بلٹ پروف خلوت گاہیں
احمق سے ہم نے کہا کہ خداماروں کے یہ پندرہ گھرانے ہی تو پندرہ کروڑ کی خوابگاہیں بناتے ہیں
جب سے ہم نے بلٹ پروف خواب گاہوں، خلوت گاہوں اورپناہ گاہوں کے بارے میں سنا ہے، ذہن میں ایک پشتو ٹپہ گونج رہاہے کہ
پتنگہ خاورے دے پہ سر شوے
شمعو لہ جوڑ شول پہ شیشو کے مکانونہ
ترجمہ: اے پروانے تم تو خاک بسر ہوگئے کہ اب شمعوں کے لیے شیشے کے مکان بن گئے ہیں بلکہ ذہن میں ایک اورٹپہ بھی بن رہاہے کہ
اے مریدو پرستاروں اورعقیدت مندوں۔۔تم تو کہیں کے نہیں رہے کہ پیروں مرشدوں نے اپنی خلوت گاہوں کو بلٹ پروف بنالیاہے، ظاہرہے کہ بلٹ پروف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خلوت گاہیں ، مرید پروف، عقیدت مند پروف اورعوام پروف بھی ہوچکی ہیں۔
ٹوٹی ہے میری آس مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
تم نے تو پرستان میں خیمے لگالیے
تنہا کٹے کسی کاسفر تم کو اس سے کیا
ایک زمانہ تھا جب یہ پیر فقیرعابد زاہد اوررشی منی لوگ آبادیوں سے دورجاکر جنگلوں بیابانوں میں اپنی کٹیائیں آباد کرتے رہتے تھے اورعقیدت مند بلاروک جب جی چاہتاتھا جاکردیدار سے مشرف ہولیتے تھے، اپنی محبت اورعقیدت کااظہارکردیتے تھے ۔
ہرکہ خواہد گو بیاو ہرکہ خواہد گو بہ گو
کبر ونازوحاجب ودربان دریں بارگاہ نیست
اورآج ان سے ملنے بلکہ ایک جھلک دیکھنے کے لیے نہ جانے کتنے پہرہ داروں، کانٹا تاروں اور دیواروں سے گزرنا پڑتاہے وہ بھی کچھ خاص خاص مریدان باصفا کو ورنہ عام ہماشما تو بس کیئجے نظارہ دورسے۔ جب گولی ان تک نہیں پہنچ سکتی تو کوئی اورکیاپہنچے گا البتہ ''کوگی'' بلکہ گولی کی رفتار سے پہنچ سکتی ہے کہ ان کے ''پر'' ہوتے ہیں جب کہ کوے صرف کائیںکائیں کرکے رہ جاتے ہیں ۔
ایک احمق الحمقاء نے ہمیں بتایا ، احمق الحمقا اس لیے کہ پاکستانی تھا اورپاکستانی جدی پشتی احمق الحمقا ہوتے ہیں کہ پندرہ کروڑ سے کم ازکم پندرہ گھرانوں کا سب کچھ سنورسکتاہے۔احمق سے ہم نے کہا کہ خداماروں کے یہ پندرہ گھرانے ہی تو پندرہ کروڑ کی خوابگاہیں بناتے ہیں اوراگر یہ آباد ہونے لگیں تو بلٹ پروف کمرے کیسے بنیں گے۔
ان خواب گاہوں ، پناہ گاہوں ، خلوت گاہوں اورمحل دومحلوں کے درودیوارکو ذرا غورسے دیکھو، سب کے سب خداماروں اوردر بدروں کے خون... ہڈیوں اورگوشت کے بنے ہوئے دکھائی دینے لگیں گے بلکہ اگر کان قریب لے جاؤ تو آہیں اورچیخیں بھی سنائی دینے لگیں گی۔
عرصہ ہوا ایک دیہاتی بزرگ ہمارے ساتھ شہرگیا تھا ایک جگہ اچانک ایک تیزسائرن بجنے لگا ، لوگ فوراً سڑک چھوڑ کر کنارے ہوگئے ، گاڑیاں بھی ادھر ادھر ہونے لگیں اورتیزآواز میں سیٹیاں بھی بجنے لگیں وہ دیہاتی کچھ گھبرا کر اورکچھ حیران ہوکر پوچھنے لگا ، یہ کیا ہوگیا ہے کوئی ''بلا'' آرہی ہے کیا؟
ہم نے سمجھایا بلا نہیں وزیرصاحب تشریف لارہے ہیں ان کے لیے راستہ خالی کیاجارہاہے ، پھر ایک جگہ اس نے ایک عمارت دیکھی جس کی دیواروں پر بے تحاشاکانٹا تار لگائے گئے تھے ،دروازے پر سیمنٹ کے ہرڈل تھے اورپھر مسلح پہرہ دار۔دیہاتی نے حیران ہوکرپوچھا اس عمارت میں کیاہے کوئی خزانہ ہے کیا۔ عرض کیا کوئی خزانہ نہیں بلکہ اس قوم کامحافظ رہتاہے ۔بولا عجیب محافظ ہے ، محافظ قوم کاہے اوراپنی حفاظت قوم سے کروارہاہے۔
بات چیت میں جب اس نے پوری جانکاری حاصل کی تو بولا ۔تو پھر یہ لوگ ایسے کام کیوں کرتے ہیں کہ حفاظت کی ضرورت پڑجائے پھر اس نے ایک خالص دیہاتی مقولہ دہرایا کہ ''راست رہو، بیج راستے میں لیٹے رہو''
چلئیے بلٹ پروف کمروں کو رہنے دیجئے ان میں رہنے والوں کو بھی بھول جائیے، ساتھ ہی گوگیوں اورکائیں کائیں والوں کو گولی مارئیے ، ایک چھوٹی سی کہانی سناتے ہیں ۔
مشہور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کاکردار کرنل فریدی بڑا سپرمین قسم کا جاسوس ہے لیکن ایک مرتبہ اسے ایک مجرم سے پالا پڑگیا، جس نے کسی سائنسی فارمولے کے تحت اپنے جسم کے ارد گرد ایک بلٹ پروف ہالہ بنایاہوا تھا وہ ہالہ نظرنہیں آتاتھا لیکن جب اس پر گولی چلائی جاتی تو ہالے سے ٹکراکر بیکارہوجاتی ۔
ایک مرتبہ کرنل فریدی اس کاتعاقب کررہاتھا، گولیاں ماررہاتھا جو ضائع ہورہی تھیں، ایک جگہ وہ مجرم ایک درخت پر چڑھ گیا ، یہاں وہاں شاخوں میں پھدک رہاتھا اورنیچے کھڑے ہوئے بے بس کرنل فریدی پر ہنس رہاتھا ۔ایک مقام پروہ ایک شاخ پر آرام سے پیرلٹکاکر بیٹھ گیا تو اچانک کرنل فریدی نے پستول پھینک کر ایک پتھر اٹھایا اوراس مجرم کی طرف پھینکا ، مجرم قہقہے لگانے لگا، اورپھر اچانک چیخنے لگا ، پتھر اسے تو نہیں لگا تھا لیکن اس کے لیے سرکے اوپر مکھیوں کے ایک چھتے کو لگا تھا وہ ہالہ جو اس مجرم کے گرد تھا وہ مکھیاں پروف نہیں تھا چنانچہ مجرم سیدھا''جیل'' پہنچا دیا گیا۔