جنگ تو جیتنی پڑے گی

پاکستان کے مقتدر طبقے کا ایک غالب گروہ پاکستانی عوام کے مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے


Latif Chaudhry September 14, 2023
[email protected]

چترال کے سرحدی علاقے میں ٹی ٹی پی کے حالیہ حملے سے ایک بار پھر یہ سچ عیاں ہوا ہے، افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔

افغانستان کے جس علاقے سے پاکستانی چترال میں حملہ کیا گیاہے' ماضی میں یہاں سے کبھی اتنی بڑی کارروائی نہیں ہوئی۔ ٹی ٹی پی اس حملے کی ذمے داری قبول کرچکی ہے ۔ افغانستان کی عبوری حکومت نے اس سرحدی دہشت گردی پر جو موقف دیا ہے، وہ حکمت و دانش کا خزینہ ہے۔ فرمایا گیا ''یہ حملہ ہماری اجازت سے نہیں ہوا۔''

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دل نہیں مانتا کہ افغانستان کے طالبان حکمران اتنے سادہ ہیں کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ جدید اسلحہ لے کر پاکستان کی سرحد کراس کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے ہیں۔ تھوڑے دن جاتے ہیں جب ہمارے میڈیا میں یہ خبر شایع ہوئی کہ طالبان کے رہبر ملا ہیبت اللہ نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنا خلاف اسلام ہے۔

ملا ہیبت اللہ نے اس قسم کا کوئی فتویٰ یا فرمان جاری کیا ہے' اس کی باقاعدہ سند کسی کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان میں ایسے''بلٹ ان'' دانشوروں' باخبر صحافیوں' اینکرز اور تجزیہ نگار وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو وائٹ ہاؤس اور پینٹا گون کے بند کمروں میں ہونے والی سازشوں کا بھی ٹیلی پیتھی کے ذریعے پتہ لگا لیتے ہیں۔ یہ لوگ آج بھی افغان طالبان کو پاکستان کا ہمدرد قرار دیتے ہیں' ٹی ٹی پی کے بارے میں بھی ان کی گفتگو یا دلائل چونکہ چنانچے کی گردان پر مبنی ہوتے ہیں۔

افغانستان میں پچھلے 40برس سے جو کچھ ہو رہا ہے' اس کے بارے میں چارلی ولسن کی کتاب میں بھی بہت کچھ موجود ہے اور ہمارے ہاں بھی اس کے بارے میں خاصی آگاہی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک کا ایک طاقتور طبقہ اپنے گروہی مفادات کے لیے آج بھی افغانستان کے طالبان سے ہمدردی رکھتا ہے۔

پاکستان کے مقتدر طبقے کا ایک غالب گروہ پاکستانی عوام کے مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے اس گروہ کو عزت شہرت' مال و دولت اور قومی شناخت دی لیکن اس گروہ نے اس چوہے کا کردار ادا کیا' جس نے اپنے محسن پرندے کے پر کاٹ کھائے تھے۔

انداز اپنا آئینے میں دیکھتے ہیں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے' آج دہشت گردی کا ملبہ بھارت پر ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے امریکی سازش قراردیا جا سکتا ہے کیونکہ حقائق اس قدر ننگے ہو گئے ہیں کہ انھیں چھپایا نہیں جا سکتا۔

آج ہر باشعور پاکستانی اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے، یہ لوگ کس ملک میں آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں'اپنے تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں'جدید ترین اسلحہ چلانے کی تربیت لے رہے ہیں اورجدید اسلحہ کے انبار لگا رہے ہیں'ان کا ہدف پاکستان کے سوا کوئی اور ملک نہیں ہے' اب ان حقائق کو جھٹلانا ممکن نہیں رہا ہے۔

پاک فوج نے 2014 سے2018 کے دورانیے میںسابقہ فاٹا اور پاٹا ریجن میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کیے تھے۔ان آپریشنز نے ٹی ٹی پی اور القاعدہ کی باقیات کو سخت نقصان پہنچایا تھا، ادھر امریکی ڈرون حملوںمیں ان متشدد گروپوں کی قیادت ماری جا رہی تھی' پاکستان میں ان کا تنظیمی ڈھانچہ بکھر گیا تھا، ٹی ٹی ٹی اور اس کے ذیلی گروپ کے لوگ افغانستان فرار ہوگئے۔

جہاں وہ افغان طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں محفوظ زندگی گزارتے رہے تاہم اشرف غنی حکومت نے افغان طالبان کے علاوہ ٹی ٹی پی کے سیکڑوں جنگجوؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا تھا۔ اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کی اسٹیبلشمنٹ ان مطلوب لوگوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی بلکہ وہ پاکستان کو مطلوب گرفتار لوگوں کو سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہی۔

امریکا اور نیٹو ممالک حامد کرزئی' اشرف غنی' عبداللہ عبداللہ اور رشید دوستم کے بڑھتے ہوئے مالی مطالبات سے تنگ تھے کیونکہ افغانستان کا یہ مقتدر گروپ بھاری مالی فوائد تو حاصل کر رہا تھا لیکن کارکردگی کے اعتبار سے صفر سے اوپر نہیں گیا تھا۔

کرپشن عروج پر تھی اور درپردہ وارلارڈز کے ساتھ روابط بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ براہ راست سودے بازی کا فیصلہ کیا۔ اشرف غنی' عبداللہ عبداللہ اور دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز کی مخالفت کے باوجود فروری2020میں افغان طالبان اورامریکا کے درمیان دوحا میں امن معاہدے پر دستخط ہو گئے۔

اس کے ساتھ ہی افغانستان میں اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کی قیادت میں برسراقتدار اسٹیبلشمنٹ کی مقتدر پوزیشن کمزور ہوگئی جب کہ افغان طالبان ایک دہشت گرد گروپ سے نکل کر افغانستان کے اقتدارکے طاقتور اسٹیک ہولڈر بن گئے، ان ہی ایام میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی زیر زمین قیادت بھی منظر عام پر آنے لگی اور ٹی ٹی پی کا تنظیمی ڈھانچہ اور تربیتی کیمپ دوبارہ متحرک ہونا شروع ہوگئے ' جولائی2020میں پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے 10مسلح گروپ ٹی ٹی پی میں ضم ہو چکے تھے۔

ان میں القاعدہ سے منسلک تین گروپ اور ٹی ٹی پی سے الگ ہو جانے والے چار گروپ شامل تھے۔ ان گروپوں کے انضمام کے بعد ٹی ٹی پی کی پاکستان کے اندر پر تشدد کارروائیاں بتدریج بڑھنے لگیں۔ اگست 2021 میں افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا، افغانستان کی نیشنل آرمی نے ابتدا میں مزاحمت کی لیکن دوحا معاہدے کے بعد افغان نیشنل آرمی کے جنرلز کا مورال ڈاؤن ہو گیا کیونکہ انھیں پتہ چل گیا تھا کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ امریکا کی حمایت کھو بیٹھے ہیں۔

افغان نیشنل آرمی کے کئی افسر ملک سے فرار ہو گئے اور باقی افسروں اور جوانوں نے چپ چاپ سرنڈر کردیا، یوں افغان طالبان نے بغیر کسی جنگ کے کابل پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول لینے کے دوران ہی جیلوں میں بند ٹی ٹی ٹی کے تقریباً سات آٹھ ہزارلوگوں کو رہا کردیا تھا، یوں ٹی ٹی پی کی عسکری قوت میں اضافہ ہوگیا اور اس کی پاکستان کے اندر کارروائیوں کی لہر مزید تیز ہو گئی۔

حقائق یہی بتاتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے افغان طالبان اور القاعدہ اور نائن الیون کے بعد القاعدہ کی بائی پراڈکٹ اسلامک اسٹیٹ خراسان کے ساتھ گہرے تعلقات استوار ہیں۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان کی قیادت کو اپنا کہتی ہے' دونوں کے نظریات اور مفادات ایک ہیں' پہلے یہ تعلقات خفیہ( Covered) تھے لیکن اب ظاہر ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان کے جہادی گروپوں اور پاکستان میں موجود انتہا پسندوں کے باہمی مفادات کے ورکنگ ریلیشن کی جڑیں خاصی پرانی اور گہری ہیں۔ا سمگلنگ ' منشیات کا کاروبار ایسے گروہوں کی لائف لائن ہے۔

دنیا کے پیشہ ور کریمینلز گینگز اور بلیک اکانومیز کے بااثر وائٹ کالر اسٹیک ہولڈرز اور دہشت گرد گروپ اپنے اپنے مالی مفادات کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ پاکستان کے وہ اسٹیک ہولڈرز جو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں' ان کا کام آسان ہر گز نہیں ہے'یہ کھلی جنگ کے مقابلے میں مشکل لڑائی ہے لیکن پاکستان کے عوام کے مفادات اور ریاست کی بقا کے لیے یہ مشکل لڑائی ہر صورت میں جیتنی پڑے گی۔ چاہے اپنے جسم کے زخموں کی سرجری ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں