Paradigm Shift
ملک میں شدید مہنگائی کے باوجود ابھی تک بھارت سے تجارت کا فیصلہ نہیں ہو سکا
نئی دہلی میں منعقد ہونے والی جی ٹونٹی سربراہ کانفرنس کو دنیا میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے تناظر میں Paradigm Shift (زبردست تبدیلی) کہا جاسکتا ہے۔
بھارت کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں 19بڑی اقتصادیات یورپی یونین اور افریقی یونین کے ممالک شامل تھے۔ اس کانفرنس میں امریکا، برطانیہ، جنوبی افریقہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی وغیرہ کے سربراہان شریک ہوئے۔
چین کے صدر Xi Jiang اور روس کے صدر پیوتن نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ جی 20 کی سربراہ کانفرنس میں ایک طرف بھارت نے اپنی صنعتی ترقی کا بھرپور اظہار کیا ہے تو دوسری طرف اس کانفرنس میں ایسے فیصلے ہوئے جن پر عمل درآمد ہوا تو دنیا میں ایک تبدیلی رونما ہونے کے امکانات ہیں۔
اس کانفرنس میں یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے کے بجائے ریاستوں کو طاقت کے استعمال سے گریزکا مشورہ دیا گیا، یوں بھارت کی روس سے تعلقات کے تناظر میں ڈپلومیسی کامیاب ہوئی۔ مشرقی علاقہ میں یوکرین اور روس سے اناج، خوراک اور تیل کے محفوظ بہاؤ کے لیے بحرۂ اسود معاہدہ کی بحالی پر زور دیا گیا۔
روس نے جولائی میں اس معاہدہ سے دست برداری اختیار کر لی تھی۔ کانفرنس میں جن اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر اتفاق رائے ہوا، اس کا نام مسالہ جات رکھا گیا۔ ان میں دبئی سے اسرائیل کی بندرگاہ تک ریلوے لائن بچھائی جائے گی جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بحری جہازوں کے بیڑوں کو نہر سوئز سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
یورپ سے بھارت تک تجارت 40 فیصد تیز ہوجائے گی۔ امریکا، سعودی عرب، یورپی یونین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مشترکہ طور پر شروع کیے جانے والے منصوبوں میں ریلوے بندرگاہوں سے بجلی، ڈیٹا نیٹ ورک اور ہائیڈروجن پائپ لائن سے رابطے قائم کیے جائیں گے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے بنیادی طور پر تجارت پر مرکوز ہیں لیکن اس کے وسیع مضمرات ہونگے۔ ان منصوبوں کی بناء پر ماضی کے دشمنوں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار ہونگے۔ یورپی یونین کے صدرکا مدعا ہے کہ بھارت مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ کی یہ اقتصادی راہدار ی صرف ریل یا کیبل کے قیام تک محدود نہیں ہے، یہ ایک براعظموں اور تہذیبوں کے درمیان ریجنل پل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایسا ہی ایک منصوبہ بھارت، مشرق وسطیٰ، بشمول متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کو ریل سے جوڑے گا۔ یوریشیا گروپ کے سربراہ اجیت پال چوہدری نے ان منصوبوں کی افادیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج جو کنٹینر نہرسوئزکے راستے یورپ سے ممبئی پہنچتا ہے وہ اب یورپ سے براہِ راست اسرائیل کی بندرگاہ ہیپا سے ریل کے ذریعہ دبئی پہنچے گا جس سے وقت اور رقم بچے گی۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف بی کی رپورٹ میں تحریرکیا گیا ہے کہ سبزہائیڈروجن کی تیاری اور ٹرانسپورٹ کے لیے انفرا اسٹرکچر بھی اسی اقتصادی راہداری کے ذریعہ بنایا جائے گا۔ یہ ٹیلی کمیونی کیشن ڈیٹا ٹرانسفرکو بھی زیر سمندر کیبل کے ذریعہ محفوظ بنایا جائے گا۔ ان پروجیکٹس سے مشرق وسطیٰ کی معدنی تیل میں ڈوبی ہوئی معیشتوں کو اپنا انحصار معدنی تیل پر کم کرنے کا موقع ملے گا۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبہ پر دستخط کرنے والوں کو امید ہے کہ بھارت کی ایک ارب 40کروڑ افراد کی منڈی کو مغرب سے منسلک کر کے ایسے انفرا اسٹرکچر پر خطیر اخراجات کے پروگرام کے نعم البدل کے طور پر لایا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ اس سے مشرق وسطیٰ کی معیشتوں کو فروغ ملے گا جبکہ اسرائیل اور خلیج عرب کی ریاستوں کے مابین تعلقات بھی نارمل ہوسکیں گے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری سے طویل مدت کے لیے روزگار کے مواقع مہیا ہونگے اور عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی کا ضامن ہوگا۔ اس کانفرنس کے نتائج فوری طور پر سامنے آنے لگے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھارت کے سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کی حمایت کر دی۔
طیب اردگان نے یہ بیانیہ اختیار کیا کہ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنے گا تو ہمارے لیے فخر کی بات ہوگی۔ انہوں نے اپنے بیانیہ کو واضح کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ دنیا پانچ ممالک سے بہت بڑی ہے۔
صرف امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کو ہی نہیں گردشی نظام کے تحت دنیا کے 195 ممالک کو سلامتی کونسل میں خدمات انجام دینے کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسری طرف اسرائیل کے ایک پانچ رکنی وفد نے سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں ہونے والے یونیسکو کے اجلاس میں پہلی دفعہ شرکت کی۔
جی 20 سربراہی کانفرنس کا دہلی میں انعقاد یقیناً ایک Paradigm Shift ہے۔ دنیا کے 19ممالک کے سربراہوں اور دیگر اداروں کے رہنماؤں کا دہلی پہنچنا ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ چین کے اقتصادی راہداری کے نظریہ کے تحت ایشیائی افریقی ممالک میں کئی منصوبے کام کر رہے ہیں جس سے اس خطہ میں چین کا اثر و رسوخ بڑھا ہے۔
چین کی اس حکمت عملی کو روکنے کے لیے امریکہ، بھارت، برطانیہ وغیرہ کے لیے اقتصادی منصوبوں پر اتفاق کیا گیا ہے مگر جی 20 میں پاکستان کے قریبی دوست سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی بھی شامل ہیں۔ ایک اقتصادی ماہر کا کہنا ہے کہ جیو پولیٹکس اور جیو اکنامکس اس طرح کے معاہدوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اس ماہر کا کہنا ہے کہ کسی ملک کا اقتصادی ڈھانچہ صنعتی ترقی سائنس اور ٹیکنالوجی کے معیارکی بلندی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ چین کے اقتصادی ترقی کے سی پیک منصوبہ کے لیے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ سی پیک کے منصوبہ کا ایک بڑا حصہ بلوچستان پر مشتمل ہے مگر گزشتہ صدی کے 23 سال صوبے میں بدامنی پر قابو پانے میں گزارے ہیں اور اب بھی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ بھارت کی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی مسلسل پالیسی کے باوجود دنیا بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے قریبی دوست سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اب ترکی بھی بھارت کے ساتھ بڑے تجارتی منصوبوں میں منسلک ہوگئے ہیں، مگر ان نئی تبدیلیوں کو فیصلہ ساز ادارے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکا کے وزیر تجارت نے گزشتہ دنوں بیجنگ کا دورہ کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔
اس طرح چین، بھارت، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ پر مشتمل اقتصادی گروپ برکس کے ممالک سربراہ اجلاس گزشتہ دنوں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ میں منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں چین کے صدر اور بھارتی وزیراعظم بھی شریک ہوئے اور چین نے بھارت سے تجارت کا حجم بڑھانے کے لیے نئی رعایتوں کا اعلان بھی کیا۔
ملک میں شدید مہنگائی کے باوجود ابھی تک بھارت سے تجارت کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ خطہ میں ہونے والی تبدیلیوں پرگہری نظر رکھنے والے صحافی عزیز سنگھور نے اپنے تجزیہ میں لکھا ہے کہ جی 20کے ممالک کے سربراہ اجلاس سے پھر ثابت ہوتا ہے کہ معیشت ہی سب کچھ ہے، سیاست اور ریاست سب معیشت کے غلام ہیں۔ معروف ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ اگر سیاسی حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملتا تو پاکستان ترقی کی دوڑ میں آگے ہوتا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جی 20کانفرنس پر بھرپور تجزیہ کیا۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ 2017ء کا تسلسل برقرار رہتا تو پاکستان جی 20تنظیم میں شامل ہوتا اور اس تنظیم کا سربراہ اجلاس پاکستان میں منعقد ہوتا۔ خطہ میں ہونے والی تبدیلیوں کو محض بھارت دشمنی کی آنکھ سے دیکھنے سے اس ملک کا بحران حل نہیں ہوگا۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے نظریہ اور عمل میں Paradigm Shift کی ضرورت ہے۔