زمین کھاگئی آسماں کیسے کیسے
انسان کے ساتھ یہ ’’میں میں‘‘کاسلسلہ بہت پرانے زمانے سے چلا آرہاہے
اس بات کا پتہ لگانا تو اب ممکن نہیں کہ بہادر شاہ ظفر نے یہ شعرکب ،کہاں اورکیسے کہا تھا لیکن خود شعر سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ رنگون کے ٹوٹے پھوٹے قید خانے کی کسی ٹوٹی پھوٹی دیوار میں نصب ایک ٹوٹے پھوٹے آئینے میں خود اپنے ٹوٹے پھوٹے چہرے کو دیکھ کرکہا ہوگا کہ
میں نے پوچھا کیا ہوا وہ آپ کاحسن وشباب
ہنس کے بولے وہ تو ''شان خدا''تھی ''میں '' نہ تھا
یہی کم بخت ''میں '' ہے جس نے بہت سوں کو غلط فہمی میں ڈال کر ''میں میں'' کراکے بکرا بنایاہے ۔ کچھ ہی دیر پہلے ''میں میں'' کا ایک مظاہرہ ہم نے اپنے ہاں بھی دیکھا ہے،اس نے بھی ''شان خدا'' کو ''میں '' سمجھا اورکچھ لوگوں نے بھی دیوانہ بنادیا تھا چنانچہ ہمیشہ کی طرح اس کے گرد بھی ایک کراماتی اورکرشماتی ہالہ بنا دیا گیا تھا جس کے اندر اس نے ''میں میں'' کی حد کردی تھی لیکن ''بکرا''کتنا ہی ''میں میں''کیوں نہ کرے، ایک دن اسے ''چھری ''تلے آنا ہوتاہے یاکسی اورکا نوالہ بننا ہوتا ہے، چاہے وہ رنگون میں ہو یا اٹک میں ۔
انسان کے ساتھ یہ ''میں میں''کاسلسلہ بہت پرانے زمانے سے چلا آرہاہے ۔ہندی دیومالا کے مطابق برھما کابیٹا دکشت جس کے معنی ''طاقتور'' کے ہیں پرجاپتی یعنی حکمران تھا اس لیے خود کو بہت بڑا ''میں'' سمجھتا تھا ، اس کی بیٹی ''اوما''جس نے اس کی مرضی کے خلاف شیو دیوتا سے شادی کرلی تو وہ سخت ناراض ہوا پھر ایک تقریب میں اس نے اپنی بیٹی کے سامنے شیوجی کی برائی اور تضحیک کی تو اوما نے خود کو جلاڈالا ، اس پر قہار دیوتا کوغصہ آیا اوراس دکشت پرجاپتی کاسر اڑا دیا جو سیدھا اگنی کنڈ میں جا گرا اور جل کرراکھ ہوا۔
دکشت کا بے سر کالاشہ زمین پر پڑا تھا ، اس کی بیوی بچوں اورتمام دیوتائوں نے شیو سے منت سماجت کی کہ دکشت کو زندہ کرے ورنہ دنیا کاپرجاپتی (حکمران) کوئی نہیں رہے گا۔ شیونے ایک بکرے کاسرکاٹ کر اس کے جسم کو لگایا کہ میں نے اس کا پرغرورسرکاٹ کر بھسم کردیا، اب یہ زندہ رہے گا لیکن بکرے کے سر کے ساتھ ''میں میں'' کرتاہوا۔
ڈھائی ہزارقبل اورمسیح سے چھ سو سال پہلے ''کورش کبیر'' نے دنیا کی پہلی سب سے بڑی سلطنت قائم کی جسے یونانی سائرس اورعرب خسرو کہتے ہیں، چھوٹی چھوٹ محدود مقامی حکومتیں اس سے پہلے بھی تھیں لیکن سائرس پہلا بادشاہ اورفاتح تھا جسکی سلطنت یورپ سے ہندوستان تک تھی، اسی نے تخت نصر کا مضبوط شہربابل فتح کیا۔
جدید علماء اورمفسرین اسے ذوالقرنین بھی قراردیتے ہیں ،اس کی قائم کردہ سلطنت سکندر اعظم کے ہاتھوں دارائے سوم کے عہد میں اختتام کو پہنچی، پھر وقت کا پہیہ گھومتا رہا یہاں تک کہ ڈھائی ہزارسال بعد شہنشاہ ایران، آریا مہر محمد رضا شاہ پہلوی نے اس شہنشاہیت کو ایک مرتبہ پھر زندہ کردیا، ہجری کیلنڈر کو منسوخ کرکے دوہزار پانچ سو برس قبل والا قدیم ایرانیشمسی کیلنڈر جاری کردیا گیا.
