نگران حکومت کا مینڈیٹ
اگر نگران حکومت محدودآئینی مدت میں معاشی محاذ پر پیش رفت نہ کرے تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا
نگران حکومت جس کا واحد مینڈیٹ مقررہ آئینی مدت میں انتخابات کرانے کے بعد رخصت ہوجانا ہوتا ہے لیکن ہماری نگران حکومت کو انتخابات کرانے کی ذمے داری کے ساتھ ساتھ ورثے میں معاشی مسائل بھی مل گئے ہیں ۔ اگر نگران حکومت محدودآئینی مدت میں معاشی محاذ پر پیش رفت نہ کرے تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے جہاں پر عوام کے سینوں میں آگ لگا رکھی ہے، وہیں مہنگی چینی نے عوام کے منہ کی مٹھاس بھی چھین لی بلکہ اس میں کڑواہٹ پیدا کر دی ہے۔
روز بروز بگڑتے معاشی حالات میں بہتری کے لیے نگران حکومت نے فوج کی نگرانی میں ان جماندرو مسائل کو جڑ سے پکڑنے کا آغاز کیا ہے ۔ پہلے مرحلے میں بجلی چوروں ، ذخیرہ اندوزوںاور غیر ملکی کرنسی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر ہنگامی اقدامات کیے جارہے ہیں جن کے فوری نتائج عوام کے سامنے آئے ہیں۔
روپے کے مقابلے میںڈالرکی قدر روز بروز گر رہی ہے جب کہ بجلی چوروں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری ہے۔ شنید یہ ہے کہ کرپشن کے بڑے بڑے کیسوں پر بھی کارروائی کا آغاز ہونے جارہا ہے، اگر بڑے لوگوں پرگرفت ہونا شروع ہو گئی اور کوئی نرمی نہ برتی گئی تو عوام کی کسی حد تک اشک شوئی ہو جائے گی کہ چلو! اشرافیہ اور امراء بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑے نظر آئیں گے۔
نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کے مستحسن فیصلے کو عوامی سطح پرپذیرائی مل رہی ہے۔ حکومت کے ان اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقتدر حلقوں کو عوامی بے چینی کا احساس اور شعور ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ کرپشن کے خلاف یہ عملی اقدامات کیا شکل اختیار کرتے ہیں۔
آیا ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے یا ماضی کی طرح مخالفین کو احتساب کے شکنجے میں جکڑ کر احتساب کے عمل کو مشکوک بنادیا جاتا ہے ۔
پاکستان کے باشعور عوام میں یہ رائے پختہ ہو چکی ہے کہ ملکی قرضوں کی اصل جڑکرپشن کا مرض ہے جو ان قرضوں کو ہڑپ کرجاتا ہے جس کی وجہ سے ان قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ اس قدر سنگین اور وسیع ہو چکا ہے کہ بات دیوالیہ پن تک پہنچ گئی ہے۔
کرپشن کے خلاف فوج کی نگرانی میں نگران حکومت کے اقدامات کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا جارہاہے اور ان اقدامات کے مثبت نتائج کا عوام انتظار کر رہے ہیں کیونکہ ہم مسلسل یہ دیکھتے آئے ہیں کہ احتساب کا شور تو بہت ہوتا ہے لیکن حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا سوائے سیاسی انجیئرنگ کے جس میں ان کرپٹ لوگوں کو ان کی کرپشن کے ثبوت دکھا کر ماضی میں ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔
ابھی یہ بات صرف اطلاعات تک ہی محدود ہے کہ بڑے لوگوں کو بھی احتساب کے کٹہرے میں لایا جارہا ہے۔ ہماری تاریخ احتساب کے معاملے میں کچھ زیادہ شاندار نہیں ہے ۔ حکومتوں کے پاس ان نام نہاد بڑے لوگوں کی کرپشن کے ثبوت موجود ہوتے ہیں ،بات نیک نیتی پر آکر ٹھہر جاتی ہے لیکن حکمران عوام سے مخلص ہو تو ان فول پروف ثبوتوں کو کارروائی کی بنیاد بنا کر بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اور تیز رفتار نتائج نکل سکتے ہیں۔
اندریں حالات اب کرپشن کے کیسوں کی بڑے پیمانے پرپوچھ گچھ میں زیادہ مشکلات حائل نہیں ہونی چاہئیں اور اس ضمن میں کارروائی بلا تفریق ہونی چاہیے اور بالائی طبقات کے کسی بھی حصے کو بلاوجہ کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔
ہمارے نگرانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ قوم ٹھوس اور تعمیری نتائج کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے اور انھیں مطمئن کرنے کے لیے ان اقدامات کے نتائج سامنے آنا چاہئیں جو ان کی معاشی مشکلات کو کم کرسکیں ۔
پاکستانی قوم کے لیے اس قدر اصلاحی پیش رفت کر لینا ہر گز مشکل نہیں ،ضرورت صرف اہلیت اور دیانت سے بہتر حالات کار فراہم کرنے کی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ موجودہ نگران حکومت اپنی مختصر مدت میںاس قدر خدمت انجام نہ دے سکے جس کوانتظامیہ اور فوج کا بھر پور تعاون بھی حاصل ہے۔
کرپشن کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ نگران وزیر اعظم یہ بھی مسلسل دہرا رہے ہیں کہ ان کا نگران حکومت کو طول دینے کا کوئی ارداہ نہیں ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ انتخابات کب ہونے ہیں اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرے گا۔جب کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ مردم شماری کے نتائج مکمل ہوتے ہی عام انتخابات کے لیے ووٹر لسٹوں اور دیگر ضمنی کاروائیوں کا آغاز کر دے گا۔
اس مرحلے کی تکمیل کے ساتھ ہی قومی سطح کے صاف شفاف انتخابات کے ساتھ ساتھ کرپٹ بدنام ، آزمودہ اور ناکارہ عناصر سے گلو خاصی کی تدابیر بھی کی جانی چاہئیں تا کہ عوام جو قیادت منتخب کریں وہ ماضی کی قیادتوں سے بہتر ہولیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا بروقت اعلان کر دے کیونکہ انتخابات ہی ملکی سالمیت اور بقاء کی ضمانت ہیں ،انتخابات میں تاخیر سے ہم خدانخواستہ کوئی نقصان نہ کربیٹھیں۔