زباں فہمی نمبر190 سیرتِ طیبہ اور قومی زبان کی اہمیت
ایک کسک تھی کہ کاش اس موضوع پر کوئی مبسوط مقالہ یا کتاب بھی لکھ سکوں۔
راقم نے مدتوں پہلے ریڈیوپاکستان کے ایک تقریری سلسلے میں یہ بات عرض کی کہ ہم مادری زبان اور قومی زبان کے ہر شعبے اور ہر سطح پر استعمال وترویج کی بات کرتے ہیں تو اِس کے فروغ کی سند ہمیں ہمارے رسول (ﷺ) کی سیرتِ مقدسہ سے ملتی ہے، جو ''اُمّی'' لقب ہوئے (یعنی اپنی ماں پر ہوئے، بغیر کسی اضافی تعلیم کے) اور اُن کی بطورِانسان شناخت ہی اپنی مادری زبان عربی سے ہوئی، جبکہ وہ ''اکمل الکاملین'' (کاملوں سے بڑھ کر کاملThe Most Perfect of All:) کے منصب پر فائز، اپنے رب کی عطا سے دنیا کی، بلکہ کائنات کی ہر مخلوق کی ہر زبان سمجھنے والے ہوئے، مگر اس اَمر کا اظہار بھی خاص خاص موقع ہی پر فرمایا۔ اس نکتے کا اعادہ 'زباں فہمی' سمیت میری مختلف تحریروں میں ہوچکا ہے۔
ایک کسک تھی کہ کاش اس موضوع پر کوئی مبسوط مقالہ یا کتاب بھی لکھ سکوں۔ کچھ سال قبل ایک بزرگ محقق سے تعارف ہوا تو معلوم ہواکہ انھوں نے یہ کارنامہ ماضی قریب میں انجام دیا ہے اور پھر بکمال عنایت، انھو ں نے اپنی وہ وقیع کتاب''سیرِتِ رسول عربی (ﷺ) اور ریاست ِمدینہ میں قومی زبان کا مقام'' مجھے ارسال فرمائی۔ میرے وہ محترم ہیں ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کے سابق سربراہ جناب محمد اِسلام نشتر جن کی دوسری کتاب 'میجر آفتاب حسن: حیات وخدمات' پر تعارفی نوعیت کا مضمون، زباں فہمی کا حصہ بن چکا ہے۔
یہاں ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ عربی زبان کو عالم گیر حیثیت، اسلام اورہمارے پیارے نبی (علیہ الصلوٰ ۃ والسلام) کے طفیل حاصل ہوئی، ورنہ یہ عالَمِ عرب تک محدودرہتی۔ یوں ایک عرب کی مادری زبان، فقط عرب دنیا ہی کی نہیں، بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے کی قومی وسرکاری زبان بن گئی۔ محترم اِسلام نشتر صاحب کی کتاب ''سیرتِ رسولِ عربی (ﷺ) اور ریاستِ مدینہ میں قومی زبان کا مقام'' میں یہ اقتباس اس موضوع کو مختلف جہتوں سے بیان کرتا ہے:
''رسولِ عرب وعجم (ﷺ) نے عربوں کی عربی قومیت اور قومی زبان 'عربی' کو نورِاسلام سے درخشاں کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریگزارِعرب کے بَدّو، ناقابل تسخیر قوت، بے مثال عزت اور بے داغ بزرگی کے امین بن گئے۔
امام الانبیا ئ(ﷺ) کی تعلیمات نے انسانیت کو قیامت تک کے لیے نئی آب تاب عطا فرمادی۔ وہ گروہی، قبائلی اور لسانی عصبیتوں کے چنگل سے رہائی پاکر عالمگیر حیثیت کے مالک بن گئے''۔ یعنی یہ کہ جب ایک زبان کو آفاقی حیثیت عطا ہوئی تو پھر قبائلی شناخت اور قبائلی یا لسانی عصبیت /تعصب اَز خود ختم ہوگیا۔ بعینہ یہی راز ہے پاکستانی قومیت کی تشکیل کا کہ اگر آج اُردو کو ہرسطح پر، ہرشعبے میں سرکاری سرپرستی کے ساتھ نافذ کردیا جائے تو پھر اپنی اپنی بولیاں بولنے کی ضرورت ان معنوں میں نہیں رہے گی کہ آپ کی دنیا بھر میں ایک ہی شناخت ہوگی، ہاں، البتہ مقامی سطح پر، اپنے علاقے میں، اپنی زبان یا بولی کا استعمال بدستور جاری رہے گا اور انتہائی ضرورت کے سوائ، انگریزی سمیت کسی بھی غیرملکی زبان کا سہارالینے کی چنداں ضرورت نہیں رہے گی۔
محترم اِسلام نشتر صاحب کی کتاب ''سیرتِ رسول ِ عربی (ﷺ) اور ریاست ِمدینہ میں قومی زبان کا مقام'' میں بالکل اسی طرح ابتداء کی گئی ہے جیسے سیرت پر لکھی گئی کسی بھی دوسری کتاب میں ہوتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ایسی علمی وتحقیقی نوعیت کی کتاب، کسی عالم دین کے قلم سے منصہ شہود پر آنی چاہیے تھی، نیز کسی ماہرلسان ولسانیات کے لیے یہ دعوت ہے کہ ایسے موضوعات ابھی اَن چھوئے [Untouched] تھے، سو اَب ان کا مطالعہ ومزید تحقیق اُن کے لیے ناگزیر ہے۔
یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کوئی اعلیٰ سرکاری افسر، اپنے فرائض منصبی اداکرتے ہوئے بھی ایسے تحقیقی کارنامے انجام دے سکتا ہے، اگر وہ محض 'پاس' نہ ہوتو، ہر چند کہ ایسے افسران کا شمار مستثنیات ہی میں ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم صدیوں پہلے دین سے دُورہوئے تو علم سے دور ہوگئے اور پھر انگریز کے زیرِدام آئے توچند اسباق رٹ رٹا کر مشینی انداز میں قابلیت کا رعب جماتے ہوئے کہیں نہ کہیں ملازمت یا تجارت کرنے لگے۔ ہمیں کیا خبر کہ کس کس موضوع پر کیا کچھ علمی وتحقیقی مواد دستیاب ہے یا ہمیں اس بابت بھی فکر کرنی چاہیے۔
''ریاست ِمدینہ کے حکمراں کی حیثیت سے ایک طرف سیدالانبیاء (ﷺ) اصحابِ صفّہ کے نوجوان طالب علم زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ') کو عبرانی، سُریانی اور دیگر غیرملکی زبانوں کے سیکھنے کا حکم دیتے ہیں تودوسری طرف، بیرون ِ ریاست سے آنے والے وُفود کے ساتھ، انہی کی زبان، انہی کے لب ولہجے میں گفتگو فرماتے ہیں۔
نوزائیدہ مملکت ہونے کے باوجود، اُس دور کی ایران ، روم جیسی عالمی استبدادی قوتوں کو صِرف اپنی قومی زبان میں خطوط ارسال کرکے ہمیشہ کے لیے قومی زبان کی اہمیت و ضرورت کی بالواسطہ تعلیم دے دی جاتی ہے۔
اس کے برعکس متعدد مواقع پر خود حبشی اور فارسی وغیرہ کے بعض الفاظ، زبانِ مبارک سے ادا کرکے، مملکت کے اندر، غیرملکی زبانوں کے حسب ِ ضرورت استعمال کا اصول اور اسلوب اجاگر فرمایا جاتا ہے''۔ (مشہور روایت کے مطابق سیدنا زید بن ثابت کی عمر، قبول اسلام کے وقت فقط گیارہ سال تھی: س اص)۔ کتاب کی ابتداء میں شامل، جناب اسلام نشتر کے پیش لفظ سے کسی بھی ملک میں قومی زبان کے بنیادی تصور پر روشنی ڈالنا آسان ہوگیا۔
یہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ احادیث مبارکہ میں اس امر کی تحقیق کی گنجائش ہے کہ آیا ایسے مواقع پر ہمیشہ کوئی مترجم /ترجمان موجود ہوا کرتا تھا جب کوئی غیرملکی، غیرزبان بولنے والا شخص یا وفد کسی بھی سبب سے، دربارِ رسالت مآب (ﷺ) میں حاضرہوتا۔نیز۔آیا دوسری طرف یہی صورت حال تھی کہ ایک آدھ شخص کی موجودگی کافی سمجھی جاتی؟ خاکسارکو اِس سوال کا کافی یا مسکت جواب، کسی بھی مستند ماخذ میں نظر نہیں آیا۔
اگر انفرادی مثالیں دیکھی جائیں تو سب سے پہلے یہ دیکھیںکہ عرب کے طول وعرض میں مقیم مختلف قبائل کے مختلف لہجوں کی عربی سے ہمارے پیارے رسول (ﷺ) کو ہرگز کوئی پریشانی یا دقت نہیں ہوتی تھی، بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ') سے مَروِی ہے (مفہوم) کہ''میں عرب کے طول وعرض میں گھوما پھرا ہوں (غالباًماقبل اسلام، تجارت کی غرض سے، اور پھر بعدمیں دینی اغراض سے: س ا ص)، مگر میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے زیادہ فصیح کوئی شخص نہ پایا''۔ انھوں نے انتہائی حیرت سے اس بابت استفسار بھی کیا تھاکہ آپ کیسے مختلف لہجوں میں گفتگو کرلیتے ہیں۔ یہاں بندہ ناچیز اپنی دینی فہم کے مطابق عرض کرتا ہے کہ
ا)۔نبی کریم ( علیہ الصلوٰ ۃ والتسلیم) بحیثیت انسان بھی ایک بڑی زبان کی وسعت پر کماحقہ' عبور کے حامل ہوسکتے تھے، کیونکہ آپ نے عالم عرب میں سیاحت فرمائی تھی۔
ب)۔ نبی ورسول کی حیثیت میں اُن کے لیے دنیا ہی نہیں، کائنات کی کوئی زبان یا علم سمجھنا ہرگز دشوار نہیں، کیونکہ انھیں براہ راست وَحی سے علم دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پندرہ سو سال میں جب کبھی کسی بھی شخص نے (اُن کی ظاہری حیات میں یا مابعد) اُن کی زیارت اور ہم کلام ہونے کاشرف پایا تو آقا ومولا (ﷺ) کو عربی کی بجائے مخاطب کی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک تحقیق کی رُو سے خود زبان مقدس سے کئی مرتبہ غیرعربی الفاظ ادا ہوئے جن کی مثالیں زیرِنظر کتاب میں منقول ہیں۔ اس بارے میں ایک روایت خود قائداعظم محمد علی جناح سے منسوب ہے جس کے مطابق اُنھیں قیام پاکستان سے قبل یہ شرف حاصل ہوا تو حضور اقدس (ﷺ)نے اُن سے رواں انگریزی میں کلام فرمایا۔
جناب اسلام نشتر نے بھی اس بابت لکھا ہے کہ ''علماء اور ماہرین لسانیات کے نزدیک، سرورِ کونین (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر لسانی قدرت عطا فرمارکھی تھی کہ آپ (ﷺ)تمام قبائل عرب کی زبانوں اور اُن کے روزمرّہ میں گفتگو کرنے کی مہارتِ تامّہ رکھتے تھے اور یہ وصف صرف آپ (ﷺ) ہی کی ذاتِ گرامی کے ساتھ مختص ومخصوص تھا۔
اسی طرح بنی فہد کو بھی مکتوب نبوی (ﷺ)کا متن اُنہی کے لغات اور روزمرّہ میں اِملاء کرایاگیا۔ اسی طرح حضور اکرم (ﷺ) کی طرف سے امرائے حضرموت (اقیال) اور شاہانِ یمن کو بھی ارسال کیے گئے مکتوبات میںیا اُن سے گفتگو میں آپ (ﷺ) اُنہی کا اسلوبِ زبان وبیان اور مخصوص لغات استعمال فرماتے تھے، باوجودیکہ سرورِکائنات (ﷺ) اُن قبائل میں نہ کبھی تشریف لے گئے اورنہ ہی ان علاقوں اور قبائل کی زبا ن سیکھی''۔ مؤلف موصو ف نے یہ بات محترم شمس بریلوی مرحوم کی کتاب ''سرورِ کونین کی فصاحت'' کے حوالے سے لکھی ہے۔
میری دانست میں یہاں شاید کچھ نظرِثانی مطلوب ہے۔ ہمارے پیارے رسول(ﷺ) کے عالم عرب میں بغرض تبلیغ اسفار کے متعلق کوئی ایک جامع کتاب یا مبسوط مقالہ بالتحقیق لکھا جائے تو اُس میں یہ پہلو زیادہ نمایاں ہوگا کہ کن کن قبائل اور کن کن مقامات تک براہ راست رسائی ممکن ہوسکی تھی۔
