آنے والے دن
معاملات کیسے اس حد تک بگڑے اور کیوں کر بگڑے مگر اب سوال یہ ہے کہ ان بگڑے معاملات کو کیسے قابو میں لایا جائے
آنے والا ہفتہ پاکستان کے لیے بہت ہی اہم ہے وہ اس لیے کہ عدلیہ کے اہم عہدوں پر تبدیلی آنے والی ہے ۔یہ شاید پہلی مرتبہ ہوگا کہ کوئی بلوچستانی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے جارہا ہے، یہ کوئی تسلسل نہیں بلکہ تبدیلی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار اور ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان عمران خان کی favour میں تھے یا پھر یوں کہیے کہ اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی پالیسی کے قریب تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی سوچ وفکر کی وجہ سے تنہا رہ گئے۔یہ بازگشت جوڈیشل کونسل تک جا پہنچی ۔ صدرپاکستان عارف علوی بھی اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل کررہے ہیں۔
جن لوگوں اور بااثر طبقے نے ملک کوان بحرانوںمیں دھکیلا، ان میں ہمارے نظام انصاف کے کل پرزے بھی بری ا لذمہ نہیں ہیں۔پاکستانی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو نظام انصاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی کھڑا پا یا،مگر اب حالات بہت بگڑ چکے ہیں۔ سیاسی بحران نے معاشی بحران کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔
ایسا گمان ہے کہ آیندہ چھ ماہ تک یہ نگراں حکومت رہے گی ۔ نو مئی کے بعد ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف بڑے مضبوط نظر آئے وہ اب مزید مضبوط نظر آئیں گے۔ پی ٹی آئی اور ریٹائرڈ فوجی و سول افسروں اور ان کی فیملیز نے جو منفی مہم شروع کی تھی، وہ بھی اب ختم ہو جائے گی۔ عام انتخا بات بھی مارچ 2024 سے پہلے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
آئین کے تناظر میں سپریم کورٹ اس بات کو کس طرح دیکھتی ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہماری ہمارے الیکٹیبلز ہر دور حکومت میں خوب مال کمایا ۔ یہ طبقہ ہر سیاسی جماعت میں جڑیں رکھتا ہے۔جب نواز شریف کی حکومت آتی ہے تو یہ لوگ ان کی پارٹی میں آجاتے ہیں اور جب پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے تو وہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اقتدار ملا تو اس میں شامل ہوگئے، ماضی میں بھی ہمیشہ جمہوریت کے خلاف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے رہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج ہماری حکومت ایک جمہوری حکومت ہے لیکن کیا پیپلز پارٹی نے کبھی اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ان کی حکومت میں بیٹھی وہ اشرافیہ جنھوں نے اپنے حلقوں میں اپنی بادشاہتیں بنائی ہوئی ہیں اور ان کی یہ بادشاہتیں بری حکمرانی پر چلتی ہیں۔
سندھ میں تو یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے مگر حالات پورے پاکستان میں ایسے ہی ہیں اور پاکستان کے بڑے شہروں مثال کے طور پر کراچی ، لاہور یا اسلام آباد میں گماشتہ بیوپاری اور سرمایہ دار بھی کالا دھندہ کرتے ہیں۔ کوئی چینی اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرتا ہے اور کوئی ڈالر کو چھپانے کا کاروبار کرتا ہے۔زمینیں ہتھیانے سے لے کر اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہیں۔یہ سب لوگ سیاستدانوں کو کمیشن پہنچاتے ہیں ، بیورو کریسی کو اور با اختیار لو گوں کو بھی، یہ ہے ہماری معیشت!
اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ان تمام اسٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔اس سنگین بحران کی فہرست میں سب سے پہلے ہے افراطِ زر کو قابو پانا اور اس کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مضبوط کریک ڈائون کی ضرورت ہے تاکہ ان لوگوں تک رسائی کی جائے جو مارکیٹ سے چیزیں غائب کر دیتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کے کاروبار میں ملوث ہیں۔
دوسرا ہمارا کام ہے ٹیکس چوروں کو ٹیکس کے نیٹ میں لانا۔ سیلز ٹیکس کی خوردبرد کو کنٹرول میں لانا۔ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جلد سے جلد انتخابات کا ہونا بھی ایک اہم عمل ہے اس بحران کو قابو میں لانے کے لیے۔پچھلے دو سالوں میں سپریم کورٹ نے جو سیاسی فیصلے کیے ان فیصلوں نے اس بحران کو ہوا دی مگر اب ایسا ہونا ممکن نہیں۔
ہم اس بات پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں کہ معاملات کیسے اس حد تک بگڑے اور کیوں کر بگڑے مگر اب سوال یہ ہے کہ ان بگڑے معاملات کو کیسے قابو میں لایا جائے۔اس بحران پر قابو پانے کے لیے سیاست دانوں کی بے جا مداخلت کو بند کرنا ہوگا اور اس کے لیے قانون کو حرکت میں آنا ہوگا ۔تمام محب وطن لوگوں کو آگے بڑھنا ہوگا اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اس ملک کو بحران سے نکالنا ہوگا۔