کے ایک دودن بعد ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں