لاہور ہائیکورٹ آئی جی اسلام آباد کو نوٹس پرویز الہی کو آج پیش کرنے کا حکم
آئی جی پنجاب کا پرویز الہی سے متعلق لاعلمی کا اظہار، تمام تر ذمہ داری اسلام آباد پولیس پر عائد کردی
لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کو بحفاظت گھر نہ پہچانے پر قیصرہ الٰہی کی توہین عدالت کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا اور حکم دیا کہ پرویز الہی کو کل اٹک جیل سے لاکر عدالت میں پیش کیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے پرویز الٰہی کی اہلیہ قیصرہ الہیٰ کی درخواست پر سماعت کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پرویز الٰہی کو عدالتی حکم کے باوجود بحفاظت گھر نہیں پہنچایا گیا، عدالتی حکم عدولی پر پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
دوران سماعت ڈی آئی جی سیکیورٹی کامران عادل لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ آپ تو اس کیس میں فریق ہی نہیں ہیں اس پر ڈی آئی جی نے کہا کہ عدالت نے طلب کس کو کیا اس متعلق کنفیوژن تھا اس لیے میں حاضر ہوا ہوں۔
لاہور ہائیکورٹ نے توہین عدالت کی درخواست پر دو بجے تک آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سمیت دیگر افسران کو دو بجے تک پیش ہونے کی ہدایت کردی۔
دوبجے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق اور آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوگئے جس پر عدالت نے پوچھا کہ آئی جی صاحب، ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کہاں ہیں؟ تو آئی جی نے جواب دیا کہ ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کراچی میں ہیں۔
جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ آپ کو بلانے کا مقصدر حقائق کو منظر عام پر لانا ہے، اسلام آباد پولیس کل کچھ اور کہے اس لیے آپ کو بلایا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں اسلام آباد پولیس کا ذمہ دار نہیں ہوں اگر میرے افسر نے توہین عدالت کی ہوگی تو میں ذمہ دار ہوں، یہ نوکری آنی جانی چیز ہے میں اس کی مکمل تحقیقات کرواؤں گا، میں پرویز الٰہی کے معاملے کی از سر نو تحقیقات کرواؤں گا، مجھے تحریری جواب جمع کروانے کے لیے مہلت دی جائے، میں عدالت کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ دونوں پولیس آفیسر واپس آکر عدالت میں پیش ہوں گے۔
جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ میں سوا دو سال سے یہاں بیٹھا ہوں آپ مجھے جانتے ہیں کہ میرے کام کو جانتے ہیں یہ کہنا کہ میں پرسنل ہوا ہوں یہ بہت افسوس کی بات ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ پرویز الٰہی اس وقت کہاں ہیں ؟ آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمیں بالکل نہیں پتا پرویز الٰہی کہاں ہیں اس پر جج نے پوچھا کہ کیا آپ کو واقعی نہیں پتا؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہمیں بالکل نہیں پتا پرویز الہی کہاں ہیں؟ آئی جی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے جواب پر عدالت میں قہقہ لگ گیا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ پرویز الہی کے حوالے سے اس وقت اسلام آباد پولیس ہی بتا سکتی ہے۔ جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ پرویز الہی کو اٹک جیل میں رکھا گیا تھا اس لیے عدالت یہ کیس سن رہی ہے۔
عدالت نے پرویز الہی کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ اس کیس میں چشم دید گواہ بھی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جی، پہلے ایک دو کیسسز میں رہا ہوں ساتھ ہی لطیف کھوسہ نے ظہور الٰہی کیس کا حوالہ بھی دیا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئی جی پنجاب کا یہ کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتا کہ پرویز الہی کہاں ہیں؟ یہ ایک صاف جھوٹ ہے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ کھوسہ صاحب کی اس بات پر افسوس ہوا ہمیں واقعی نہیں معلوم۔ اس پر جسٹس رفیق نے کہا کہ آئی جی صاحب! کھوسہ صاحب نے کوئی غیر پارلیمانی لفظ استعمال نہیں کیا، یہاں کسی کو جانور کہہ دیں تو ناراض ہوجاتا ہے شیر کہیں تو وہ خوش ہوجاتا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ پروہز الہی چلاتے رہے کہ مجھے کوئی وارنٹ دکھائیں، اب کوئی جھوٹ نہیں بولتا، کیمرے کی آنکھ سب کچھ دکھا دیتی ہے۔
بعد ازاں جسٹس امجد رفیق نے آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا اور حکم دیا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اٹک جیل سے پرویز الہی کو لے کر کل عدالت میں پیش ہوں۔
عدالت نے ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو جمعہ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
پرویز الہی کو گرفتار نہ کرنے کے فیصلے کیخلاف نیب نے انٹراکورٹ اپیل کردی
دوسری جانب، پرویز الٰہی کی رہائی اور کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف نیب نے اپیل دائر کر دی۔ نیب نے اپنی انٹرا کورٹ اپیل میں پرویز الٰہی سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
نیب اپیل میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سنگل بینچ نے نیب کا پورا موقف سنے بغیر پرویز الٰہی کی رہائی کا حکم دیا، پرویز الٰہی کی گرفتاری قانونی تھی پرویز الٰہی ریمانڈ پر تھے۔ سنگل بینچ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا اور رہائی کا حکم جاری کر دیا، پرویز الٰہی کو کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی قانونی طور پر درست نہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ لاہور ہائیکورٹ سنگل بینچ کا پرویز الٰہی کو رہا کرنے اور کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے اور اپیل کے حتمی فیصلے تک سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کرے۔
نیب کی پرویز الہی کی رہائی سے متعلق رپورٹ احتساب عدالت میں جمع
نیب نے چوہدری پرویز الہی کی رہائی سے متعلق رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرا دی جو کہ جج نسیم احمد ورک کی عدالت میں جمع کرائی گئی ہے۔
رپورٹ میں نیب نے کہا ہے کہ پرویز الٰہی جسمانی ریمانڈ پر نیب کی حراست میں نہیں ہیں، احتساب عدالت نے پرویز الہی کو جسمانی ریمانڈ ہر نیب کے حوالے کیا تھا، نیب جسمانی ریمانڈ کے دوران ہی ہائیکورٹ کے حکم پر پرویز الہی کو رہا کر دیا گیا۔
رپورٹ میں نیب نے کہا ہے کہ ہائیکورٹ نے پرویز الہی کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر رہا کیا، پرویز الہی کے وکلاء نے ان کی قانونی حثیت کو ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا تھا،پرویز الہی کے رہا ہونے سے تفتیش کا عمل رک گیا ہے۔
پرویز الہی کی گرفتاری کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرتے ہوئے نمبر لگا کر دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پرویز الٰہی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سردار عبدالرازق عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ صرف لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر کو فرسٹریٹ کرنے کیلئے پرویز الٰہی کو گرفتار کیا گیا، بغیر کسی وارنٹ اور آرڈر کے پرویز الٰہی کو گرفتار کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ کا حکم واضح تھا کہ ایم پی او کے تحت بھی گرفتار نہ کیا جائے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ کیا اس درخواست پر کوئی اعتراض لگا ہے، جس پر وکیل نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر موجود ہے کہ کوئی اتھارٹی کسی کیس میں گرفتار نہیں کرے گی، ڈی سی اسلام آباد کو بھی آرڈر کیا گیا ہے، عدالت نے کہاکہ آپ وہ آرڈر پڑھیں جس پر وکیل پرویز الہٰی نے لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا اور شہریار آفریدی کیس کا حوالہ دیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہاکہ آپ کی درخواست پر آفس کے اعتراضات ہیں، ابھی وہ اعتراضات ختم کررہے ہیں، عدالت نے رجسٹرار آفس کو درخواست پر نمبر لگانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت آج تک کے لیے ملتوی کردی۔