ایران کے بہت سے شہروں اورمقامات کے نام تبدیل کرکے پرانے نام رکھ دیے گئے اوراکتوبر انیس سو سڑسٹھ کو ''تخت جمشید'' کے پرانے کھنڈرات پرنئی بادشاہت نے پرانی تاریخ کو اپناتے ہوئے اپناتسلسل اس پرانی شہنشاہیت سے جوڑدیا ، شہنشاہ ایران کی نئی سرے سے تاج پوشی کی گئی ، اس تقریب کے لیے ایک سو ساٹھ ایکڑ رقبے پر انتہائی نفیس خیموں کاشہربسایاگیا ،دنیابھر کے حکمرانوں اورنامور لوگوں کو مدعو کیاگیاتھا، شہر کو ہرلحاظ سے ''تخت جمشید'' سے مشابہہ بنانے کے لیے بے دریغ روپیہ بہایاگیا تھا۔
فرانس سے قیمتی پودے منگواکرشہرکی آرائش کی گئی تھی ، سرخ رنگ کی دوسو پچاس مرسیڈیز کاریں مہمانوں کے لیے خریدی گئی تھیں ، بارہ اکتوبر کو جشن کاآغاز ہوا ، آریامہر رضا شاہ پہلوی کو مدعو مہمانوں اور حکمرانوں کی موجودگی میں تخت طاؤس پر بٹھایا گیا اور تاج پوشی کی گئی، فوج کے دستے پرانی طرزکی وردیوں میں ملبوس آریامہر کو سلامی دیتے رہے۔
چھ سو مہمانوں نے ساڑھے پانچ گھنٹے اس دعوت میں شرکت کی ،اس منفرد تقریب میں کھانا پینا دنیا کامہنگا ترین آئٹم تھا جس کا ذکر گینزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی کیاگیاہے ، بھوکے عوام کے دوکروڑ بیس لاکھ ڈالر پھونکے گئے۔
ہمارا صدریحییٰ خان بھی اس تقریب میں شامل تھا ۔ آریا مہر محمد رضا شاہ پہلوی اپنے آپ کو اس ڈھائی ہزارسالہ سلطنت کاوارث اورتسلسل سمجھتاتھا،اس نے بھی اپنے ''میں'' کو بہت اونچا کردیاتھا اورسمجھتا تھا کہ وہ ایران کو ایک مرتبہ پھر کورش اوردارپوش کی عظمت دے رہاہے پھروقت پہیہ گھوما تو ''میں میں''کی جگہ دربدر ہونا پڑا، کورش کبیر اوردارا کے وارث کو سرطان نے بے وطنی میں کسمپرسی کی حالت میں بے نام کردیا، اس کی اولادوں پر کیا گزری، یہ ایک الگ داستان ہے۔
اس کی ایک بہن تھی شہزادی اشرف پہلوی، اس کی ''میں'' کے جو قصے مشہورہیں، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ پس پردہ ایران پر اس کی حکومت تھی ، یہ بھی کہاجاتاہے کہ شاہ کے زوال اورتباہی کاسب سے بڑا سبب اس کی اس جڑواں بہن کی منہ زوری بھی تھیں۔
شہزادی اشرف کا ''مونٹی کارلو'' میں جب انتقال ہوا تھا تو قرب وجوار میں کوئی ہمدرد نہیں کہ ''میں''کاکوئی ہمدرد نہیں ہوتا، شاہ کے چھوٹے بیٹے رضاعلی نے چوالیس سال کی عمر میں بوسٹن میںخود کو گولی مارکرخودکشی کرلی تھی ، شہزادی اشرف کابیٹا بھی مونٹی کارلو میں کسی کے ہاتھوں قتل ہوا کہ یہ ہیں اکثر ''میں'' کاانجام ہوتاہے ۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسمان کیسے کیسے