نگراں حکومت اور قوم کی امیدیں

سیاسی لیڈر اپنی اولادوں کے مستقبل میں لگے ہوئے ہیں مگر یہ سلسلہ اب شاید طویل عرصے نہیں چل سکے گا


م ش خ September 10, 2023
[email protected]

قارئین گرامی! عوام مسائل کی گٹھڑی خود اپنے سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں، ماضی کے مسائل آنے والی نگران حکومت کو ورثے کے طور پر ملے اب 3 ماہ کے لیے آنے والی حکومت پچھلی 16 ماہ رہنے والی حکومت کے مسائل کو کیسے حل کر سکتی ہے؟

نگران حکومت کے آتے ہی کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی کیبلوں پر عوام نے شدید احتجاج کیا عوامی آواز کو دیکھتے ہوئے وہ سیاست دان بھی جو پی ڈی ایم کا حصہ بن کر حکومت میں شامل تھے وہ بھی بیانات دے رہے ہیں، غرض بجلی کے حوالے سے ایک کھیل تماشا جاری ہے ان سیاسی حضرات کو قوم کے لیے وقتی بیانات تو دینے یاد آتے ہیں جب کہ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں کہ جب حکومت کا حصہ تھے تو مسائل پر کیوں نہیں توجہ دی؟

جب اقتدار سے باہر آتے ہیں تو کچھ تو لندن اور کچھ دوسرے ممالک کا رخ کر لیتے ہیں پھر جب الیکشن کا زمانہ قریب ہو تو سر پٹ دوڑتے ہوئے ہانپتے کانپتے پاکستان کا رخ کرتے اور ان سے وابستہ لوگ قوم کو ان کی صحت کا ملال ہونے کی نوید دیتی ہے۔ آج بیشتر سیاسی حضرات بجلی کے بحران پر بیانات دے رہے ہیں یہ قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں یہ ان سیاسی لوگوں کی بھول ہے جس دن گلاس سے پانی باہر آگیا اس دن یہ ملک خوبصورت پاکستان بنے گا ابھی تو صرف پاکستان ہے۔

بجلی کے بحران پر آج کل سیاست ہو رہی ہے کہ پارٹیوں کے بڑے تو دیگر ممالک میں بیٹھے ہیں وفادار سیاسی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مذہبی جماعت کے امیر بھی بجلی کے حوالے سے بہت ناراض نظر آئے اور اس کے سسٹم پر تنقید کی ،یہ سب سیاسی دلاسے ہیں نگراں وفاقی حکومت پر تنقید نہ کریں وہ تو صرف الیکشن تک کے مہمان ہیں اس کے بعد وہ چلے جائیں گے اور پھر وہی لوگ آجائیں گے جو پہلے آتے رہے ہیں اور فلم ''مسائل جوں کے توں'' کی فلم چلتی رہے گی۔

نگراں حکومت کی چھوٹی سی کابینہ پورا پاکستان چلا رہی ہے۔ اب تو ہم جیسے مفلس اور غریب صحافی نگراں حکومت سے درخواست ہی کر سکتے ہیں کہ کچھ باتوں پر نگراں وزیر اعظم اور ان کے وزرا خصوصی توجہ دیں ۔نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی بہت سلجھے ہوئے طبیعت کے انسان ہیں۔ امید ہے کہ وہ ماضی کے جو لفاظی کرنے والے وزیر اطلاعات جو گزرے ہیں یا گزری ہیں ان کو اور ان کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ذمے دار صحافیوں کو اعتماد میں لیں آپ مسائل پر توجہ دیں تاکہ قوم آپ کو تاریخی طور پر یاد رکھیں۔

کچھ سیاسی حضرات نے اس ملک کی عوام کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا ہے قوم کی جان جوکھوں پر ہے اب تو دم نکلنے والی بات ہے ،دن رات لوگ ڈاکوؤں کے ہاتھ مارے جا رہے ہیں کچھ جگہ پر کیمرے موجود ہوتے ہیں ان کی شکلیں واضح نظر آتی ہیں پھر بھی ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آتی۔

