گٹروں کے غلیظ پانی میں ڈوبا شہر کراچی

بڑا مسئلہ کراچی کے شہریوں کے لیے شہر کے کھلے ہوئے مین ہولز اور نالے ہیں جو موت کے کنوئیں بنے ہوئے ہیں


Muhammad Saeed Arain September 11, 2023
[email protected]

یوں تو ملک کو سب سے زیادہ ٹیکسز مہیا کرنے والے شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں کھلے ہوئے گٹروں اور سیوریج کے گندے پانی میں زیر آب سڑکوں اور رہائشی علاقوں کی خبریں اور تصاویر میڈیا میں روزانہ ہی آ رہی ہیں مگر سوشل میڈیا پر کراچی کے کسی علاقے کی سڑک کی فوٹیج دکھائی گئی ہے۔

جس میں سڑک سیوریج کے گندے پانی سے مکمل زیر آب ہے اور سڑک کے دونوں کناروں تک پانی ہے اور قریب ہی کسی گرلز اسکول کی طالبات کو گزرنے کے لیے خشک جگہ بھی میسر نہیں اور وہ پائنچے اوپر کر کے گندے پانی میں سے گزر کر اسکول جا رہی ہیں جس سے ان کی اسکول یونیفارم بھی خراب ہو رہی ہے۔

کراچی میں گٹروں سے ابلتے گندے پانی سے یہ امتیاز ہی ختم ہوگیا ہے کہ شہر بھر میں روزانہ ہی زیر آب رہنے والے علاقے اور مصروف سڑکیں پوش علاقوں کی ہیں یا عام علاقوں کی کیونکہ کراچی میں جہاں جاؤ وہاں گٹر ابلتے ہوئے اور سڑکوں اور اندرونی راستوں کا گندے پانی میں زیر آب رہنا معمول بنا ہوا ہے اور شہر بھر میں گٹروں کے ڈھکن کھلے ہوئے یا ٹوٹے ہوئے ہیں۔

گٹروں پر ڈھکن کھلے ہوں یا ان پر ٹوٹے ہوئے ڈھکن ہوں سیوریج کا پانی رواں نہ ہونے پر ابل کر سڑکوں پر آ جاتا ہے اور دور دور تک پھیل کر راہگیروں کے لیے آمد و رفت مشکل بلکہ ناممکن بنا دیتا ہے جہاں سے گاڑیوں والے تو گندے پانی کے چھینٹے اڑاتے گزر ہی جاتے ہیں مگر موٹرسائیکل سوار بھی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کپڑے بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر راہگیروں کی مجبوری ہے کہ اگر انھیں آگے جانا ہے تو زیر آب راستوں سے ہی انھیں گزرنا پڑتا ہے جس سے ان کے کپڑے اور جوتے خراب ہوتے ہیں مگر وہاں سے گزرنے والے نمازیوں کے کپڑے ضرور ناپاک ہو جاتے ہیں اور بعض نمازی مجبوری میں مساجد تک نہیں پہنچ پاتے اور انھیں نماز ادا کیے بغیر گھر لوٹنا پڑتا ہے تاکہ ان کے کپڑے گندے پانی سے ناپاک نہ ہوں۔

سڑکیں زیر آب رہنے سے بڑا مسئلہ کراچی کے شہریوں کے لیے شہر کے کھلے ہوئے مین ہولز اور نالے ہیں جو موت کے کنوئیں بنے ہوئے ہیں اور مسلسل جانی نقصان کا سبب بن رہے ہیں جو بارشوں کے علاوہ عام دنوں میں بھی جانی نقصان پہنچا رہے ہیں مگر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے افسروں، بلدیاتی اداروں اور سندھ حکومت کو کوئی فکر نہیں کیونکہ کسی بڑے افسر یا سرکاری افسر کی فیملی یا کوئی بچہ ان کھلے مین ہولز اور نالوں میں ڈوب کر نہیں مرا نہ ان کی گاڑی کا پہیہ کھلے گٹر میں گر کر پھنسا ہے کہ انھیں اس اہم اور جان لیوا کھلے گٹروں اور نالوں کے ذریعے جانی نقصان اٹھانے والوں کا کوئی احساس ہو۔

سرکاری افسران اور امیرکاروبار طبقہ اور حکومتی عہدیدار کراچی کے پوش علاقوں میں رہتے ہیں جہاں گٹروں اور نالوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، اس لیے پوش علاقوں میں بارش کے دنوں میں بھی گٹروں اور نالوں پر توجہ دی جاتی ہے۔اس لیے وہاں حادثات نہیں ہوتے نہ کوئی بچہ کھلے مین ہول میں گرا ہے۔

حال ہی میں میمن گوٹھ ضلع ملیر میں ایک ڈھائی سالہ بچہ نعمان 14 اگست کو یوم آزادی مناتا ہوا قریبی کھلے گٹر میں گر گیا جس کی اطلاع اس کے گھر والوں کو آدھے گھنٹے بعد ملی جب تک یوم آزادی کے ہرے سفید کپڑے پہنے معصوم بچہ جان بحق ہو چکا تھا اور بچے کی لاش اہل محلہ نے خود نکالی۔

لاش نکالے جانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور محلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کھلے گٹر کی اطلاع کئی بار انتظامیہ سے کی گئی تھی جس کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگی۔ ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد نے بچے کے گھر جا کر تعزیت کر لی اور یہ کہہ کر اپنی ذمے داری پوری کر لی کہ ذمے داروں کے خلاف کارروائی ہوگی جو ہوتی نظر نہیں آئی۔

کراچی کے شہریوں کی یہ عام شکایت ہے کہ بارشوں کا موسم ہے اور نالے اور گٹر کھلے پڑے ہیں۔ ایم کیو ایم نے بھی بچے کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار اور کھلے گٹر، نالے اور گڑھے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

چند روز قبل ایک تقریب میں ڈپٹی میئر کراچی نے کہا تھا کہ بعض عناصر ہمیں ناکام بنانے کے لیے نکاسی آب کا نظام جان بوجھ کر خراب کر رہے ہیں جس کا ثبوت نالوں اور گٹروں کی صفائی کے دوران برآمد ہونے والی اشیا ہیں۔ یہ الزام پہلے بھی لگتے رہے ہیں مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ گٹر اور نالے ڈھکے کیوں نہیں جاتے کہ ان میں ایسی اشیا پھینکی ہی نہ جا سکیں تاکہ پانی کی روانی متاثر نہ ہو۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ شہر میں فراہمی و نکاسی آب کا ذمے دار سندھ حکومت کا ماتحت ادارہ ہے جسے بلدیہ عظمیٰ کے ماتحت ہونا چاہیے مگر کمائی اور ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے یہ بورڈ محکمہ بلدیات کے کنٹرول میں ہے اور اب اس کے کچھ اختیارات سندھ حکومت نے پی پی کے میئر کو دیے ہیں جو ناکافی ہیں۔

سٹی حکومت میں ٹاؤن کیا یوسیز بھی بااختیار تھیں اور کھلے گٹروں پر فوری ڈھکن لگوا دیتی تھیں اور سٹی حکومت نالوں کی صفائی کرا دیتی تھی مگر اب یوسیز مالی طور بے بس اور بے اختیار ہیں جن کے ذمے صفائی ہے نہ گٹروں پر ڈھکن لگانا ان کی ذمے داری ہے جس کی وجہ سے کھلے گٹر اور نالے موت کے کنوئیں بنے ہوئے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں