یادوں کی بہار
آمر ضیا کے آمرانہ اقتدارکے منحوس عکس نے افراد کو برادری اور ٹولیوں میں تقسیم کردیا
یہ وہ دور تھا جب ایک آمر نے سماج کو تہہ و بالا کرنے کے لیے اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہب کے لبادے میں قوم سے مسلسل جھوٹ بول کر نوے دن میں جمہوریت کی بحالی کے متعدد وعدے کیے اور کوئی وعدہ وفا نہ کر سکا۔
یہ آمر جنرل ضیا کا وہ سیاہ دور تھا جس میں آمر حکمران نے اپنی خواہشات پر سماج کی رگوں میں دہشت گردوں کے ذریعے بارود بھرا اور ملک میں علم و ادب اور شائستگی کا نیکالا کر ڈالا، ملک میں علم و ادب اور رواداری کے ساتھ حسن سلوک کے رویوں کو توپ و تفنگ کی طاقت سے پائمال کیا گیا اور سماج کی تہذیب و ادب کی قدروں کو مسلسل تنگ نظر مذہبی چادر پہنانے کا جابرانہ نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، مگر اسی دور میں بھی علم و ادب کی قدروں کو بلند رکھنے والے ادبا اور تنظیمیں و رسائل ایسے بھی تھے جنھوں نے تمامتر جبر اور پابندیوں کے باوجود علم و ادب کی شمع روشن رکھنے کا کام کیا اور سماج سے ادبی قدروں کو گہن زدہ کرنے والی طاقتور قوتوں کا خم ٹھنک کر مقابلہ کیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آمر ضیا کے طیارے میں آم پھٹنے والے حادثے کے بعد ملک کو اتفاقی طور پر غیر آئینی آمرانہ دور سے نجات ملی تھی اور گھٹن زدہ سماج میں امید کی لو پیدا ہوئی تھی، اسی دور میں '' انجمن ترقی پسند مصنفین'' نے کامریڈ امام علی نازش کی رہنمائی میں ادب وثقافت اور علوم و فنون کے لیے جواں مرد حوصلے سے تمام زبانوں کے ادب اور ادبا کو ایک لڑی میں پرویا اور کراچی کے ست رنگی ادبی فضا کو ادب دوست بنایا۔
سندھ کے صدر مقام کراچی شہرکا یہ وہ زمانہ تھا جہاں ہر زبان و ادب کے شاعر اور نثر نگار ایک دوجے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پیارومحبت کی مالا سجائے رہتے تھے۔ ادبی رسائل کو گھروں میں منگوانا ایک تہذیب کی نشانی سمجھا تھا، افکارکے صہبا لکھنوی ہوں یا سیپ کے نسیم درانی یا نقوش کے احمد ندیم قاسمی، سب اپنے ادبی مشن میں جتے رہتے تھے اور ان رسائل میں ادبی شہ پارے چھپنا ادب میں ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے۔
مجھے تو یہ بھی یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکریٹری جنرل قمر ساحری نوجوان ادبی ذوق رکھنے والے محمدبخش کی ہمت بڑھاتے رہتے تھے اور محمدبخش نامساعد حالات کے باوجود ماہنامہ '' ٹیلنٹ'' کے ذریعے نئے اور نوجوان شاعر اور ادیبوں کے لیے ایک پلیٹ فارم تیارکرتا تھا اور '' ٹیلنٹ '' ادبی ذوق کا ترجمان بھی ہوا کرتا تھا، پھر عجیب سانحہ ہوا اور اس شہر پر گیارہ سالہ آمرانہ راج کے ایسے منحوس سایوں نے اپنے اثرات دکھائے کہ شہرکی ادبی اور تہذیبی روایات دم توڑتی ہوئی خوف کے مارے کہیں دبک کر بیٹھ گئیں، رسائل اور ادبی گفتگو بند کروا کر جن افراد کو '' ادب و شاعری'' نے ایک لڑی میں پرویا تھا۔
آمر ضیا کے آمرانہ اقتدارکے منحوس عکس نے افراد کو برادری اور ٹولیوں میں تقسیم کردیا اور لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ان کی بات سننے سے محروم کر دیے گئے، آمرانہ ماحول کے اثرات نے عدم برداشت اور بد تہذیبی کو سماج کی نشانی بنا دیا اور کراچی ایسے تہذیب یافتہ شہرکی ادبی اور ثقافتی محافل بے رونق ہونے لگیں، ادبی رسائل کو بے کار سمجھا جانے لگا اور ان کو چھاپنے والوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا، تہذیب و شائستگی کی محافل گھروں تک محدود ہوگئیں۔
