حکومت سندھ نے محکمہ صحت کے 1340بنیادی صحت کے مراکزسمیت ضلع ملیرکے34 اور غذائیت کی کمی کے لیے ایکشن منصوبہ بھی پیپلز پرائمری ہیلتھ اینیشٹو (پی پی ایچ آئی)کے حوالے کردیے گئے۔
حکومت سندھ نے محکمہ صحت کے مراکزاورہسپتالوں کو پرائیوئٹ کمپنی کے حوالے کرنے کا عمل تیزکردیا۔ کراچی ضلع ملیرکے ابراہیم حیدری ہسپتال سمیت دیگر34 صحت کے مراکزجبکہ اندرون سندھ کے1340 سوبنیادی صحت کے یونٹ اورتعلقہ ہسپتالوں کومزید 5 برس کے لیے پیپلزپرائمری ہیلتھ کئیراینشیٹو(PPHI)کے حوالے کردیے جبکہ بچوں کی غذائی کمی پر قابوپانے والے پروگرامAccelerated Action Plan for Reduction of Stunting and Malnutrtion کو بھی پی پی ایچ آئی کے حوالے کردیاگیا۔
مراکزمیں کام کرنے والے ملازمین اوربجٹ بھی کمپنی کے سپرد
اس طرح مجموعی طورپرمحکمہ صحت کے 1374 صحت کے مراکزمذکورہ کمپنی کو دے دیے گئے اوران مراکزمیں کام کرنے والے ملازمین اوربجٹ بھی کمپنی کوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر دیدیئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے صوبائی کابینہ کی منظوری سے اندرون سندھ کے 1340 صحت کے مراکز وہسپتالوں کوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پی پی ایچ آئی کودینے کے بعدکراچی کے ضلع ملیرکے سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال،میمن گوٹھ،ریڑھی گوٹھ،دنبہ گوٹھ سمیت دیگر 34صحت کے مراکزبھی پی پی ایچ آئی کو5 برس کے لیے دیے گئے ہیں۔
1340 صحت کے مراکز کا بجٹ 12.750 بلین روپے بتایا گیا
ان 1340 صحت کے مراکز کا بجٹ 12.750 بلین روپے بتایا گیا ہے، یہ مراکز گزشتہ 10 برس سے پی پی ایچ آئی کے پاس ہیں جبکہ اندرون سندھ کے صحت کے مراکزمیں ادویات نہ ملنے کی شکایت عام ہے۔
محکمہ صحت کے ریکارڈ کے مطابق ضلع ملیر کے 34 صحت کے مراکز اور ابراہیم حیدری اسپتال سمیت دیگر کو بھی محکمہ صحت نے 2022 میں پبلک پرایوئیٹ پارٹنرشپ کے نام پر پی پی ایچ آئی کو دے دیا۔ اس سے قبل ضلع ملیر کے 34 صحت کے مراکز کو 2016 میں ہینڈز نامی این جی او کو 5 برس کے لیے پبلک پرایوئیٹ پارٹنرشپ کے تحت 20 کڑور روپے سالانہ پر دیا گیا تھا جن کا معاہدہ محکمہ صحت سے 2021 میں ختم ہوگیا تھا جس کے بعد صحت کے ان مراکز 6 ماہ تک حکومت سندھ کے ماتحت رہے تاہم 2022 میں ضلع ملیر کے مراکز کو ایک معاہدے کے تحت پی پی ایچ آئی کے حوالے کردیا گیا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ اس جس کا بجٹ 100 کروڑ روپے بتایا گیا۔ بعدازاں حکومت سندھ نے 18جولائی 2023 کو اپنے جاری کردہ لیٹر نمبر SO(PM&1)2-1/23/F.78 میں کہا کہ صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد Accelerated Action Plan (AAP) for reduction of stunting & malnutrtion پروگرام کو بھی PPHI کے حوالے کردیا گیا ہے۔
لیٹر میں مزید کہا گیا کہ اس منصوبے کی سابقہ پروگرام کوارڈینٹرڈاکٹر صاحب جان بدر سمیت دیگر 63 سرکاری ملازمین بھی PPHI کو رپورٹ کریں اس منصوبے کا بجٹ 2.9بلین روپے بتایاگیا ہے، محکمہ صحت نے سندھ میں غذائی کمی سے پیدا ہونے غذائی قلت کے شکار بچوں کی اسکریننگ اور انکی غذائی کمی کو پورا کرنے کے منصوبے پر عمل کیا جارہا تھا۔
