کیا ہم سچ بول سکیں گے
موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے وقت سب سے اہم بات آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے
ایک عمومی رائے پاکستان کی سیاسی ، سماجی اور علمی و فکری مجالس میں پائی جا رہی ہے کہ ہم ایک بڑے بحران سے گزر رہے ہیں۔ ہر کوئی بحران کی اپنی اپنی تشریح کرکے حالات کی سنگینی کا احساس دلاتا ہے کہ معاملات کس قدر خراب ہو چکے ہیں اور انھیں کیسے سدھارنا ہے۔
موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے وقت سب سے اہم بات آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے مگر اس ساری بحث میں معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے امید کا پہلو کم اور مایوسی کا عنصر زیادہ غالب نظر آتا ہے ۔بحرانوں کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے اور ہر ایک ریاست اپنی اپنی سطح پر مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرتی ہے ۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ جب ہم ان چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں تو ان سے کس انداز میں یا کس حکمت عملی کے تحت نمٹتے ہیں۔
کیونکہ اگر مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی کمزور یا سمجھوتوں یا ذاتی مفادات کے تابع ہو تو ہم مسائل کا حل تو ایک طرف بلکہ پہلے سے موجود مسائل میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اسی معاملے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاملات کو حل کرتے وقت بگاڑ پیدا نہ ہو بلکہ حالات میں سدھار آئے اور بہتری کی جانب معاملات آگے بڑھیں۔
ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے روئیے کے باعث سیاسی تقسیم کی لکیریں معاشرتی محاذ سمیت ہر سطح پر اس قدر گہری ہوگئی ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے بڑے فاصلے پر نظر آتے ہیں ۔
معاملات کا جائزہ لیتے وقت ہر فریق کا سچ بھی اپنا اپنا ہوتا ہے اور اس سچ میں حقیقت کے مقابلے میں ذاتی پسند و ناپسند یا شخصی محبت یا اندھی تقلید غالب نظر آتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف سچ گم ہوجاتا ہے تو دوسری طرف اس سچ کی سیاست میں ہم نہ صر ف الجھ جاتے ہیں بلکہ تعلقات میں بھی خرابیاں پیدا کرتے ہیں ۔
جب ہم حالات کے بگڑنے کا رونا روتے ہیں توان حالات کی خرابی کا ملبہ بھی اپنے سیاسی مخالفین پر ڈال کر اصل کرداروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل رہے گا کہ ہم بطور حکومت یا سیاسی اشرافیہ کے طور پر اجتماعی سچ کب بولیں گے؟
ایک طرف سچ بولنے کا فقدان تو دوسری طرف جذباتیت ، چاپلوسی کا ایک ایسا کلچر غالب ہے جہاں لوگوں کو علمی و فکری بنیادوں پر گمراہ بھی کیا جاتا ہے ۔کچھ سچ کے نام پر گمراہی ہم لاشعوری طور پر پھیلاتے ہیں یعنی ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ جو بھی ہم بول رہے ہیں وہ سچ ہے یا نہیں، بس ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہی سچ ہے۔
لیکن اس سے زیادہ خطرناک عمل وہ ہے جہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی ہم بول رہے ہیں وہ سچ نہیں ہے بلکہ جھوٹ پر مبنی پہلو ہے ۔لیکن ہم بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ اس جھوٹ میں ہمارے ذاتی مفادات پنہاں ہوتے ہیں ۔
اس وقت جو ہمیں ریاستی محاذ پر سیاست ، جمہوریت ، آئین ، قانون، سمیت داخلی اور خارجی محاذ پر بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں ہم لوگوں سے مسلسل جھوٹ بول رہے یا سچ بولنے سے گریز کر رہے ہیں ۔ جو بھی ہم بظاہر سچ بولتے ہیں اس میں ہم خود کو کہیں جوابدہ نہیں بناتے اور نہ ہی خود پر کوئی الزام لینا چاہتے ہیں ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو ہمیں خود پر بہت زعم ہے یا ہم نرگسیت کا شکار ہیں یا ہم وہی کچھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں جو ریاست کے مقابلے میں ہمارے مفادات کو طاقت فراہم کرتا ہے ۔
ایک ایسی ریاست جو اس وقت سیاسی ، معاشی ، سیکیورٹی یا گورننس کے مسائل کا شکار ہے ان مسائل کے حل کا درست تجزیہ کرنے کے لیے ہم بطور ریاست کیونکر تیار نہیں ۔ کیوں یہ تجزیہ یا حقایق تسلیم کرنے سے گریز کیا جارہا ہے کہ اس بربادی یا ناکامی میں کون ذمے دار ہے ۔ایک طرف ہماری یہ حالت زار ہے تو دوسری ہمارا مجموعی ریاستی اور حکمرانی کا عمل یا نظام جذباتی بنیادوں پر بڑے بڑے سیاسی اور معاشی دعوؤں کی بنیاد پر '' شیخ چلی کے خواب '' دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔
خود تو ہم تبدیل نہیں ہونا چاہتے اور نہ داخلی معاملات میں موجود خرابیوں ہی کو ختم کرنا ہماری ترجیح میں شامل ہے ۔جب کہ اس کے برعکس ہماری ترقی کا ماڈل عالمی امداد یا برادر اسلامی ممالک سے ملنے والی امداد یا عالمی مالیاتی اداروں سے کیے جانے والے معاہدوں یا رقوم تک محدود ہے ۔
لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہمارا مستقبل شاندار ہے ، ہمارے پاس بے پناہ مقامی وسائل ہیں یا ہم مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا عالمی دنیا ہمارے ساتھ ہے یا ہم عالمی دنیا کی مجبوریاں ہیں یا ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔
جدید ریاستیں یا جو آج عالمی دنیا کے حالات ہیں اور جن کی بنیاد پر اپنی اپنی ریاستوں کو جدید یا لوگوں میں قابل قبول بنایا جاتا ہے وہاں محض جذباتی باتوں یا لفظوں کی گمراہی کی بنیاد پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوسکتا ۔ جب ہم خود کو خود مختارریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں تو سچے دل سے خود ہی پوچھ لیں کہ ہم خود میں انفرادی یا اجتماعی یا ریاستی یا حکومتی سطح پر کس حد تک خود مختار ریاست کے اصولوں پر پورا اترتے ہیں یا دنیا ہم کو کتنا خود مختار سمجھتی ہے ۔آج کل ایک بڑا سیاسی بیانیہ ہمارے اوپر معیشت کی بحالی یا معاشی خودمختاری سے جڑا ہوا ہے ۔
ہماری ترجیح اس وقت سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں معیشت کی بحالی یا ترقی ہے ۔ اس ترقی میں اگر سیاست اور جمہوریت کو قربان بھی کرنا پڑا تو ہم گریز نہیں کریں گے ۔یقیناً ہماری ترجیح معیشت کی ترقی ہونا چاہیے لیکن معیشت کی ترقی میں جو اس وقت پوری قوم سے جھوٹ بولا جارہا ہے اور جو حقایق چھپائے جارہے ہیں اس کا ذمے دار کون ہے ۔
کیوں نہیں بتایا جارہا کہ اس ملک کو وہ مضبوط اور طاقت ور سیاسی طبقہ کون ہے یا کون سے وہ حکمران ہیں جنہوں نے طاقت اور ذاتی مفادات کے نشے میں اس ملک کو لوٹا ہے یا ایسے معاہدے کیے ہیں جس کی بھاری قیمت آج ملک یا عام لوگوں کو دینی پڑرہی ہے یا وہ کون سے لوگ ہیں جو اس ملک میں ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے اور کیا وجہ ہے کہ ہمارا ریاستی نظام اس کرپٹ اور طاقت ور مافیا کے مقابلے میں کمزور ہے یا سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہے ۔
دنیا کی بڑی طاقتوں یا کسی بھی ملک کو گالی دینا ایک سیاسی فیشن ہی نہیں بن گیا بلکہ اس میں ہم لوگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ جو بھی حالات خراب ہیں اس کے ذمے دار ہم نہیں بلکہ عالمی طاقت ور ممالک یا حالات ہیں ۔یہ ایک آسان طریقہ ہوتا ہے جو یہاں کی بڑی طاقت ور سیاسی اشرافیہ لوگوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے ۔
اوپر سے لے کر نیچے تک ریاستی اداروں اور اس میں بیٹھے ہوئے افراد سے لے کر عام افراد تک سب نے ہی جھوٹ کو اپنا قومی ہتھیار بنالیا ہے ۔ سیاست، قانون، میڈیا ، تعلیم ، صحت، کاروبارسمیت کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں ہماری پالیسیوں یا عملدرآمد کے نظام میں جھوٹ کو بالادستی حاصل نہیں ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہوں یا سیاسی قیادت میں بیٹھے ہوئے اہل دانش سمیت دیگر رائے عامہ بنانے والے افراد وہی کچھ بولتے یا لکھتے ہیں جو طاقت ور طبقوں کے مفادات کے قریب ہوتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سمیت طاقت ور طبقہ جس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں اور اس پر ان کو جب بتایا جاتا ہے تو وہ بڑی ہی ڈھٹائی سے یا تو ماننے سے انکار کردیتے ہیں یا اسے اپنی حکمت عملی میں یوٹرن کا نام دے کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ اگر ہم نے بطور ریاست اپنے سیاسی ، قانونی ، انتظامی اور معاشی نظام کی ساکھ بنانی ہے اور خودکو لوگوں کے مفادات ہی کے تحت جوڑنا ہے تو اجتماعی طور پر ہم کو سچ بولنا ہوگا ۔ یہ ہی پہلی کنجی ہے آگے بڑھنے کے لیے اور یہ عمل اوپر سے لے کر نیچے تک ہونا چاہیے اور جب تک طاقت ور سیاسی افراد قوم کے سامنے سچ پورا نہیں رکھیں گے تو شواہد کی بنیاد پر ہمارے آگے بڑھنے کے امکانات مزید محدود ہونگے ، یہ سوچ تبدیل کرنا ہوگی ۔
جب تک ہم تلخ حقایق کو تسلیم نہیں کریں گے یا پورا سچ نہیں بولیں گے ہم کیسے مستقبل کی شفافیت کی بنیاد پر حکمت عملی کو ترتیب دے سکتے ہیں ۔ہمارا سچ ہمارے سامنے جہاں تلخ حقایق رکھے گا وہیں وہ ان ہی بنیادوں پر ہمیں درست سمت کے طور پر آگے بڑھنے کا راستہ بھی دے گا۔ لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنا بند کرنا ہوگا کیونکہ پہلے ہی ہمارا ریاستی نظام کافی حد تک لوگوں میں اپنی اہمیت کو کھورہا ہے ۔
لوگوں کو اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم سے مکمل سچ نہیں بولا جارہا اور مکمل سچ نہ بولنے کے پیچھے اصل مقصد طاقت ور سیاسی طبقہ کو بچانا یا ان کے مفادات کو تحفظ دینا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی نظام پر کئی سوالیہ نشانات ہیں اور ان کا جواب ہمیں اجتماعی طور پر سچ کی بنیاد پر تلاش کرنا ہوگا۔