6 ستمبر کی یادیں
ہر سال جب یہ دن آتا ہے تو 1965 کے اُس ناقابلِ فراموش دن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جب بھارتی فوج نے شب خون مارا تھا
کل 6 ستمبر ہے۔ ہر سال جب یہ دن آتا ہے تو 1965 کے اُس ناقابلِ فراموش دن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جب بھارتی فوج نے شب خون مارا تھا۔ہمارے ذہن اور آنکھوں میں وہ منظر ابھی تک تازہ ہے جب صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے ریڈیو پاکستان سے تاریخی خطاب کیا تھا۔
اُن کے خطاب کے تاریخ ساز الفاظ ابھی تک ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ''میرے عزیز ہم وطنوں! ہمارے دشمن نے ہماری ہمت اور غیرت کو للکارا ہے اور ہم اس کی جارحانہ کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے تاکہ وہ آیندہ کبھی ایسی جرات نہ کر سکے۔''
مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک نوعمر لڑکا ہمارے محلہ کی دکان پر منہ بسورے ہوئے کھڑا ہوا کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بہت ناراض ہے اور کسی نے شاید اس کی بات نہیں مانی۔ میرے استفسار پر اُس نے غصہ کی حالت میں جواب دیا ''فوج والے میرے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ '' میں سمجھا کہ شاید اُسے زبردستی بھرتی کیا جا رہا ہے۔ اُس کا جواب سن کر میں حیران رہ گیا۔
اُس کی شکایت تھی کہ وہ محاذِ جنگ پر جانا چاہتا ہے اور نوعمری کی وجہ سے اُسے یہ موقع نہیں دیا جاسکتا۔ گلی گلی کوچہ کوچہ ایک ہی ماحول تھا ۔ نظم و ضبط کا جو درس بابائے قوم نے دیا تھا اُس کا عملی مظاہرہ اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
اُس وقت مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ تھے جن کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا اور کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ کوئی ایسی حرکت کر سکے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہ ہو۔
تمام محکمے جس میں پولیس کا محکمہ بھی شامل تھا اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلنے سے گھبراتے تھے اور رشوت ستانی اور کرپشن کا یہ حال نہ تھا جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔
یقین مانیے کہ دورانِ جنگ کسی چیز کی نہ تو کوئی کمی نظر آئی اور نہ ہی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے کسی شے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ قوم کا جذبہ قربانی اپنے عروج پر تھا اور چھوٹے سے چھوٹا دکاندار اور بڑے سے بڑا سرمایہ دار حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھا۔
سترہ روزہ جنگ کا تصور کرتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ کیا یہی وہ قوم تھی اور کیا اِس ملک کے یہی اہلکار تھے۔ آج جب اُس وقت کے حالات کا موجودہ حالات سے موازنہ کرتا ہوں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اُس وقت قوم کے ہر فرد کا یہ حال تھا کہ وطنِ عزیز کی خاطر ہر شہ اور اپنی جان تک قربان کردے۔ سرِ شام ہی بلیک آؤٹ ہوجاتا تھا اور زندگی کا نظام پورے ڈسپلن کے ساتھ چلتا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے نہ کوئی حادثہ پیش آتا تھا اور نہ کوئی ناخوشگوار صورت حال نظر آتی تھی۔
اِس سترہ روزہ جنگ کے دوران جس قومی ادارے نے جو ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا وہ تھا ریڈیو پاکستان۔ جو آج کل انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے اور کوئی اُس کا پرسانِ حال نہیں ہے، اگر یہ ادارہ نہ ہوتا تو معلوم نہیں ملک و قوم کا کیا حشر ہوتا؟ سچ پوچھیے تو اِس ادارے نے فوج کے شانہ بشانہ جنگ لڑی تھی اور نہ صرف فوج کا مورال بلند کیا تھا بلکہ پاکستانی قوم کے حوصلہ بھی بلند کیے تھے۔
پَل پَل کی خبریں دینا اور جذبہ حب الوطنی کو مسلسل بڑھاتے رہنا اس کا اولین مقصد تھا۔ وطنِ عزیز کے شاعروں نے قوم کے جوش و جذبہ کو بڑھانے کے لیے جو ملی نغمے تحریر کیے اور جس جذبہ سے گلوکاروں نے اُن میں اپنی روح پھونکی اور موسیقاروں نے اُن کی جو روح پرور دُھنیں بنائیں انھیں قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
آج بھی ہم جب یہ ملی نغمے سنتے ہیں تو ہماری رگوں میں خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے اور ہمیں اپنی قوم پر فخر محسوس ہوتا ہے اور مایوسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں۔ریڈیو پاکستان سے نہ صرف جادو بھرے نغمے پیش کیے گئے بلکہ ایسے دیگر پروگرام بھی پیش کیے گئے جنھوں نے نہ صرف پوری قوم کو باخبر کیا بلکہ اُسے بیدار بھی رکھا۔زیادتی ہوگی اگر 1965 کی جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر کا تذکرہ نہ کیا جائے۔
اِس شعبہ کے عملہ نے بے تحاشہ دشواریوں کے باوجود اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ راتوں کی گہری تاریکی میں اِس شعبہ سے تعلق رکھنے والے ہر فرد نے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور کیا مجال جو منٹ بھر کی بھی تاخیر ہوئی ہو۔
ناسپاسی ہوگی اگر تکنیکی عملہ اور نیوز ریڈرز کی فرض شناسی کا ذکر نہ کیا جائے۔ ہمیں اِس سلسلہ میں کئی نام یادِ آرہے ہیں جن میں شمیم اعجاز، انور بہزاد اور شکیل احمد کے نام یاد آرہے ہیں۔ اِن میں شکیل احمد کا نام سرِفہرست ہے جن کے خبریں پڑھنے کا منفرد انداز افواجِ پاکستان کے حوصلے بلند اور دشمن کی فوج کے حوصلے پست کردیتا تھا۔
ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اپنے ہم نام کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا جنھیں ہم بڑے پیار سے دادا کہا کرتے تھے اور جن کی صحبت اور شفقت ہمارے لیے سرمایہ حیات ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اُن کی وہ قدر و منزلت نہیں کی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ کیا کیجیے ہمارے یہاں کا چلن یہی ہے۔