فن و ثقافت کے اداروں پر خوشامدیوں کے قبضے نے پسند اور ناپسند یا گروہی ٹولے کے کلچر کو فروغ دیا اور یوں یہ علم و ادب و تہذیب کا ادبی چاشنی اور انسانی قدر کا شہر تہذیب و ادب سے نا آشنا کر دیا گیا، مگر اس سب کے باوجود بھی شہر میں چند سر پھرے اور ادبی محاسن کو سمجھنے والے اس شہر کی ادبی رونقیں بحال کرنے میں جتے رہے اور اپنی سی کوششوں سے اس شہرکے ادبی ماحول کی مثبت سمت بحال رکھنے میں کوشش کرتے رہے۔
اس بے ابتری اور آمرانہ سایوں میں یہ سماج نامور ادبی شخصیات کو کھا گیا، ان کے ساتھ بد تہذیبی کونسل کا '' ٹھٹھہ'' بنا دیا گیا، ادیب و شاعر کی ناقدری کی وجہ سے شعر و ادب کی محافل کی جگہ سرمایہ کاروں کے ''مارکیٹنگ ادب '' نے لے لی اور بڑے بڑے ادبی فیسٹیول کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں ہونے لگے، ان فیسٹیول کی پسند اور ناپسندیدگی کے درمیان ہی کچھ ایسے ادبی جنونی دوست بھی رہے جنھوں نے اپنی روایتوں کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔
ایک وقت تھا کہ مشاعروں میں تالی بجانا، کسی کی تضحیک سمجھا جاتا تھا، مگر مارکیٹنگ ادب نے مشاعرے میں تالی بجانے کو ایسا رائج کیا ہے کہ اب شعر پر واہ واہ اور سبحان اللہ یا شعر پہ غور و فکر کرنے کی داد و تحسین ہی مشاعروں سے رخصت ہوچکی ہے اور ہماری نسل شعر پر تالی بجانے کو ہی ادبی تہذیب سمجھ رہی ہے۔
تہذیب و ادب کے شہر کراچی میں یہ ایک حوصلہ افزا اضافہ ہے کہ یہاں اب ہر رنگ اور ہر زبان کی چاشنی پیدا کرنے کا ایک ایسا حوصلہ افزا ماحول فروغ پا رہا ہے کہ اب کراچی سندھ میں ریاستی کالج و یونیورسٹیوں پر ادبی و سیاسی پابندی کے باوجود شہر میں '' کھوہی یونیورسٹی ملیر '' اورگرینچ یونیورسٹی میں ادب شناس اور طلبہ کو سیاسی حقوق سے آگہی فراہم کرنے والے ڈاکٹر ٹیپو یا افہام حقی کی صورت میں بیٹھے ہیں جو کسی نہ کسی طرح کامی شاہ کے توسط سے طلبہ میں ادب شناسی کے لیے سالانہ ادبی ایک روزہ کانفرنس منعقد کر کے سماج کی قدروں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
یقینا گرینچ یونیورسٹی کے اس ادبی ماحول کی معاونت میں چانسلر '' سیما مغل'' اور دیگر اساتذہ کا ایک مثبت کردار ہوگا کہ جن کی حوصلہ افزائی سے نائیجیریا کی طالبہ زہرہ فاطمہ نے اردو کے اس پروگرام کی میزبانی اپنی ساتھی مریم سجاد کے ساتھ بہت سلیقے اور شائستگی سے اردوکے بہتر اسلوب میں کی، جو واقعی ایک کامیاب خوشگوار تجربہ اور حوصلہ افزا اضافہ تھا، اس ایک روزہ ادبی کانفرنس کی صدارت صحافی اور ترقی پسند ادیب وارث رضا کے ذمے تھی، جب کہ نثر پارے پیش کرنے میں صحافی اور ادیب عثمان جامعی اور نوجوان نثر پارے کے تخلیق کار مسلم انصاری پیش پیش تھے جب کہ نثر میں سماج کی نمایندہ ترجمانی کی گئی۔
اسی طرح نوجوان شاعر اور شاعرات نے اپنے شعر خوبصورت لحن کے ساتھ سنائے، جن میں ڈاکٹر نوارہ مختار مانا کی آواز کا دلکش انداز بھی تھا جب کہ تازہ مجموعے کی شاعرہ ثنا معیزکا سماج سے مکالمہ تھا جس میں ذات کے اظہار کا خوبصورت امتزاج تھا، صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے وارث رضا کا استدلال تھا کہ وہی ادیب اور شاعر یا اس کا کلام زندہ رہتا جو سماج سے گفتگو کرتا ہے اور سماج کے منفی رویوں سے مکالمہ کر کے سماج کے فرد کو آزاد فکر کے زاویے فراہم کرتا ہے۔
صدرکا کہنا تھا کہ ادیب و شاعر کو خدارا پابند نہ کیا جائے چونکہ ادیب و شاعر پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو نہ وہ اچھا تخلیق کار بنے گا اور نہ ہی اچھا انسان، لہٰذا کوشش کریں گے کہ ادب کے محاسن کو سلیقے سے برتتے ہوئے اپنی تہذیبی شناخت باقی رکھیں، اور نوجوان دوستوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں، صدارتی کلمات سے قبل علی بابا اور ثنا معیز نے خوبصورت اور فکر انگیز نظمیں پیش کیں، جن میں عصری مسائل کی بازگشت نظر آئی۔