زیرِنظر کتاب کے حوالے سے جہاں عربی زبان کی بولیوں یا شاخوں کی بات ہوئی، وہیں یہ انکشاف بھی دل چسپ ہے کہ اُس دور میں بعض دیگر زبانیں اور بولیاں بھی مقامی معاشرے میں رائج تھیں۔
یہ الگ بات کہ اب اُن میں اکثر معدوم ہوچکی ہیں اور ان کے نام بھی جدید مؤرخین ومحققین کے لیے نامانوس ہیں۔ زیرِنظر کتاب میں دیے گئے جَدوَل اور تشریح کے مطابق بنوقحطان میں عربی تھی تو بنو جُرہَم میں زبور، بنو قحطان بن عامر میں زقزقہ، بنی اسمٰعیل (علیہ السلام) میں عربی مبین (یعنی قرآن کریم کی واضح وعمدہ عربی)، بنوحِمیَر [Him'yar] میں مُسند، علاقہ حضرموت میں زبور، اہل مہرہ کے یہاں مَوَیل (حویل)، بنی معد میں مبین ،علاقہ عدن (یمن)میں رشق اور بنواَشعر (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ' کا قبیلہ) میں زقزقہ (رقرقہ)، جنوبی یعنی قحطانی عربی میں قوم سباء کی زبان سبائی، قرآن کریم کی سورہ 'البروج'میں مذکور اَصحاب الاُخدوُدکی زبان حِمیَری [Him'yari] اور اصحابِ فِیل (یعنی ابرہہ اور اُس کے لشکر )کی زبان حبشی تھی ;سبائی زبان زمانہ ماقبل اسلام میں مدتو ں پہلے دم توڑچکی تھی، جبکہ دیگر زبانیں ظہورِاسلام کے وقت زندہ تھیں۔
بقول علامہ سید سلیمان ندوی، ہرچند کہ قرآن مجید کے اثر سے تمام عالم عرب میں فقط قرآنی زبان یعنی عربی رائج ہوگئی، لیکن مذکور صوبوں اور علاقوں میں اُن کی اپنی اصل یا قدیم زبانوں یا بولیوں کا اثر آج بھی نظرآتا ہے۔ قرآن کریم کی خالص عربی میں بھی متعدد مقامات پر دیگر زبانوں (بشمول ہندوستانی یعنی اُردو) کے الفاظ بقدرِضرورت استعمال ہوئے۔
یہاں مزید توضیح سے گریز کرتے ہوئے خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ساری صورت حال، ہماری قومی زبان اُردو سے بہت مماثل ہے۔ آج سے صدیوں پہلے جب اُردو کے بیج،خطہ ہند کے مختلف علاقوں میں فطری اور غیرشعوری انداز میںبوئے گئے تو وہاں کی مقامی زبانوں اور بولیوں نے اس کے فروغ میں بھرپور تعاون کیا اور اُن میں شامل متعدد زبانیں یا بولیاں محض اپنے علاقوں تک محدود رہیں، گمنام ہوگئیں یا ختم ہوگئیں۔ جس طرح عربی پورے عالم عرب اور پھر عالم اسلام کی واحد، بڑی زبان بن کر اُبھری (مابعد ترکی، فارسی اور پھر اُردو بھی شامل فہرست ہوئیں)، اسی طرح اس خطے میں اردو کا سکّہ رائج ہوگیا۔
اس تناظر میں دیکھاجائے تو یہ کہنا مبالغہ آمیز دعویٰ نہیں کہ اگر قرآن کریم عربی میں نازل نہ ہوتا (اور ظاہر ہے کہ اُس عہد میں ہماری زبان بھی جڑیں مضبوط کرچکی ہوتی) تو فقط اُردو ہی ایسی زبان تھی جس میں یہ مقدس الہامی کتاب نازل کی جاتی۔
جہاں ہم زبان میں علاقے کے فرق سے لہجے اور دیگر اختلافات کی بات کرتے ہیں، وہیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا اِن کے باوجود بھی زبان متحد ومتفق ایک شکل میں باقی ہے۔ اردو کے لہجوں کا فرق اور بولیوں کے اختلافات کا علم ہو تو پھر اِس باب میں عربی کے لسانی اختلافات کا مطالعہ بھی دل چسپ اور معلومات افزا معلوم ہوگا۔ اردو کا طے شُدہ اصول کہ جو لفظ ہماری زبان میں مروج ومستعمل ہوگیا۔
