نائیجریا میں ’’ گزرے دن‘‘
مغرب نے نوآبادیاتی تسلط کے دور میں افریقا پر جو زخم لگائے وہ آج بھی مندمل نہیں ہوسکے ہیں
براعظم افریقا کا بہت بڑا اور اہم ملک نائیجیریا طویل عرصے سے عدم استحکام سے دوچار ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق اس ملک کے ایک صوبے میں مسجد پر حملہ کر کے کم از کم سات نمازیوں کو شہید کر دیا گیا۔
مساجد پر ہونے والے حملوں میں تیرہ نمازیوں کو فائرنگ کر کے شہید کردیا گیا ہے۔ پچھلے سال ایک کالعدم مسلح گروہ نے پوری بارات کو اغوا کر کے تمام باراتیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مارچ 2022 میں پاکستان کے ایک ڈاکٹر ابو ذر افضل کو بھی اغوا کرلیا گیا تھا۔ ڈاکٹر حسن منظر نے جو کچھ دیکھا اسے اپنی کتاب '' گزرے دن '' میں بیان کردیا ہے۔
باضمیری اور وطن پرستی حسن منظر کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ ان کا نسب نامہ اس دادا کے وجود سے روشن ہے جس نے 1857 کی جنگ آزادی میں بغاوت کا سرنامہ لکھا، فرنگی سرکار کی طرف سے سرکی قیمت مقرر ہوئی لیکن وہ ہاتھ نہ آئے اور سولی ان کے زیب گُلو نہ ہوئی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اصل معاملہ تو نیتوں کا ہے۔ داد ا وطن پرست تھے۔ پوتے کو بھی انسان دوستی اور وطن پرستی ورثے میں ملی۔
1947 کی اکھاڑ پچھاڑ میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پہلے لاہور پہنچے اور پھر کراچی۔ اس کے بعد ان کے قدم کہیں نہیں تھمے۔ وہ کراچی سے حیدرآباد گئے۔ سندھ کا تاریخی اور دل آویز شہر۔ اردو اور سندھی کے اس ملاپ نے ان کی تحریروں میں کیسی حلاوت اور دل آویزی سمو دی۔
ڈاکٹر حسن منظر نے نائیجیریا کے شہر '' لیگوس'' کا ذکر کرتے ہوئے نو آبادیاتی نظام کے تحت ہونے والی غلاموں کی اس تجارت کا ذکرکیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''لیگوس'' پرتگیزی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے جھیلیں لیکن وہ جھیلیں نہیں جن سے میں نائیجیریا جانے سے پہلے سے واقف تھا، جن کا پانی پیا جاسکتا ہے۔ '' لیگوس'' لیگونوں کا شہر اور پورٹ ہے لیگون نمکین پانی کی جھیلیں ہوتی ہیں جو پانی میں چھپی چٹانوں کی وجہ سے کھلے سمندر سے کٹ کر بن جاتی ہیں اور سطح پر آبنایوں سے اس سے جڑی بھی رہتی ہیں لیگوس ان لیگونوں، آبناؤں، جزیروں اور مین لینڈ کا شہر ہے۔
وہاں کے پچھلے قبیلوں کے چیف شاید حفاظت کے پیش نظر مین لینڈ پر رہنے کے بجائے جزیروں پر رہنا پسند کرتے تھے۔ جزیروں میں سے ایک لیگوس ہے، دوسرا اڈو، تیسرا اکوئی اور چوتھا وکٹوریا۔ مین لینڈ ''بائٹ آف بینین'' یعنی خلیج بینین کا ساحلی علاقہ ہے جہاں لیگوس کا پورٹ '' اپاپا'' ہے۔