نگراں حکومت میں پولیس میں کچھ افسران کراچی میں آئے ہیں امید ہے کہ وہ عوام کے لیے مثبت فیصلے کریں گے پچھلے دنوں ایک اینکر اور سینیٹر مشتاق احمد خان ٹی وی پر گفتگو کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ایک یونٹ 52 روپے، دوبارہ اس موضوع کی طرف آنا پڑا کہ بجلی کیوں اتنی مہنگی ہوتی جا رہی ہے کچھ حقائق قارئین آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو کچھ قارئین کو معلوم بھی ہوں گے کہ ڈاکٹر قدیر خان مرحوم کہتے رہے کہ میں 4 روپے یونٹ بجلی بنا کر دے سکتا ہوں پاکستان کو، مگر وہ دنیا سے چلے گئے اور ان کی بات پر کسی نے توجہ نہیں دی اب ثمر مبارک پاکستان کے بڑے سائنس دان ہیں ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے یوٹیوب پر برملا کہا کہ میں 6 روپے یونٹ بجلی آپ کو بنا کر دے سکتا ہوں، رب ان کو زندگی دے وہ حیات ہیں مگر کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا، اس کا مطلب ہے کہ سیاسی حضرات بجلی کے معاملے کو حل کرنا نہیں چاہتے، کہ نہ جانے کیا سیاسی معاملہ ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ ٹینڈر دے کوئی بزنس مین یہاں پر اگر بجلی کا لائسنس لینا چاہتا ہے تو حکومت سے رابطہ کرے، پرائیویٹ کمپنیاں رابطہ کریں گی مگر قوم کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ پرائیویٹ لوگوں کو موقع کیوں نہیں دیا جا رہا قوم اب ماضی سے لے کر آج تک اس سوچ بچار میں ہے جنھیں فیصلے کرنے ہیں ان کو ہر قسم کی سہولت ہے وہ مراعات یافتہ لوگ ہیں حکومت نے پٹرول کی قیمتیں بڑھا دیں یہ تو سوچتے کہ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور مزے کی بات دیکھیں کہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے کوئی پرسان حال نہیں، پرائس کنٹرول والے آپ کو کہیں نظر نہیں آتے۔

کچھ دن قبل ایران کے وزراء کا بیان آیا ہے کہ ہم پاکستان کو بجلی اور گیس، پٹرول دے سکتے ہیں نگراں حکومت کو چاہیے کہ وہ ایران سے رابطہ کریں کیونکہ نگران حکومت میں جو وزرا ہیں وہ سیاسی نہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات ہیں وہ بہت خلوص دل سے یقینا ملکی مسائل پر توجہ دیں گے۔

پاکستان میں بجلی کے یونٹ 52 روپے جب کہ دیگر ممالک میں افغانستان میں4 روپے افغانی، انڈیا میں 6 روپے، بنگلہ دیش میں 7 ٹکا تو پھر ہمارے ہاں کون سا الٰہ دین کا چراغ جل رہا ہے ہر جگہ مارا ماری ہو رہی ہے مجھے عوام سے کئی لوگوں نے کہا کہ کاکڑ صاحب نہ جانے کتنے دن کے لیے آئے ہیں وہ نگراں وزیر اعظم ہیں نہ جانے الیکشن کب ہو لہٰذا ان چند مہینوں میں آپ قوم کی تقدیر بدل دیں اگر آپ بھی کچھ نہ کر سکیں کیونکہ نگراں حکومت پر سیاسی دباؤ نہیں ہوتا، تو یہ قوم اسی طرح زندگی کے دن پورے کرتی رہے گی۔

دوائیاں خودساختہ مہنگی کر دی گئی ہیں، حکومت کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں ہے، بڑے اسٹورز جو پرچون کا سامان فروخت کرتے ہیں دالیں، آٹا، چینی، ڈبل روٹی اور دیگر کھانے پینے کی اشیا اس کے علاوہ ملبوسات کی دکانوں میں جائیں سامان خریدیں GST کاٹ لیتے ہیں، جب خریدار یہ کہتا ہے کہ میں ایف بی آر کا ممبر ہوں میرے نام سے رسید بنا دیں تو کہا جاتا ہے کہ سسٹم میں نہیں ہے، کیا ہو رہا ہے اس ملک میں، جو ٹیکس دے رہا ہے وہ ٹیکس کی رسید سے محروم ہے اور جو ٹیکس لے رہا ہے اس کا سسٹم کام نہیں کرتا، لوگ اس نظام سے بہت مایوس ہوتے جا رہے ہیں، یہ ملک پاکستان کے لیے اچھی بات نہیں۔

جو مراعات لے رہے ہیں وہ مزے کی زندگی گزار رہے ہیں جو مفلس اور غریب ٹیکس دے رہا ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں، پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں پی ڈی ایم میں موجود تھیں اور ان کی کارکردگی سے قوم بہت مایوس ہوئی اور اب سب مہنگائی کا ہار قوم کے گلے میں ڈال کر خود ملک چھوڑ کر چلے گئے، اس میں مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں، آج وہ سب خاموش ہیں۔

سیاسی لیڈر اپنی اولادوں کے مستقبل میں لگے ہوئے ہیں مگر یہ سلسلہ اب شاید طویل عرصے نہیں چل سکے گا کہ قوم باشعور ہو گئی ہے وہ مسائل کا حل چاہتی ہے ،قوم دعا کرے کہ نگراں حکومت بہت اچھے فیصلے کرے ، کیونکہ اس حکومت میں جو وزرا موجود ہیں وہ لوگ سیاسی نہیں ہیں چند ہوں تو کہا نہیں جا سکتا ،ویسے تجربہ کار حضرات ہیں شمشاد اختر کی مثال لیں انھوں نے پرویز مشرف مرحوم کے دور میں قوم اور ملک کے لیے بہت اچھے فیصلے کیے تھے۔ نگراں حکومت پٹرول، سبزی، گیس کے حوالے سے ایران سے ضرور مذاکرات کرے تاکہ قوم سکون کا سانس لے سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں