یوم دفاع اور معاشی استحکام
اس دن ہم نے پوری دنیا کو بتا دیا تھا کہ پاکستانی قوم متحد ہے اور ہم ایک قوم ہیں
ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم نے 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر منایا۔ 6 ستمبر 1965 پاکستان کی دفاعی لحاظ سے تاریخ کا قابل فخر دن ہے۔ اس دن پاکستان کی تینوں مسلح افواج نے مل کر بھارتی جرنیلوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا۔
اس دن ہم نے پوری دنیا کو بتا دیا تھا کہ پاکستانی قوم متحد ہے اور ہم ایک قوم ہیں۔ 17 روزہ جنگ ستمبر جو کہ 6 ستمبر سے شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ نے پاکستانی قوم کو یہ سبق دیا کہ اتحاد یگانگت اور متحد ہو کر ہی جنگیں جیتی جاتی ہیں۔
اس جنگ کا آغاز بھارت نے کیا تھا اور اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ان میں ایک سبب معاشی پہلو بھی تھا، کیونکہ بھارت پاکستان کی معاشی ترقی کا راستہ روکنا چاہتا تھا۔ بعد کے حالات سے یہ ثابت بھی ہو گیا کہ جنگ ستمبر میں بھارت کو جس طرح پاکستان نے زبردست طریقے سے ہر محاذ پر شکست دی اس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے معاشی لحاظ سے اپنے پروگرام کا آغاز کیا۔
اس جنگ کے بعد بتدریج پاکستان میں صنعتی اور معاشی بے چینی پھیلنا شروع ہوگئی، مشرقی پاکستان کے باسیوں کو وہاں کے پاکستان مخالف عناصر نے یہ باور کرانا شروع کردیا کہ مغربی پاکستان ان کا معاشی استحصال کر رہا ہے۔
پاکستان نے معاشی لحاظ سے دوسرے پانچ سالہ منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جو معاشی کامیابیاں حاصل کی تھیں اور جس طرح دنیا حیران تھی اور بھارت تلملایا ہوا تھا کہ پاکستان اسی طرح معاشی ترقی حاصل کرتا رہا تو جلد ہی یہ ایک اکنامک ٹائیگر بن جائے گا۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں پہلے تین پانچ سالہ منصوبے یکے بعد دیگرے نافذالعمل رہے، لیکن سب سے زیادہ ثمر آور منصوبہ دوسرا پانچ سالہ منصوبہ تھا جس کے نتائج دیکھ کر کئی ممالک پاکستان کی جانب متوجہ ہوئے تھے اور اس ماڈل کو اپنانے کی کوشش کی تھی۔
پاکستان کا پہلا منصوبہ جولائی 1955 سے لے کر جون1960 تک کے لیے تھا جس میں کئی خامیاں بھی سامنے آئیں۔ اول ملک میں سیاسی عدم استحکام تھا، معاشی عدم استحکام تھا، اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا ایسا رجحان تھا جس کی وضاحت کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ افراط زر تو تھا لیکن دیمک کی چال والا افراط زر تھا، یعنی بہت کم پیمانے پر قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا۔
آج کل کی طرح نہیں کہ جسے گھوڑے کی چال والا افراط زر بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس قسم کے افراط زر کے بارے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ 15 سے 20 فی صد اضافہ تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس وقت جس قسم کا افراط زر کے عفریت نے معیشت اور عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کی رفتار اتنی تیز تر ہے کہ ہر شے کو اپنے احاطے میں لے لیا ہے لہٰذا اس قسم کے نئے پاکستانی طرز والے افراط زر کا نام ہو سکتا ہے کہ کوئی معیشت دان اسے ''راکٹ زدہ افراط زر'' کا نام دے دے۔
