معیشت کی سیاسی جنگ
معاشی ترقی کی مثبت بحالی کا عمل سازگار ماحول کے ساتھ جڑا ہوتا ہے
معیشت کی مضبوطی یا خراب معیشت کی بحالی بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہے۔
ہماری قومی سیکیورٹی پالیسی میں بھی یہ نقطہ کافی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم نے مستقبل میں معیشت کی ترقی اور علاقائی یا عالمی تعلقات میں معیشت کو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکمت عملی کو وضع کرنا ہے ۔اسی تناظر میں ہم نے دو لفظوں پر زور دیا جن میں جیواسٹرٹیجک اور جیو معیشت شامل تھے۔
اس نقطہ کی بنیاد یہ ہی تھی کہ ہم اب جنگوں یا تنازعات کی سیاست کا حصہ بننے کے بجائے معیشت کی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے یعنی ہماری سیاست ، جمہوریت، سفارت کاری یا ڈپلومیسی سمیت علاقائی تعلقات میں معاشی ترقی کو بنیادی نقطہ بنایا جائے گا۔
معاشی ترقی کی مثبت بحالی کا عمل سازگار ماحول کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایسا ماحول جہاں کاروبار اور معیشت کا بول بالا ہو اور داخلی یا خارجی سرمایہ کاری کی بنیاد پر صنعتی ترقی کا پہیہ چل رہا ہو۔
عمومی طور پر ایک بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ معیشت کی ترقی کا براہ راست تعلق ایک بڑے سیاسی اور جمہوری استحکام سے جڑا ہوتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست اور معیشت کو الگ الگ خانوں میں یا سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
معیشت اور سیاست کو دیکھیں تو اس میں معاشی بنیادوں پر فیصلہ کرنے یا اس کے اچھے یا برے کو پرکھنے کے بجائے ہم معیشت پر بھی سیاست یا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی اسکورنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا بڑے بڑے کاروباری افراد کے پاس ہمارے معاشی مسائل کا حل موجود ہے ۔ یہ ہی وہ کاروباری افراد ہیں جو ماضی میں بھی معاشی مسائل اور اس کے حل پر بات کرتے رہے ہیں ۔ لیکن کیا یہ ہی لوگ یا ان کے بڑے بڑے کاروباری ادارے خود کو معاشی ڈھانچوں میں جو اصلاحات ہمیں درکار ہیں۔
اس پر تیار ہیں ، ٹیکس نیٹ میں آنے اور اپنے کاروباری معاملات کی ڈاکومینٹیشن کے لیے تیار ہیں اور خود کو معاشی اصلاحات میں قانون کی حکمرانی میں بھی تیار ہونگے ۔کیونکہ جب بھی ہم نے معاشی تناظر میں اسٹرکچرل اصلاحات کرنے کی کوشش کی تو ہمیں ان ہی بااثر افراد جو کاروباری دنیا کے بڑے نام ہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے یا سیاسی حکومتیں اپنے اور ان کے سیاسی مفادات کی بنیاد پر سیاسی سمجھوتوں کی بنیادپر ہی کھڑی نظر آتی ہیں ۔
اصل بحران معیشت کی بحالی میں عوام سمیت جتنے بھی فریقین ہیں ان میں اعتماد سازی کے ماحو ل کو پیدا کرنا ہے۔ معیشت کی بحالی کی یہ جنگ محض معیشت کی اصلاحات تک محدود نہیں بلکہ اس کی بہتری کے لیے ہمیں ادارہ جاتی محاذ پر بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں اور اصلاحاتی عمل کو بنیاد بنا کر کڑوے اور سخت گیر فیصلے کرنے ہونگے ۔
ایف بی آر، عدالتی نظام ، پولیس اور ادارہ جاتی سطح پر غیر معمولی اصلاحات کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ اس طرح یہ تھیوری کہ کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کے بغیر ہم معیشت کا علاج تلاش کرسکتے ہیں، غلط ہوگا۔ہم جتنی مرضی اصلاحات کرلیں لیکن معیشت سے جڑے کرپٹ افراد کو قانونی شکنجے میں لاکر ہی اس مرض کا علاج ممکن ہوگا۔
ہمیں معیشت کی بحالی پر بے شمار کمیشن، کمیٹیاں، ٹاسک فورس بنانے کا شوق ہے لیکن ان کے عملدرآمد کے نظام میں موجود خرابیوں کے احاطہ کو یقینی بنانا اور درست نتائج کے حصول کو ممکن بنانا ہماری ترجیحات کا کم حصہ ہوتا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کا بڑا انحصار عالمی ممالک کی امداد، عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی رقوم ، برادر اسلامی ممالک کی معاشی مدد سے جڑا ہوا ہے ۔لیکن ہم خود داخلی محاذ پر جو اپنی معیشت کا بیڑہ غرق کررہے ہیں یا جو داخلی خرابیاں ہیں۔
ان کو دور کرنے کے بجائے ان میں مزید مسائل پیدا کیے جارہے ہیں ان کا علاج کیسے ممکن بنایا جاسکے گا۔بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ اور پذیرائی جب کہ داخلی سرمایہ کاروں کے لیے مختلف نوعیت کی مشکلات کو پیدا کرکے ہم کیسے داخلی سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ہماری سیاسی اور جمہوری منتخب حکومتیں اس معیشت کی بحالی کی جنگ میں خود سیاسی لیڈ لیتے ہوئے نظر آئیں اور اس تاثر کی نفی کریں کہ وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
اس وقت نگران حکومت ہے اور اس کے پاس محدود مینڈیٹ ہوتا ہے اور ان کی ساکھ منتخب حکومت کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتی ہے ۔ اس لیے ہمیں بلاوجہ نگران حکومتوں پر بھروسہ کرنے یا ان کو لمبی مدت تک برقرار رکھنے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ انتخابات ہوں اور نئی منتخب حکومت اس معاشی مسائل کی قیادت کرے۔
انتخابات سے گریز کی پالیسی مزید سیاسی مسائل کو پیدا کرے گی اور اس کا اثر قومی معیشت پر منفی صورت میں ہوگا۔یہ سوال بھی ہم ہے کہ کیا ہمارا حکومتی نظام اس حد تک مضبوط ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو جو معیشت کی تباہی میں حصہ دار ہیں کو قانون کے شکنجے میں لاسکے گا۔معیشت کی بحالی کسی ایک فریق کے بس کی بات نہیں ۔ اس لیے جب میثاق معیشت کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد قومی اتفاق رائے اور تمام فریقین کی باہمی مشاورت کے ساتھ حکمت عملی ہو۔
اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی ، کرپشن کو روکنا ، منی چینجر کے خلاف کارروائی ، بجلی چوری کو روکنا ، ڈالر کو جمع رکھنا جیسے اقدامات اہمیت رکھتے ہیں ، لیکن یہ معیشت کی مضبوطی کی جنگ نہیں اور نہ ہی ان کی بنیاد پر معاشی جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ بنیادی مسئلہ گورننس اور اداروں کی مینجمنٹ کا ہے اور جب تک ہم مجموعی طور پر اداروں کی فعالیت ، شفافیت ، جوابدہی اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی نہیں کریں گے ہمارے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔
کیونکہ عارضی اقدامات کو جب تک مستقل پالیسی کا حصہ نہیں بنایا جائے گا ہماری مجموعی معیشت کو بہتری نہیں مل سکے گی۔کیونکہ ہمارا ادارہ جاتی نظام یہاں تو جدیدیت کی بنیاد پر کام کرنے صلاحیتوں سے محروم ہے یا ان میں بدعنوانی سے جڑے معاملات بہت آگے تک چلے گئے ہیں جو ان اداروں کی شفافیت میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔
اس وقت خطہ کی سیاست میں نئے معاشی امکانات ابھر رہے ہیں ایک طرف سی پیک کے منصوبے ہیں تو دوسری طرف بھار ت نے جی 20کانفرنس کے بعد خطہ میں نئے امکانات کو وسیع پیمانے پرپید ا کیا ہے ۔
ایسے میں جب ہمیںعلاقائی تعلقات کو مضبوط بنا کر معیشت سے جڑے نئے امکانات میں اپنے لیے بہتر معاشی ترقی کے مواقع تلاش کرنے ہیں تو ہم اپنے داخلی سیاسی مسائل میں الجھ کر خود کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے سے جوڑ کر داخلی سیاست سمیت معاشی مفادات کو بھی نقصان پہنچارہے ہیں ۔