یکساں اور غیر معمولی انصاف
اگر انصاف یکساں نہیں ہے تو وہ کتنا بھی اچھا ہے، وہ انصاف نہیں ہے
آج کل چوہدری پرویز الٰہی کی گرفتاری، ضمانت، رہائی اور پھر گرفتاری ایک بڑا ایشو بنا ہوا ہے۔ عدالتیں ضمانت دیتی ہیں لیکن انھیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ انصاف کو جانچنے کا واحد پیمانہ ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ انصاف یکساں ہونا چاہیے، امیر و غریب ، مقبول اور غیر مقبول، لاڈلے و سوتیلے سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ اگر انصاف یکساں نہیں ہے تو وہ کتنا بھی اچھا ہے، وہ انصاف نہیں ہے۔ اسی لیے ٹارگٹڈ انصاف کو انتقام کی ہی ایک شکل کہا جاتا ہے۔
اسی طرح غیر معمولی انصاف کتنا بھی جائز کیوں نہ ہو، اسے بھی غلط کہا جا سکتا، انصاف کا واحد پیمانہ یکساں ہونا چاہیے۔
جیسا انصاف پاکستان کے عام آدمی کو میسر ہے، پاکستان کے خاص لوگوں کو بھی ویسا ہی میسر ہو نا چاہیے۔ آج سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے نظام انصاف کے پیمانے مختلف نظر آتے ہیں۔ کہیں نظام انصاف بہت زیادہ متحرک ہے اور کہیں لمبی تان کر سویا ہوا نظر آتا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کے حوالے سے بھی نظام انصاف کو اسی پیمانے پر جانچنا اور پرکھناہوگا۔ مجھے پولیس کو دیے جانے والے اس حکم پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جس میں چوہدری پرویز الٰہی کو بحفاظت گھر پہنچانے کا پابند کیا گیا ہے۔
البتہ میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ کیا پاکستان کے عام آدمی کے لیے بھی نظام انصاف اتنا متحرک؟ کبھی کسی عام شہری کے لیے بھی پولیس کے اعلیٰ افسران کو پابند کیا ہے کہ اسے بحفاظت گھر پہنچایا جائے۔
اگر ایسی مثالیں موجود ہیں تو پھر چوہدری پرویز الٰہی کے حوالے سے پولیس افسران کو جو حکم دیا گیا ہے ، وہ بالکل درست ہے۔
کسی کو بھی اس پر اعترض نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر عام شہریوں کے مقدمات میں ایسا حکم نہیں دیا جاتا تو پھر کسی ایک شخص کے لیے یہ حکم دیا جائے تو اس پر سوال تو ضرور اٹھیں گے۔ پولیس اور نظام انصاف عام ملزمان کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، وہی طاقتورملزمان کے ساتھ کرنا چاہیے، اگر ایسا ہوگا تو کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوگا۔
جب تحریک انصاف کے چیئرمین کو عدالت میں گڈ ٹو سی یو کہا گیا تو سب نے یہی پوائنٹ اٹھایا تھا کہ اس سے پہلے کتنے ملزمان کو گڈ ٹو سی یو کہا گیا ہے۔ اگر صرف ایک کو کہیں گے تو پھر سوال لازماً ہوگا۔ نظام انصاف کسی ایک کے ساتھ خاص سلوک نہیں کر سکتا۔
عدالت کے اندر سے تو گوادر حق دو تحریک کے سربراہ ہدائت الرحمٰن کو بھی گرفتار کیا گیا تھا بلکہ ان کو کئی ماہ اندر ہی رکھا گیا۔ اس سے پہلے بھی کئی لوگ عدلت کے احاطے سے گرفتار ہو تے رہے ہیں، نظام انصاف کو کوئی اعتراض نہیں رہا۔ لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کی باری آئی تو انصاف کے اصول اور تقاضے بدل دیے گئے۔
تو سوال تو ہوگاکہ کیا مفتی ہدایت الرحمان چیئرمین پی ٹی آئی کے مقابلے میں پاکستان کے کم تر شہری ہیں کہ ان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کے وقت نظام انصاف خاموش رہا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے وقت نظام انصاف فوراً متحرک ہوگیا۔
اسے یکساں انصاف کی نفی اور اس کے لیے زہر قاتل کہا جاتا ہے۔ اسے ہی غیر معمولی انصاف بھی کہا جاتا ہے جو انصاف کی نفی ہی سمجھا جاتا ہے۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ آپ کسی ملزم کی تمام مقدمات میں ضمانت ایک ہی درخواست پر لے لیں۔ مجھے صرف یہ اعتراض ہے کہ پاکستان کے عام آدمی کو یہ سہولت کیوں حاصل نہیں ہے؟ اگر عدالت حکم دے کہ آپ کے اوپر جتنے مرضی مقدمات ہیں، آپ ایک درخواست لائیں اور سب مقدمات میں اکٹھے ضمانت لے جائیں تو ایسی سہولت پرویز الٰہی 'عمران خان، بشری بی بی، ایمان مزاری سمیت سب کو دے دی جائے، ہمیں کیا اعتراض ہے۔
لیکن اگر یہ رعایت یا ریلیف مخصوص شخصیات کے لیے ہے تو سوال ہو گا کہ کیا پاکستان کے عام شہری قانون و انصاف کی نظر میں برابر نہیں ہیں؟ قانون اور انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ جس کوبھی ضمانت ملنے کے بعد پولیس یا کوئی اور ادارہ دوبارہ گرفتار کرے تو سب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے۔ ایک بار بار ضمانت مل جانے کے دوبارہ گرفتاری نہیں ہونی چاہیے۔
اگر عام آدمی کے لیے سیشن جج کو بیلف مقرر کیا جائے تو پی ٹی آئی کے سیاستدان کے لیے بھی کر دیا جائے۔ ہزاروں لوگ پولیس اور دیگر اداروں کی غیر قانونی حراست میں ہیں۔ ان کے لواحقین عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ کیا سب میں سیشج جج کو بیلف مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر کیا جاتا ہے تو اب ایک کیس میں بھی کیا گیا تو ٹھیک ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر غلط ہے۔ بس یہی پیمانہ ہے۔
بلاشبہ پی ٹی آئی کے کچھ سیاستدان کئی ماہ سے قید میں ہیں۔ لیکن یہ لوگ پاکستان کے پہلے سیاستدان نہیں ہیں جن کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہاہے۔
ان سے پہلے بھی کئی سیاستدانوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے۔ پولیس اور دیگر اداروں کا سیاسی استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ سب کرتے ہیں۔ اس کے خلاف آواز بھی اٹھانی چاہیے۔ نیب کا سیاسی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ماضی میں سیاستدانوں کو نیب غلط گرفتار نہیں کرتی رہی۔ میری ا صرف ایک درخواست ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف خواص کے علاوہ عام شہریوں کو بھی ریلیف دے۔ جو تشویش گرفتاراہم لوگوں کے کیے وہ عام آدمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔
اسی طرح ایمان مزاری کے لیے اگر حکم دیا گیا ہے کہ انھیں گرفتار کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت لی جائے تو عام آدمی کے لیے بھی یہی حکم دیا جانا چاہیے۔ یہ سہولت صرف خواص کے لیے نہیں ہونی چاہیے ۔