عوام الیکشن کے لیے تیار ہیں
نہ جانے کل تک کے حکمران اس شک میں کیوں مبتلا ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے
ایک طرف عوام کی آہ و بکا ہے اور دوسری طرف سیاست دان الیکشن کے لیے کمر کس رہے ہیں لیکن شک و شبے میں بھی مبتلا ہیں کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ باوجود اس کے کہ نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں جن کا آئینی فرض ہی ایک مقررہ مدت میں الیکشن کرا کے رخصت ہو جانا ہوتا ہے لیکن نہ جانے کل تک کے حکمران اس شک میں کیوں مبتلا ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔
اب بات اس حد تک چلی گئی ہے کہ مسلم لیگ نوازکے ایک پرُ جوش ترجمان نے جذبات سے مغلوب ہو کر یہ تک کہہ دیا ہے کہ الیکشن کے انعقاد میں اگر تاخیر کی گئی تو بطور احتجاج نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ٹرک پر سوار ہوں گے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ تحریک انصاف کو بھی اس میں شامل کر لیں گے۔
یہ خبر پڑھ کر پہلے تو یقین نہیں آیا کہ پی ڈی ایم کی لیڈرشپ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں ہے، وہ الیکشن کے حصول کے لیے تحریک انصاف ایک ساتھ احتجاجی ٹرک پر سوار ہونے کو تیار ہیں ۔لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نگران حکمران عام انتخابات کا ڈول ڈالنے جارہے ہیں۔
شنید یہ ہے کہ آئین میں انتخابات کے دورانئے کی جو چھوٹ مقرر کی گئی ہے، اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی انتخابات ہوجائیں گے۔
پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم ان دنوں لندن میں مقیم ہیں۔ شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کا عندیہ دیا ہے، وہ لندن میں سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔
پاکستانی لیڈروں کی ان لندنی ملاقاتوں سے کیا نتیجہ نکلے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کوانتخابی مہم کے دوران اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے سے دور رکھنے پر قائل کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اور میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی کا جہاز پکڑنے کا بہت حد تک انحصار بھی اسی بات پر ہے۔
ادھر آصف علی زرداری بھی دبئی پہنچ چکے ہیں اور وہاں بیٹھ کر اس ٹوہ میں ہیں کہ کون سی جماعت کتنے پانی میں ہے تا کہ اس سے انتخابی اتحاد کا فیصلہ کیاجا سکے ۔
پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں مزے لوٹنے والے اتحادی ایک دوسرے پر تنقید شروع کر چکے ہیں اور توقع کے عین مطابق حکومت کے خاتمے کے بعدپیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ملک کی معاشی ابتری کا ذمے دار نواز لیگ کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے کایاں لیڈر آیندہ انتخابات میں جہاں پر تحریک انصاف کو نشانے پر رکھیںگے وہیں پر ان کا اصل نشانہ نواز لیگ ہو گی۔توقع یہ کی جارہی ہے کہ آیندہ انتخابات میں تحریک انصاف کامحدود کردار ہو گا اور پنجاب میں اصل انتخابی معرکہ دونوں پرانے حریفوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان ہوگا۔
محدودے چند نشستیں جہانگیر ترین کی پارٹی کے حصے میں بھی آئیں گی کیونکہ ان کے پاس الیکٹیبلز کی ایک معقول تعداد اکٹھی ہو چکی ہے۔
پنجاب اور خیبرپختونخواہ میںآزاد امیدوار بھی خاصی بڑی تعداد میں الیکشن لڑیں گے ، یہی آزاد امیدوار منتخب ہو کر جس پارٹی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیںگے،اقتدار کا ہمااسی کے سرسج جائے گا۔ انتخابات میں سب سے بڑافریق عوام ہیں جن کے دم قدم سے انتخابی معرکے سجیں گے اور عوام کا موڈ ہی آیندہ انتخابات کا فیصلہ کرے گا۔ آج کی ابتر معاشی صورتحال میں عوام کا موڈ انتہائی جارحانہ ہے۔
اشرافیہ کے اللے تللوں پر عوام سیخ پا ہیں۔ عوام کسی ایسے حکمران کو قبول کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہیں جو عوام سے تو قربانی مانگے مگر خود حکمران طبقہ چھریاں تیز کر کے معمول کی آسودہ زندگی بسر کرتا رہے اورانھیں ایثار و قربانی ، برداشت اور صبر کی تلقین کرتا رہے۔
پاکستان کے جتنے بھی مسئلے ہیںوہ سب انھی حکمرانوں کے پیدا کر دہ ہیں اور ان مسائل کو پیدا کرنے میں باہر سے کسی نے کوئی حصہ نہیں لیا ہے۔ بیرونی قرضے ہم پر زبردستی نہیں ٹھونسے گئے بلکہ بقول شاعر'' دیوانے نے خود اپنی زنجیر بنائی ہے'' ۔ہم اس سلسلے میں کسی کو مورود الزام نہیں ٹھہرا سکتے، ہماری اشرافیہ نے خود ہی ہمیں بھوک و افلاک سے دوچار کیا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو حکومتیں عوام کے ووٹوں کے بجائے طاقتور لوگوں کی آشیر باد سے قائم ہوتی ہیں وہ حکومتیں کبھی عوامی فلاح کے کام نہیں کر سکتیں۔ ان کی طاقت اور اقتدار کے سر چشمے عوام نہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کے اشرافی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مفادات مشترک ہوتے ہیںاور وہ ان مشترکہ مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرتے ہیں۔
ان لوگوں کو نہ عوام اقتدار میں لاتے ہیں اور نہ عوام میں اتنی سکت ہوتی ہے کہ وہ ان کو اقتدار سے اتار سکیں۔ البتہ جب عوام کو الیکشن میں موقع مل جاتا ہے تو وہ ووٹ کی طاقت سے اپنا غصہ ضرور اتارتے ہیں۔
عوام کی نبض یہ بتا رہی ہے کہ وہ یہ فیصلہ بھی کر چکے ہیں ، عوام ایسے حکمران کی تلاش میں ہیں جو ان کی تکالیف اور مشکلات کا ازالہ کرے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ عوام دوست حکمران ہم عوام کے نصیب میں نہیں ہے۔