ہم نے اپنالیا یا اُردوالیا تو وہ اردوہی ماناجائے گا، اَئمہ تفاسیر کا طے کیا ہوا ہے کہ جو غیرعربی الفاظ، قرآن کریم میں مذکورہیں، انھیںعربی ہی مانا جائے اور اُن پر عربی قواعد کا اِطلاق ہوگا۔کہیے کیسی دل چسپ اور دقیق بات تھی جو ہمیں ایسی کتاب کے مطالعے سے حاصل ہوئی۔ ''آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں نے اسی قرآنی اصول کو اَپنا کر، اپنے آپ کو عالمی اور بین الاقوامی زبان بنالیا''۔(اقتباس: ص 49)
نبی کریم (ﷺ) کے معجزات میں یہ بھی شامل ہے کہ فارس (ایران) سے تلاش حق میں آنے والے حضرت سلمان فارسی(رضی اللہ عنہ') کو اُن کی ''روحانی توجہ'' سے عربی بولنی آگئی، یہ ایک نبی کا معجزہ ہی تھا۔ اس ملک سے ہجرت کرکے اسلام لانے والے اور شرف صحابیت پانے والے کسی صحابی کو وہ مقام حاصل نہیں ہواجو حضرت سلمان کو ملا کہ جب مہاجرین مکہ وانصارِمدینہ میں اُن سے قریبی تعلق استوارکرنے پر 'برادرانہ' تکرار ہوئی تو زبان ِرسالت سے ارشاد ہوا (مفہوم) کہ ''سلمان، میرے اہل بیت میں شامل ہیں''، یعنی حضوراکرم (ﷺ) تو سب کے ہیں، اس لیے جو اُن سے قریب ہوا، وہ سب سے قریب ہوگیا۔ حضرت سلمان کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ اُنھوں نے نومسلم ایرانی ہم وطن حضرات کی گزارش پر، نبی کریم کے اِذن سے، سورہ فاتحہ کا فارسی میں ترجمہ کیا جو پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا۔ انھوں نے بسم اللہ شریف کا ترجمہ یوں کیا: ''بِنامِ خداوَند ِ بخشایندہ ومہربان''۔
{زید بن ثابتؓ کا عبرانی اور سُریانی محض سترہ دن میں سیکھنا اُن کی ذہانت سے زیادہ، فیضان نبوت کے طفیل ممکن ہوا۔ اُنھیں فارسی، قِبطی (قدیم مصری : Egyptian) اور رومی (Roman)زبانوں کا علم بھی حاصل تھا۔
اسی طرح حضرت ابوہُریرہؓ کو فارسی اور ایک روایت کے مطابق حبشی زبانیں آتی تھیں، تورات کے مسائل کا علم تھا تو ظاہر ہے کہ عبرانی بھی جانتے ہوں گے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے زمانہ جاہلیت میں باقاعدہ یہودیوں کی مجالس میں بیٹھ کر عبرانی زبان اور تورات کا علم حاصل کیا تھا (بحوالہ الفاروق از شبلی نعمانی)۔ ایک اور صحابی حضرت مُغِیرہ بن شُعبہؓ کانام بھی ذہن میں آرہا ہے کہ کہیں اُن کا فارسی داں ہونا بھی پڑھا تھا۔ یہ بات جنگ قادسیہ کے موقع پر عیاں ہوئی تھی}۔
''سیرتِ رسول ِ عربی (ﷺ) اور ریاست ِمدینہ میں قومی زبان کا مقام'' میں مواد اس قدر وسیع ووَقیع ہے کہ اس کے مشمولات پر بھی کئی کتب یا مقالے تحریرکیے جاسکتے ہیں۔ بعض مقامات پر مؤلف موصوف سے بشری سہو ہوا ۔یا۔ اُن کی منقولہ تحقیق پر اس خاکسار نے رَدِتحقیق کیا، مگر وہ الگ موضوع ہے۔
ایک نقل بطور امتثال امر حاضرہے: کتاب میں ڈاکٹر نثاراحمد صاحب کے مقالے 'عہد نبوی میں ریاست کا نشو واِرتقائ' مشمولہ رسالہ نقوش 'رسول نمبر' کے حوالے سے لکھا گیا کہ مکّی دور میں اولین کاتب وحی حضرت عبداللہ بن (سعدبن) ابی السّرحؓ تھے، جبکہ تمام مشہور مآخذ سیرت میں ان کی جگہ حضرت شُرَحبِیل بن حَسَنہ کا نام درج ہے۔ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