بہرحال دوسرے منصوبے کے آغاز سے قبل ہی ملک میں معاشی استحکام کے علاوہ سیاسی استحکام آ چکا تھا۔ دوسرے منصوبے کی ابتدا میں پہلے منصوبے کی تمام ناکامیوں کو مدنظر رکھا گیا۔ ان خامیوں کی اصلاح کرتے ہوئے کام کا آغاز کیا گیا۔
پاکستانی حکام نے اس منصوبے سے سبق حاصل کرتے ہوئے اگلے منصوبے کے لیے حقیقت پسندانہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ حکومت اور عوام نے مل کر اس پر کام کا آغاز کیا۔
پہلے منصوبے کے آغاز والے کئی سال سیاسی افراتفری، صنعتی بے چینی، عوام کا عدم اعتماد، اس قسم کے کئی عناصر کی نذر ہونے کے بعد ملک ایک نئی منزل کی جانب سفر کے لیے 1960 تا 1963 کا معاشی منصوبہ تیار تھا۔ دوسرے منصوبے کی کئی حکمت عملیاں تھیں جن سے ترقیاتی حکمت عملی کو اہمیت دی گئی جس کے لیے اہم ترین کردار نجی شعبے کو سونپا گیا۔
60 تا 65 منصوبے پیداوار میں اضافے کی حکمت عملی طے کرتے ہوئے امپورٹس کا متبادل، اشیائے صرف پیدا کرنے والی صنعتوں کا قیام ان کے لیے ہر طرح کی رعایات ملکی صنعتوں کو غیر ملکی ترقی یافتہ صنعتوں کے مقابلے میں تحفظ دینے کی خاطر درآمدی محصولات میں اضافہ ہوا۔ چند اہداف پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ خام قومی پیداوار میں اضافے کا ہدف 24 فیصد مقرر تھا لیکن 30.4 فیصد اضافہ ہوا۔
فی کس آمدنی میں 12 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن فی کس آمدن میں 14.8 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔ ملک میں غذائی اجناس کی پیداوار میں 21 فیصد سالانہ تک اضافہ کرنے کی حد مقرر کی گئی تھی جب کہ حقیقی اضافہ 27 فیصد سالانہ تک پہنچ گئی۔
اس منصوبے میں صنعتی شعبے کی کارکردگی سب سے بہتر اور نمایاں رہی یعنی پہلی مرتبہ بڑی صنعتوں کی ترقی میں 62 فیصد اضافہ ہوا اور گھریلو صنعتی ترقی میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ 60 تا 65 کے منصوبے میں بھی دیگر منصوبوں کی طرح کئی خامیاں بھی تھیں جسے تیسرے پانچ سالہ منصوبے میں مدنظر رکھا گیا اگر یہ تیسرا منصوبہ 65 تا 70 بھی کامیاب ہو جاتا تو ایسی صورت میں پاکستان جلد ہی ایشیا کا ترقی یافتہ ملک بن سکتا تھا، لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ 65 کے چند سال کے بعد ہی صنعتی نقشہ سیاسی نقشہ سب کچھ بدلنے لگا۔
جلد ہی ملک میں صنعتی بے چینی پھیلی، کہیں کہیں ملوں میں تالہ بندی کی نوبت آئی، بڑے پیمانے پر مشرقی پاکستان میں سیاسی بے چینی آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ملک سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی عدم استحکام کی جانب بڑھنے لگا اور پاکستان کو ترقی نہ کرنے دینے کے بھارتی عزائم پورے ہوگئے کہ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا رونما ہو گیا۔
اس کے بعد پاکستانی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے پاکستان نے دنیا کے بہت سے ملکوں کو اپنی افرادی قوت برآمد کی جس سے بتدریج ملک میں ترسیلات زر میں اضافہ ہوا اور کم از کم گزشتہ صدی تک تو پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام رہا، لیکن گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان معاشی و سیاسی مسائل میں دھنستا چلا جا رہا ہے جس کے شافی علاج کے لیے بعض حلقے کوشاں ہیں جس سے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