پہلے ٹور '' پھیرے اور قیام'' میں جزیرہ اکوئی میں رہے جہاں بڑے بڑے کیکڑے سمندر سے نکل کر نجانے کیا ڈھونڈنے گھر کے اندر تک چلے آتے تھے۔ دوسرے سرکاری پھیرے (ٹور) میں ''مین لینڈ'' اپاپا میں۔ میرا دفتر اور اسپتال مین لینڈ پر ''ایبوٹی مینا'' اور '' یابا'' میں تھے۔
انسانوں کی فروخت حیثیت والوں کے ہاتھ یہ سلسلہ افریقا میں کب سے چل رہا تھا۔ اس کی تاریخ مقرر نہیں کی جاسکتی ہے۔ بس اتنا کہا جاسکتا ہے اس کی اولین شکل وہ تھی۔ جنگ ہوئی جو زندہ پکڑ لیے گئے انھیں خدمت کے لیے رکھ لیا گیا یا دوسرے اقتدار والوں کو دے کر ان کے بدلے میں ضرورت کا سامان لے لیا۔
یورپ کی نوآبادیاں قائم کرنے والے ملکوں میں غلاموں کی تجارت کی پہل پرتگال نے کی تھی۔ بعد میں اس تجارت میں دوسرے ملک شامل ہوتے گئے اور امریکا میں جا بسنے والے یورپی تجار، افریقی چیف انھیں پکڑے ہوئے انسانوں کے علاوہ پام کا تیل، مرچ، جنگلی جانوروں کی کھالیں اور جنگلوں کی دوسری پیداوار دیتے تھے اور بدلے میں شراب، اسلحہ اور بارود لیتے تھے۔ قبیلوں کی آپس کی جنگ کے لیے بندوق اور باردو سے زیادہ کس چیزکی ضرورت ہوسکتی تھی۔
برطانیہ کے باشعور عوام نے سب سے پہلے غلاموں کی تجارت کے خلاف آواز اٹھائی۔ خاص طور سے جب امریکا سے لوٹنے والے غلاموں کے ساتھ وہاں آن بان سے وارد ہوتے تھے۔ لیکن یہ ایک طویل کہانی ہے۔
مختصراً یہ کہ بالآخر 1861 میں لیگوس کو بطور ایک نوآبادی برطانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا تاکہ اس انسانیت سے گری ہوئی تجارت کا سد باب ہوسکے۔ پکڑے ہوئے انسانوں کو خرید کر یورپ اور امریکا جانے والے جہازوں کا مغربی افریقا پہنچنا 1840 میں رک تو گیا تھا مگر تجارت ختم نہیں ہوئی تھی۔
لیگوس پر برطانیہ کے تسلط کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ اس بندرگاہ کے عقب کی کل یوروبالینڈ1888 میں تاج برطانیہ سے منسلک ہوگئی یہ کارنامہ The Royal Niger Company نے انجام دیا تھا جو 1886 میں قائم ہوئی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ 1857 میں کل ہندوستان کا برطانیہ کا مقبوضہ بن ، ملتی جلتی کہانیاں ہیں۔
کرسچن مشن، ان کے ساتھ جنوبی امریکا سے لائی ہوئی کونین دو تحفے تھے جو مغرب نے اس دور میں دیگر تمام نوآبادیات کی طرح نائیجیریا کو دیے تھے۔
ساتھ ہی مغرب سے جدید تعلیم آئی۔ عربی تعلیم جو شمالی نائیجیریا اور اس کے نزدیک کے شمالی ملکوں کو فیض یاب کرسکی تھی۔ استوائی جنگلوں '' ٹیٹ سی فلائی'' کی وجہ سے پار نہ کرسکتی کہ ''یوروبا'' اور '' ایبو'' (مغربی اور مشرقی نائیجیریا) قبائل تک پہنچتی۔
اس مکھی کے کاٹے کی وجہ سے نہ انسان بچتے نہ ان کے مویشی اورگھوڑے اونٹ۔ '' ٹیٹ سی فلائی'' کی لائی ہوئی مہلک بیماری Sleeping Sickness کے چند مریض میں نے ان کے لیے بنائی ہوئی علاج گاہ کدونا میں دیکھے تھے لگتا تھا جاگ رہے ہیں لیکن ختم نہ ہونے والی نیند میں تھے۔
نائیجیریا میں برص کے مرض کے بارے میں وہ ''گزرے دن'' میں لکھتے ہیں کہ '' میں ایک صبح کدونا سے باہر ہالینڈ کے ایک ڈاکٹرکے گھر جو '' برص'' پر عالمی پائے کے ماہر ہونے کی شہرت رکھتے تھے پہنچا۔ وہ میرا انتظار کررہے تھے۔
اپنی جیپ میں وہ مجھے کسی ایسی جگہ لے گئے جہاں ہفتہ وار بازار لگتا تھا۔ جہاں ایک بڑے علاقے کے دیہاتی، بیچنے والے، خریدنے والے جمع ہوتے تھے اور ان ہی میں پرانے پہنچانے ہوئے برص کے مریض ملتے تھے۔ اور انھی میں سے نئے بیماریوں کی شناخت کرنا ہوتی تھی۔
کار چلاتے میں انھوں نے چیز سینڈوچ کا ناشتہ کیا، ساتھ ہی مجھے اس علاقے میں برص کے پھیلاؤ سے متعلق بتاتے رہے۔
ایک موقع پر ان کے لفظ help کی جگہ hel up کہنے کو بھانپ کر میں نے پوچھا ''آپ ڈچ ہیں؟'' بولے '' جی'' پھر میرے سوال پر انھوں نے پاکستان میں برص کے مریضوں کی تعداد کے بارے میں اپنا اندازہ بتایا۔ اتنے میں ہم لوکل مارکیٹ کے ہجوم میں شامل تھے۔
ڈاکٹر۔ چلتے پھرتے عورتوں، مردوں میں مریض کو پہچان کر چیک کرتے جا رہے تھے۔ کس کا مرض کتنا ابھی باقی ہے۔ کسی کسی کو انھوں نے کھڑے کھڑے اپنی ٹانگوں پر گھما کر جلد کو دھول سے صاف کر کے دیکھا کہ وہ ہلکا سا دھبا جو کوڑھ کا پتہ دیتا ہے، ابھی ہے یا غائب ہوگیا۔
دو ایک دفعہ جب پنڈلی کی کھال اس عمل سے صاف نہیں ہوئی، انھوں نے انگلی سے اپنا تھوک لے کر مشتبہ حصہ کو صاف کیا اور واقعی گلابی سا نشان ابھر آیا۔ اس بیچ مریض اپنے کام سے رک نہیں جاتے تھے۔ یوں بھی وہ متحرک مجمعے کا حصہ تھے۔ حقارت کیے جانے کے لائق خدا کی گری ہوئی مخلوق نہیں۔
واپس گھر آکر مجھے اندر لے گئے۔ بیوی جوان تھیں، انھوں نے گود کے بچے کو لاکر ان کو دیا اور یہ اسے گھٹنوں پر بٹھا کر کدانے لگے۔ وہ گھڑ سواری کا کھیل تھا جو ہم بھی کرتے ہیں۔ پھر بیوی نے مجھے کسی قسم کا شربت پیش کیا۔ یہ امر میرے لیے باعث تعجب تھا کہ وہ دل کے جوان سہی عمرکے ادھیڑ تھے۔''
یکم جنوری 1914 کو پہنچنے تک نائیجیریا برطانیہ کی کالونی اور پروٹیکٹوریٹ بن چکا تھا۔ دونوں عالمی جنگوں میں نائیجیریا کے نوجوانوں نے بھی سرخروئی سے جنگی محاذ دیکھے۔ آزادی کی اس جدوجہد کے بعد جن سے تمام نوآبادیاں گزریں۔ ماسوائے فلسطین کے جو پہلے اگر تھوڑا بہت آزاد تھا تو اسے 1948 میں مغربی استعمارکی ایک نئی کالونی بنادیا گیا۔ یکم اکتوبر 1963 کو نائیجیریا آزاد مملکت بن گیا۔
مغرب نے نوآبادیاتی تسلط کے دور میں افریقا پر جو زخم لگائے وہ آج بھی مندمل نہیں ہوسکے ہیں۔ افریقا کے کئی ملک خانہ جنگی، دہشت گردی اور معاشی بحران کا شکار ہیں۔ افریقا پر ہمارے ملک میں بہت کم لکھا گیا۔ جس کے باعث لوگوں کو یہ اندازہ نہیں کہ افریقی ملک کس کرب ناک عذاب سے گزر رہے ہیں۔