سندھ میں نومولود بچوں کی جان بچانے والے اس پروگرام کے تحت 8 لاکھ بچوں میں شدید غذائی کمی کا سروے بھی سامنے آیا ہے۔ سندھ میں یہ پروگرام 2017 میں شروع کیاگیا تھا اس منصوبے کے تحت سندھ کے بچوں کی غذائی قلت کا سروے کرنا ہے۔
پی پی ایچ آئی پرائیویٹ کمپنی جس کا سرکاری آڈٹ نہیں ہوتا، صدر نیوٹریشن یونین ونگ
حکومت سندھ کے اس اقدام کے خلاف AAP کے 63 سرکاری ملازمین نے 25 جولائی کو کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہرتال شروع کی تھی۔ ایکسپریس ٹربیون کے نمائندے کو نیوٹریشن یونین ونگ کے صدرحسین احمد میمن نے بتایا کہ سندھ حکومت نے سرکاری پروگرام کو ایک پراہیویٹ کمپنی کو ٹھیکے پر دے دیا ہے جس کا بجٹ 2.9 بلین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملازمین شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ دریں اثنا، ذرائع نے بتایا کہ پی پی ایچ آئی پرائیویٹ کمپنی جس کا سرکاری آڈٹ نہیں ہوتا، پی پی آئی ایچ 3rd پارٹی کے ذریعے اپنا آڈٹ کراتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ مزید 290 سرکاری ڈسپنسریاں بھی پی پی ایچ آئی کے حوالے سے کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
پی پی ایچ آئی کے ماتحت چلنے والے ابراہیم حیدری اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر طارق عباسی نے ایکسپریس کو بتایا کہ ابراہیم حیدری اسپتال کی انتظامی معاملات پی پی ایچ آئی کے پاس ہیں، محکمہ صحت اور پی پی ایچ آئی مل کر اسپتال چلا رہے ہیں، 36 بستروں پر مشتمل یہ اسپتال میں یومیہ 500 سے زائد مریض او پی ڈی میں آتے ہیں۔
8 روز گزرنے کے بعد حکام کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا
ایکسپریس کے نمائندے نے سرکاری اسپتالوں کو سکریٹری صحت پبلک پراؤیٹ کے تحت پیپلز پرائمری ہیلتھ اینیشٹو (PPHI) کو دیے جانے کے حوالے سے تفصیلات معلوم کرنے کے لیے واٹس اپ پر سوالات بھیجے گئے تھے جبکہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی ترجمان کو بھی واٹس اپ پر سوالات بھیجے لیکن 8 دن گزرنے کے بعد بھی جواب موصول نہیں ہوا۔
اسی طرح ایکسپریس نمائندے نے پی پی ایچ آئی کی کمیونیکشن آفیسر شفق سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا گیا جس پر شفق نے نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ ضلع ملیر سمیت اندورن سندھ کے 1340 صحت کے مراکز کے معاہدے کی تفصیلات آپ کو واٹس اپ کردی جائے گی۔ 8دن گزرنے کے بعد بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
''ابراہیم حیدری اسپتال میں دوبجے کے بعد کوئی سینئر ڈاکٹرموجود نہیں ہوتا''
دریں اثنا سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال آنے والی ایک مریض خمیسونے بتایا کہ اسپتال میں ادویات مریضوں کو فراہم نہیں کی جاتی جبکہ آپریشن کے لیے اسپتال میں ماہرین موجود نہیں،ایک اورمریضہ خاتون خیرالنسانے بتایا کہ اسپتال میں مریضوں کو داخل کرنے کی بجائے سول اسپتال یا جناح اسپتال بھیجا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابراہیم حیدری اسپتال میں دوبجے کے بعد کوئی سینئر ڈاکٹرموجود نہیں ہوتا تاہم ایمرجنسی میں طبی سہولت فراہم کی جاتی ہے،اسپتال میں اوارہ کتے سرعام گھومتے نظر آتے ہیں۔