ہوشربا مہنگائی اور بلکتے عوام
عام آدمی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرے چھا رہے ہیں۔ پاکستان پہلے کبھی بھی اس صورتحال سے دوچار نہیں ہوا
مہنگائی کا دیو،عفریت بن کر پاکستانی عوام کے سکھ چین اور مستقبل کے اچھے خوابوں کو نگلتا جا رہا ہے۔پاکستان مافیاز کی جنت بن چکا ہے۔ ہر شعبے میں مافیا کا راج ہے۔
اگر ان مافیاز کو گننے لگیں تو شاید کبھی بھی مکمل فہرست تیار نہ ہو سکے۔یہاں پراپرٹی ڈیلروں کا قبضہ ہے اور ان کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ ان کی مرضی کے بغیر منتخب نہیں ہو سکتی۔ یہاں قبضہ مافیا اور ڈرگ مافیا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں پر ان کا قبضہ ہے۔
یہ مافیا ہمارے نو نہالوں کو نشے کی لت لگا کرتباہی سے دوچار کر رہا ہے۔پرائیویٹ بینک اس ملک میں مافیا بن چکے ہیں۔ ان کے چند کرتا دھرتا آپس میں ساز باز کر کے اور کرنسی ڈیلروں کو ساتھ ملا کر وہ کرنسی ریٹ مقرر کرتے ہیں جس کا مارکیٹ Sentimentسے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسا کر کے وہ اربوں کما لیتے ہیں اور ڈالر کو غیر ضروری اڑان بخشتے ہیں۔
اسمگلر کھل کر کھیل رہے ہیں۔بجلی چور،گیس چور،نقلی دودھ،نقلی گھی،غیر معیاری پٹرول بیچنے والے دندناتے پھر رہے ہیں۔ہر دفعہ کریک ڈاؤن کا اعلان ہوتا ہے۔چند دن گرم گرم خبریں چھپتی ہیں اور پھر وہی پرانی ڈگر۔کہیں کسی بھی جگہ Structuredگفتگو ممکن نہیں۔
صرف چند افراد چینی کے بھاؤ،اس کی در آمد و برآمد کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور پورے ملک کو چینی کے بحران میں دھکیل دیتے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کے گریبان تک کسی کا ہاتھ نہیں جاتا۔ڈاکوؤں اور شرپسندوں کے خلاف آپریشن ہوتے ہیں،چند دن خبریں بنتی ہیں اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔دراصل گورننس کا ایشو ہے۔ حکومت اور انتظامیہ نااہل اور Indifferentہے۔ گورننس کا ایشو ہر آنے والے دن کے ساتھ گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتا جاتا ہے۔
پاکستان کی معیشت شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔عوام سخت نالاں ہیں لیکن مؤثر احتجاج ناپید ہے۔مؤثر اس لیے نہیں کیونکہ مایوسی کے اندھیرے بہت گہرے ہو چلے ہیں۔ہمارے ہاں ستر کی دہائی کے آخر تک احتجاج کی روایت بہت مضبوط تھی۔لیبر یونینز کے رہنماء سارے ملک میں پہچانے جاتے تھے۔
واپڈا کی لیبر یونین بہت فعال تھی۔یہی حال ریلوے،پوسٹل اور چند دوسری یونینز کا تھا۔اسٹوڈنٹ یونینز تو جیسے ہر قومی مسئلے پر قوم کی آواز بن جاتی تھیں۔جناب جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی یونین سے ہی اُٹھ کر قومی سطح پر نمودار ہوئے۔
وکلا کی تنظیمیں قومی مسائل پر لیڈرشپ مہیا کرتی تھیں۔جب اسٹوڈنٹ یونینز،لیبر یونینیز اور وکلا تنظیمیں سڑکوں پر آ جاتی تھیں تو حکومت کو ان کے مطالبات کو سننا اور حل کرنا پڑتا تھا۔صدر ضیاء الحق کے دور میں احتجاج کرنے والوں پر اتنا ظلم ہوا کہ لوگ سہم گئے۔
اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے بہیمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ ڈاکٹر نذیر احمد اور خواجہ رفیق کا قتل ایسے ہی غیر انسانی مظالم کی ایک داستان ہے۔بھٹو صاحب کی پالیسیوں اور اقدامات کے ہمنوا بننے سے انکار کرنے والوں کو دالائی کیمپ کی سیر کروانا تو عام سی بات تھی۔
شاہی قلعے لاہور کے زیرِ زمین زندانوں میں جو ظلم روا رکھا گیا اس کے بیان سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔جنرل ضیاء الحق نے لوگوں کی ننگی پیٹھوں پر یوں سفاکانہ کوڑے برسائے کہ مخالفین کی روحیں تک کانپ اُٹھیں۔ایوب خان کے دور میں شوگر کی قیمت میں صرف دو آنے فی کلو اضافہ ہوا تو عوام سراپا احتجاج بن گئے اور ہنگامے پھوٹ پڑے لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق نے لوگوں کو مار مار کر اور اذیتیں دے دے کے احتجاج کی توانا روایت کا گلا دبا دیا۔
اس کے بعد احتجاج روٹھ گیا اور حکومتیں من مانی کرنے لگیں۔ احتجاج اور جلسے جلوس کی روایت یوں بھی دم توڑ گئی کیونکہ احتجاج کی کال دینے والوں نے عوام کو بار بار دھوکہ دیا۔
اب احتجاج اس لیے بھی نہیں ہوتا کیونکہ لوگ مستقبل سے مایوس اور مزاحمتی سیاست سے بد دل ہو چکے ہیں۔احتجاج کرنا اور مزاحمت کرنا دل گردے کا کام ہے۔ہر وقت گرفتاری سامنے ہوتی ہے۔مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔مہذب معاشروں میں احتجاج کرنے والے کی عزت و توقیر ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اب سارا واویلا سوشل میڈیا پر ہوتا ہے۔جو افراد سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سرگرم ہوتے ہیں وہ کبھی گھر سے نہیں نکلتے۔
احتجاج کرنا ہمارے ہاں پولیس کے بے رحم ہاتھوں مشقِ ستم بننے کے مترادف ہوتا ہے اور ایسے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مشقِ ستم بننے سے خوف کھاتے ہیں۔اگر آپ دہاڑی دار ہیں یا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں تو ضمانت کے لیے وکیل مہیا کرنا آپ کے بس سے باہر ہوتا ہے۔مہنگائی کے اس دور میں اگر آپ کما کر نہیں لائیں گے تو آپ کے بچے کھائیں گے کہاں سے۔ ریڑھی والا اپنا کام چھوڑ کر مظاہرہ کرنے نکلے گا تو صرف چند ہی دنوں میں گھر میں فاقے اتر آئیں گے۔
عوام کے جذبات سے کھیلنے والوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ سڑکوں پر نکلنے والے، ماریں کھانے والوں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں پر کیا گزر رہی ہے۔ان کا کیا حال ہے اور ان کے بیوی بچوں و بوڑھے بیمار والدین پر کیا گزر رہی ہے۔ ان کو تو اپنی بڑھتی مقبولیت سے غرض ہوتی ہے۔
پاکستان کے عوام ان دنوں بجلی کے ہوشربا بلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن احتجاج رنگ نہیں لا رہا۔احتجاج کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں۔تمام سیاسی پارٹیاں یہ صورتحال پیدا کرنے کی مجرم ہیں اس لیے احتجاج میں شامل نہیں ہیں۔
جماعتِ اسلامی کال تو دیتی ہے لیکن اس کی موجودہ قیادت میں کوئی سحر انگیز شخصیت نہیں۔ زبردست شٹر ڈاؤن ہڑتال سے بھی یہ جماعت کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکی۔دراصل ماضی قریب میں بجلی کی قلت پوری کرنے کے لیے بجلی بنانے والی IPPsکے ساتھ ایسے غلط اور نقصان دہ معاہدے کیے گئے جنہوں نے پاکستان کا خون کر دیا۔کوئی بھی محبِ وطن پاکستانی ایسے معاہدے کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔
ایسے نقصان دہ معاہدے تو جنگ میں شکست کے بعد بھی کوئی قبول نہیں کرتا۔ 1994میں پیپلز پارٹی نے بجلی کے پیداواری یونٹس لگانے کی اجازت دی تو ان کا Return of Equity یعنی منافع 17فیصد رکھا گیا۔اتنا زیادہ منافع تو اسمگلنگ میں بھی نہیں ہوتا۔
عوام پیپلز پارٹی کے ساتھ محبت کرتے رہے اور پی پی پی پاکستانی عوام کو مہنگی ترین بجلی کا شکار بنا گئی۔ان معاہدوں میں کہا گیا کہ ان کمپنیوں کو ڈالر میں ادائیگی ہوگی اور جتنی ان کی پیداواری صلاحیت ہے اتنی ادائیگی ہوگی چاہے ان سے پوری بجلی خریدی جائے یا نہ جائے۔ان IPPsکے مالکان پاکستانی ہیں لیکن پاکستانی عوام سے دشمنی برت رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماہانہ بیس یا تیس ہزار روپیہ کمانے والا،پندرہ یا بیس ہزار کا بل کیسے ادا کرے۔ملک میں روزگار بند ہو رہے ہیں۔جاب مارکیٹ سکڑ رہی ہے۔
عام آدمی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرے چھا رہے ہیں۔ پاکستان پہلے کبھی بھی اس صورتحال سے دوچار نہیں ہوا۔ ادھرافغانستان ،پاکستان کو چاٹ رہا ہے۔افغانستان کو آٹا،چینی،چاول اور دوسری زرعی اجناس پاکستان سے اسمگل ہو کر جاتی ہیں جس سے پاکستان کے اندر ان اجناس کی قلت پیدا ہوتی ہے اور قلت کی وجہ سے قیمتیں بڑھتی ہیں۔پاکستان سے ڈالر بھی اسمگل ہو کر افغانستان جا رہا ہے اور اتنی بڑی مقدار میں جا رہا ہے کہ پاکستان میں ڈالر کا بحران جنم لے چکا ہے۔
قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں لیکن مخلص اور قابل قیادت ہو تو بھنور بھی کنارہ بن جاتا ہے۔بدقسمتی سے فی الحال ایسی قیادت میسر نہیں اور عوام مشکلات کا ادراک کرنے سے عاری ہیں اور غلط فیصلے کرنے کے عادی۔وہ بلاوجہ ایک کے بعد دوسرے نا اہل رہنماء کے سحر میں پھنس کر اپنے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیلتے آ رہے ہیں۔
خدا کرے کہ ہم پاکستانی جاگ جائیں اور صرف قابلیت، اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو رہنماء کریں،خدا کرے کہ ایسا ہو جائے۔