اب دیکھو بھارتی چیف جسٹس کیا کرتے ہیں
عدالت کا رجحان انصاف پسندی پر مبنی لگتا ہے کیونکہ اس نے مودی کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے
جموں کشمیر ایک بین الاقوامی متنازع خطہ ہے۔ اقوام متحدہ نے بھارت کو کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کا پابند کر رکھا ہے مگر بھارتی حکمران ہر قیمت پر جموں کشمیر پر اپنی حکمرانی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
نہرو کے زمانے میں اس ریاست کو اس کے متنازع ہونے کی وجہ سے ایک خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔ یہ بھارت سے باہر ایک ایسی ریاست تھی جس کی اپنی پارلیمنٹ اپنا جھنڈا اور اپنا عدالتی نظام تھا۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت اسے ریاست کے امور چلانے کے لیے ریاستی قوانین کو نافذ کرنے کا اختیار تھا اور اپنے معاملات میں دہلی سے کسی قسم کی ہدایت لینے کی ضرورت نہیں تھی مگر یہاں کے کچھ بھارت نواز رہنماؤں کی وجہ سے یہاں بھارت نواز حکومتیں قائم ہوئیں۔
یہ رہنما بھارت کے کشمیر پر دروغ گوئی پر مبنی موقف کے حامی تھے جب کہ وہ پاکستان کے حق و انصاف اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مبنی موقف کے خلاف تھے۔ ان غیر قانونی حکومتوں کی وجہ سے بھارت کو جموں کشمیر میں مداخلت کا موقع ملتا رہا۔
یہ دہلی حکومت کی ایما پر چلنے والی حکومتیں یہاں چلنے والی آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر کشمیریوں پر ظلم وجبر ڈھاتی رہیں تاہم کشمیری، کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بھارتی جبر کے باوجود اپنی جدوجہد آزادی کو پروان چڑھاتے رہے۔
5 اگست 2019 تک بھارتی حکومت کو یہاں بھارتیوں کو آباد کرنے کی قطعی اجازت نہیں تھی مگر مودی سرکار نے بھارتی آئین کی دھجیاں بکھیر کر اس کی دفعہ 370 ختم کرنے کے بعد اس ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ہے، اب یہاں غیرکشمیریوں کو دھڑا دھڑ آباد کیا جا رہا ہے اور ریاست کے پرانے قوانین کو ختم کر دیا گیا ہے، غیر کشمیریوں کو یہاں آباد کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ریاست کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے تاکہ اگر کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہاں رائے شماری کرانا پڑے تو ہندوؤں کی اکثریت بھارت کے حق میں ووٹ دے اور اس طرح ریاست پر بھارت کا قبضہ پکا ہو جائے۔
مودی نے ریاست کو اپنے کنٹرول میں لے کر بھارت کا نیا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے جس میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ظاہر کیا گیا ہے بلکہ پورے جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے علاقوں کو بھی بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس شرانگیز حرکت کی وجہ سے پاکستان نے بھارت سے اپنے تعلقات توڑ لیے ہیں۔
دراصل مودی نے جموں کشمیر کی متنازع ریاست کے ساتھ جو کھلواڑکیا ہے وہ سراسر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے مگر افسوس کہ نہ تو عالمی طاقتوں نے اس کا کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی سوئی ہوئی اقوام متحدہ جاگی ہے اس صورت حال میں کشمیری ریاست میں سخت فوجی پہرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جب مودی نے ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کی تو حریت پسند جماعتوں نے تو اس کی مخالفت کی ہی تھی ساتھ ہی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے بھی شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا کیونکہ اس سے بھارت نوازوں کو سخت دھچکا پہنچا تھا اب انھیں ریاست میں جو پہلے سہولیات اور آزادی حاصل تھی وہ ختم ہو کر رہ گئی تھی چنانچہ دیگر کشمیریوں کے علاوہ انھوں نے بھی بھارتی سپریم کورٹ میں مودی کے غیر قانونی اقدام کے خلاف درخواستیں دائرکی تھیں۔
ان درخواستوں کو اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کوئی اہمیت نہیں دی اس کے بعد آنے والے چیف جسٹس بھی اس سے لاتعلق رہے کیونکہ وہ تمام مودی کے منظور نظر تھے اور وہ مودی کے خلاف فیصلہ کرکے اپنی نوکریوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے، اب چند ماہ قبل ایک چندرچور نامی چیف جسٹس نے بھارتی سپریم کورٹ کا چارج سنبھالا ہے انھوں نے بڑی ہمت دکھائی ہے۔
انھوں نے بھارتی آئین کی دفعہ 270 کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا مستقل حصہ بنانے کے مودی کے 5 اگست 2019 کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دینے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کی اصل حیثیت بحال کرنے کی استدعا پر مبنی تقریباً دو درجن درخواستوں کی سماعت کے لیے ایک پانچ رکنی بینچ قائم کیا ہے جس نے کارروائی شروع کردی ہے عدالتی کارروائی میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ عدالت نے مودی سرکار سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے ٹائم فریم اور لائحہ عمل سے متعلق معلومات طلب کرلی ہیں۔
ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مودی حکومت کو ہمارے سامنے بیان دینا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر بھارتی یونین کا حصہ نہیں بنایا جائے گا اور مودی کا 15 اگست 2019 کا غیر آئینی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف اقدام عارضی بنیاد پر محدود مدت کے لیے ہے۔ عدالت کا رجحان انصاف پسندی پر مبنی لگتا ہے کیونکہ اس نے مودی کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ مقبوضہ ریاست میں مودی کے اقدام سے امن و امان قائم ہو گیا ہے۔ یہ معاملہ اس لیے بھی زیادہ سنگین ہو گیا ہے کہ مودی سرکار نے بھارتی آئین کی دفعہ 370 ہٹانے کے لیے ریاستی اسمبلی سے اجازت حاصل نہیں کی تھی۔
مودی کی اس من مانی پر راہول گاندھی اور بھارتی حزب اختلاف کے دیگر رہنماؤں کے علاوہ فاروق عبداللہ بھی ناراض ہیں۔ شروع میں فاروق عبداللہ ریاست سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے خلاف مودی حکومت کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے مگر جب سے ان کی مودی سے ملاقات ہوئی ہے انھوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ لگتا ہے انھوں نے مک مکا کر لیا ہے اور یہ بات کوئی بعید از قیاس بھی نہیں ہے۔ واضح ہو کہ انھوں نے بھارت کا وفادار بن کر ریاست میں لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
لگتا ہے ان کا منہ بند کرنے کے لیے مودی نے بھی ضرور کوئی بڑی آفر دی ہوگی۔ اس وقت محبوبہ مفتی ضرور مودی کے خلاف بیانات دے رہی ہیں مگر مودی اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا ہے ۔ اس وقت مودی دفعہ 370 کو بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چور کی جانب سے پھر سے بحال کرنے کے خوف سے پریشان ہے۔
شاید اسی لیے اس نے اس معاملے کو لیت و لعل میں ڈالنے کے لیے گلگت بلتستان کے حالات خراب کرا دیے ہیں اور اس پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ تاہم اس وقت تمام کشمیریوں کی نظریں بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر ٹکی ہوئی ہیں کہ وہ ریاست میں دفعہ 370 کی بحالی سے متعلق ان درخواستوں پر کیا فیصلہ دیتے ہیں۔