شاہ لطیف ہر عہد کا بے مثال شاعر آخری حصہ

شاہ لطیف کے کلام میں سندھ کی سات سورما خواتین کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے


Zahida Hina September 13, 2023
[email protected]

شاہ لطیف کے کلام میں سندھ کی سات سورما خواتین کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ جن کے نام مارئی ، مومل، سسی، نوری، سوہنی، لیلا، سورٹھ ہیں۔ مارئی کا کردار دھرتی اور روایات کے ساتھ محبت اور جڑے رہنے کی عکاسی کرتا ہے۔

مارئی نے سخت گیر بادشاہ عمر یا امر کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اپنے انکار سے تاریخ رقم کر دی۔ مومل رانو داستان میں مومل راٹھور راجھستان جیسل میر میں ایک شہزادی کا کردار ہے جو رانو کی پرجوش محبت اور عشق میں سب کچھ تیاگ دیتی ہے۔

جدائی، ہجر اور غلط فہمی کے جذبات کو مومل رانو کی کہانی میں مومل کی زبانی شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ایسے پیش کیا کہ وہ ایک لازوال سندھی کردار بن گئی۔ سسی پنوں کی کہانی میں سسی کا کردار ایک ایسی با ہمت اور مستقل مزاج لڑکی کا ہے جو اپنے محبوب کو ڈھونڈنے کے لیے نکلتی ہے۔

نوری ایک مچھیرن ہے جو بادشاہ تماچی پر اپنی محبت کا جادو کر دیتی ہے، یہ کہانی سندھی لوک روایات میں محبت کی ترجمان بن چکی ہے۔

سوہنی اپنے محبوب (مہر) سے ملنے کے لیے گھڑے کی مدد سے تیر کر دریائے سندھ کے دوسرے کنارے جاتی ہے اور ایک دن دریا کی تیز تغیانیوں میں بہہ کر محبت میں زندگی ہار جاتی ہے۔ سوہنی مہر سے ملتی جلتی لوک داستان سوہنی مہینوال کی بھی ہے جو ایک پنجابی لوک داستان ہے۔

لیلا چنیسر کی لوک کہانی 14ویں صدی میں ٹھٹھہ، سندھ میں سومرو خان کی حکمرانی کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کہانی سندھی اور فارسی میں مختلف روایتوں کے ساتھ درج ہے۔

لیلا ایک قیمتی ہار کھونے کے جرم میں مصائب اور تکالیف کے دور سے گذر کر دوبارہ اپنا مقام اور حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔ سورٹھ رائے دیاچ کی کہانی جوناگڑھ کے بادشاہ رائے دیاچ اور اس کی بیوی اور ملکہ سورٹھ کی محبت کی کہانی ہے جس میں سورٹھ اپنے شوہر کی محبت میں اپنی جان دے دیتی ہے۔ یہ کہانی شاہ جو رسالو کے سر سورٹھ میں موجود ہے جو کتاب کے تیس سروں میں سے ایک ہے۔

شاہ کی شہزادیاں دین دھرم کی اور طبقات کی قیدی نہیں، وہ عشق کی اسیر ہیں۔ یہ تن بدن کا نہیں وطن کا عشق ہے ۔ یہ شہزادیاں ہجر و فراق کے دشت و جبل سے گزرتی ہیں اور محبوب کو پانے کی تمنا انھیں کڑے کوسوں سے گزار دیتی ہے۔

یہ دراصل زندگی کی جہد کی جانب اشارہ ہے۔ شاہ کے سُر سسی کو پڑھیے تو اس کے ہر لفظ سے اضطراب کی آنچ آتی ہے۔ '' اب کیا شہر بھنبھور میں رہنا، ویراں ہے شہر بھنبھور، سارے شہر بھنبھور میں میرا کوئی نہیں غمخوار'' جیسے مصرعے لہو میں بھنور ڈالتے ہیں۔ اس میں سسی کا شاہ نے اپنے پانچ سروں میں احاطہ کیا ہے۔

یہ وہی ہے جو تپتے ہوئے صحرا میں اپنے محبوب کی تلاش کرتی ہے اور کن کن مصائب سے نہیں گزرتی۔ وہ ہمیں سُر حسینی میں نظر آتی ہے، جو چٹانوں اور پہاڑوں سے ٹکراتی ہے۔ سُر معذوری ، سُر دیسی میں ہمیں اس کی شخصیت کے مختلف پہلو نظر آتے ہیں۔

جبر سے آزادی اور خواہشِ پرواز ہمیں شاہ کے اشعار میں سانس لیتے ہوئے پرندوں میں نظر آتی ہے۔ پرواز جو آزادی کا نقطۂ عروج ہے۔

جو آگے بڑھ گئے جاں دے چکے ہیں کئی سر آچکے ہیں زیر خنجر

جو پیچھے رہ گئے ہیں بڑھ رہے ہیں کہ ان کو بھی شہادت ہو میسر

نہ اس منزل کو تم آساں سمجھنا بڑھے آگے تو سر ہوگا زمیں پر

یہ ہے وہ میکدہ بہتا ہے جس میں لہو بھی بادۂ گل رنگ بن کر

یہ پرندے اپنے پنکھ پھیلائیں تو آسمان میں تارا بن جاتے ہیں اور اپنی زمین کا عشق ان کے پر سمیٹے تو شاہانہ انداز رکھنے والے وہ ہنس ہوجاتے ہیں جو برف پوش پہاڑوںسے نکلنے والی خنک جھیلوں میں رہتے ہیں اور یہ خنکی انھیں اپنا ٹھکانہ بدلنے پر مجبور نہیں کرتی۔ شاہ نے ان کی زمیں گیری کو کس دلکش انداز میں بیان کیا ہے! کہتے ہیں کہ یہ ہنس برفانی جھیلوں میں اپنی چونچ ڈبوتے ہیں اور موتی چنتے ہیں۔

جھیل سوکھ جائے تَب بھی اس کا عشق انھیں کسی اور طرف کا رخ کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ وہ سوکھی ہوئی جھیل کی تہہ سے کنکر چن کر کھاتے ہیں اور بھوک انھیں کھانے لگتی ہے۔ اور پھر سوکھی ہوئی جھیل کے کنارے ہنس کے سوکھے ہوئے پنجر رہ جاتے ہیں۔ اپنی زمین سے عشق کی یہ وہ ادا ہے جس کا اشارہ ہمیں شاہ کے کلام میں بار بار ملتا ہے۔

شاہ کے لیے مسلمان ہندو اور بودھوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ وہ قوم پرست تھے اور ان کی یہ قوم پرستی ان کے کلام کی ہر سطر میں جھلکتی ہے۔ وطن اور قوم کے لحاظ سے سندھ میں بسنے والوں کے درمیان وہ مذہب اور ذات پات کے فرق کے قائل نہ تھے۔

تب ہی وہ ہمیں سُرمارئی میں کہتے سنائی دیتے ہیں '' اچھے برے جیسے ہیں، اپنے پھر اپنے ہیں! '' ان کے اس نقطہ نظر کو سائیں سید نے بہت صراحت سے بیان کیا ہے '' پیغام لطیف '' میں وہ کہتے ہیں کہ :

'' شاہ صاحب کے دور میں ہر چند کہ کلھوڑوں جیسے متعصب مذہبی حکمرانوں کی حکومت تھی اور اس کے علاوہ اورنگ زیبی افکارِ سیاست کا دور جاری تھا، لیکن شاہ صاحب کو نہ اورنگ زیبی انداز فکر نے متاثر کیا نہ وہ اکبری نظریہ سیاست کے زیادہ زیر اثر تھے۔ اس کے بجائے وہ سندھی قوم پرستانہ سیاست سے متاثر تھے۔

انھوں نے وطن کی محبت کو عین اسلامی احکام کے مطابق ایمان کا جزو سمجھتے ہوئے سندھ سے محبت کی۔ '' پین اسلام ازم'' کا تصور ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ انھوں نے بین الاقوامیت یا عالمگیریت کو مذہبی عالمگیریت سے مختلف بلکہ متضاد جانا۔ ان کے پورے مجموعہ کلام میں کسی ایک جگہ بھی '' اسلامی ملک'' یا '' مسلمان قوم'' کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ ان کا سارا کلام سندھ کی محبت، آزادی، ترقی اور خود مختاری کے جذبات کا ترجمان ہے۔''

میرے خیال میں جس طرح شاہ کے کلام کی تفسیر سائیں جی ایم سید نے کی ہے، وہ اس لیے نادر ہے کہ وہ شاہ کی شاعری کو آج کی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

انھوں نے '' شاہ جو رسالو '' کے اشعار کو موجودہ حالات کے تناظر میں رکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ شاہ کے زمانے میں جدید سیاسی نظام موجود نہ تھا لیکن جس طرح لکڑی میں آگ ہمیشہ موجود رہتی ہے اور اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب اس کے جلائے جانے کے اسباب پیدا ہوں، اسی طرح اس وقت بھی سندھ میں آج کی طرح کا وہ طبقاتی نظام موجود تھا جس میں مفلس، نادار اور بے گھر و بے آسرا لوگ سانس لیتے تھے۔ اور اس روز کے منتظر تھے جب انقلاب برپا ہو اور ان کی زندگی کے صبح وشام بدل جائیں۔

سائیں سید نے '' پیغام لطیف '' میں کہا ہے کہ اگر ہم شاہ کی شاعری کا جائزہ جدید اصطلاحات کی روشنی میں لیں تو ہمیں اس میں نیشنل ازم کی حمایت، جمہوریت کی طرف داری، سوشل ازم کی طرف جھکاؤ' سرمایہ داری سے نفرت' آمریت اور فاش ازم کی مخالفت نظر آتی ہے۔

شاہ بھٹائی کے شارع ایچ ٹی سورلے لکھتے ہیں کہ ''مغل ہندوستان میں فارسی شاعری کی بالادستی چاہتے تھے اور اس کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ اس دور میں شعرا فارسی شاعری کے اصولوں اور اس زبان کے بڑے شاعروں کے موضوعات کو اپناتے تھے۔''

یہ مغلوں کا وہ دور تھا جب دربار کی زبان فارسی تھی اور بادشاہ ہندوستان کی مقامی زبانوں کو حقیر سمجھتے تھے کیونکہ یہ ان کی رعایا کی زبانیں تھیں۔

شاعروں کے لیے دربار تک رسائی بھی صرف فارسی شاعری کے ذریعے ممکن تھی۔ شاہ لطیف کو فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی لیکن انھوں نے اپنی دھرتی، اپنے لوگوں اور اپنی زبان میں شاعری کی اور یہ ثابت کیا کہ عظیم شاعری سرکار اور دربار کی مرہون منت نہیں ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں