اپنے اردگرد ’’ سماجی حلقے‘‘ قائم کیجیے…
سماجی سطح پر دیکھیے، تو باقاعدہ ایسے حلقوں کا قائم ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکیں
ہمیں اب یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اب ہمارے ہاں تعلیم کا زیادہ تر مقصد صرف یہی رہ گیا ہے کہ ہم کسی طرح ' نصاب یافتہ' ہو جائیں۔
مختلف نظاموں کے لگے بندھے کلیے اور ان کی طے کردہ نصاب اور طریقۂ امتحان کے تحت پوزیشن، نمبر اور ' گریڈ' سے لے کر ڈگریاں اور پھر اس کے دَم پر عملی زندگی میں زیادہ سے زیادہ پیسے کا حصول اور اس کی بنیاد پر تعیشات تک رسائی۔ بس! جب کامیابی اور منزل و مقصد کے نام پر زندگی میں صرف یہی باقی رہ جائے، تو پھر یہی کچھ ہوگا، جیسا ہمارے ہاں نام نہاد ' تعلیم یافتہ' لوگوں میں بہت آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ بہت سی چیزیں گھر اور خاندان کی تربیت ہی سے نئی نسل میں منتقل ہوتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ تعلیم انسان کے اندر شعور بیدار کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے، اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ، لوگوں سے ساجھے داری اور معاملات طے کرنے کا سلیقہ آئے بغیر تو اس کے دراصل انسان ہونے میں بھی شک ہونا جائز شمار ہوگا۔ کسی کا صرف انسانی جثے میں موجود ہونا تو کافی نہیں۔ کردار، اخلاق اور اطوار سے اُسے ثابت کرنا بھی ضروری ہے۔
ہماری مصروف زندگیوں میں جدید ' سماجی ذرایع اِبلاغ ' ہمارے بچے کچھے وقت کو بھی نگل چکا ہے، اب تو ہمیں اپنے موبائل کی وجہ سے اہل خانہ کے ساتھ فرصت سے بیٹھنے یا باتیں کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا، جو کہ نہایت غلط عمل ہے۔ انسان کے مزاج کے لیے یہ باہمی میل جول ناگزیر ہے، بہ صورت دیگر مختلف جسمانی اور ذہنی عوارض یا بے سکونی جیسے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ہم سب کو اپنے گھر والوں کو وقت دینے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ وقت اپنے رشتہ دار یا پھر دوست احباب کی بیٹھک میں بھی ضرور دینا چاہیے، جہاں ہم آپس میں کسی مثبت سرگرمی کے ساتھ ہم کلام ہو سکیں۔
بالخصوص اس مقصد کے لیے کہ جب آپ اپنے سماج کو بہتر کرنے یا لوگوں میں آگاہی دینے یا ان کی غیر رسمی طور پر تعلیم و تربیت کے لیے کچھ حصہ دے سکیں۔ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے لے کر طلبہ تنظیموں اور کچھ ' مشنری' انجمنوں تک میں باقاعدہ طور پر تعلیم و تربیت کے یہ سلسلے جاری رہتے ہیں۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی جائے، اپنے نظریے اور فکر کو پھیلایا جائے، یا اس کے مطابق لوگوں کی منظم انداز میں تربیت کی جا سکے۔
سماجی سطح پر دیکھیے، تو باقاعدہ ایسے حلقوں کا قائم ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکیں۔ ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور تجربوں سے مستفید ہوں، بالخصوص یہ جان سکیں کہ اب دنیا کس تیزی سے بدل رہی ہے، اور ہمیں زندگی گزارنے کے لیے کیسے کیسے چینلج درپیش ہیں، اس کے لیے ہمیں کیا تیاری کرنی چاہیے۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر ہمارے شعور کی اخلاقی، سماجی اور تحریکی تربیت ہو۔ سب سے پہلے تو ہمارے کسی عمل سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
اپنے حق کی تلاش میں ہم کسی اور کا حق تلف نہ کریں، کسی کا دل نہ دُکھائیں، قانون، ضابطوں اور سارے اصولوں کے پاس دار بنیں، بہ جائے کسی کو پیچھے دھکیل کر آگے بڑھنے کے، تحمل اور بردباری کے ساتھ دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ خود غرضی اور نفسا نفسی کے اس ماحول میں اس انسانیت، عاجزی اور وضع داری کی تربیت کے لیے ایسی سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے لیے بہت سارے وسائل کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، جب ہم خلوص کے ساتھ کوئی کام شروع کرتے ہیں، تو پھر اس کے کوئی نہ کوئی راستے بھی نکل آتے ہیں۔ جب ہم اپنے مُحلوں میں گلی کے نکڑ، چوکوں، تھلوں اور تھڑوں پر لوگ 'حلقہ' لگا کر بیٹھے رہتے ہیں، اور اکثر تفریح برائے تفریح ہی میں مشغول یا سراسر وقت ضایع کر رہے ہوتے ہیں، تو ایسے میں باقاعدہ کوئی تعلیمی، تہذیبی اور علمی سرگرمی کیوں کر شروع نہیں کی جا سکتی؟
اس حوالے سے حالیہ قابل رشک مثالوں میں دیکھیے، تو ہمارے سامنے ممتاز نفسیاتی معالج ڈاکٹر مبین اختر کی ایک مثال ہے، جنھوں نے 'نفاذِ اردو' کا بیڑا اٹھایا اور ' تحریک نفاذ اردو' قائم کی، جس کی ہر مہینے ناظم آباد میں بیٹھک ہوتی تھی، اب آج کل معلوم نہیں کہ یہ سلسلہ جاری ہے یا نہیں، ورنہ کچھ عرصے پہلے تک تو وہاں مُحبانِ اردو کے لیے عام دعوت ہوتی اور ماہانہ بنیادوں پر اردو کے نفاذ کے حوالے سے مختلف معاملات اور اپنی جدوجہد کا لائحہ عمل طے کیا جاتا تھا۔ اسی طرح شیخ طارق جمیل اور شیخ طاہر سلطان کی ادبی انجمن ' بزم شعر وسخن' باقاعدگی سے چھوٹی چھوٹی شعری محفلیں اور سالانہ بڑے مشاعرے کرا رہی ہے۔
اب انھوں نے 'بزم مکالمہ' کے نام سے مختلف اہل علم و دانش کے بیانات منعقد کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے۔ ایسے ہی کچھ عرصے پہلے ایک بلاگر آمنہ احسن نے کراچی کے مختلف مقامات پر ' ادب شناس' کی ماہانہ بیٹھک کا سلسلہ شروع کیا، جس میں باقاعدہ کتابوں سے دوستی رکھنے والے لوگوں کا ایک حلقہ قائم ہوتا ہے اور وہ من چاہی کتابوں سے اپنے اپنے منتخب کردہ اقتباسات پڑھ کر سناتے ہیں اور پھر اس پر بات چیت کرتے ہیں۔ اسی طرح ' حلقۂ تہذیب وثقافت' کے فائز علی خان، زوہیب اعظم، عمیر مقصودی اور ان کے رفقا کی ادبی و ثقافتی سرگرمیاں بھی قابل قدر ہیں۔
ایسے حلقے لوگوں کو مکالمے، سیکھنے، سمجھنے اور ان میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے وہ لوگ جو صرف ' واٹس ایپ' فیس بک یا اب ' یوٹیوب ' ہی کے اسیر ہیں اور دھیرے دھیرے فقط اسکرین ہی کی ایک 'عجیب و غریب ' دنیا کے باسی ہوتے چلے جا رہے ہیں، جہاں بات چیت اور سیکھنے سمجھنے سے زیادہ زور مذاق، مستی اور اشتعال کے بعد عدم برداشت کی طرف چلا جاتا ہے۔ اورکچھ نہیں تو ہم خود ہی اس اداسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم نے جو وہاں لکھا یا لگایا ہے، اُسے ابھی تک ہمارے احباب کی متوقع تعداد نے دیکھا، سنا یا سراہا کیوں نہیں ہے۔؟
یہ سب ہمارے مزاج میں ایک الگ طرح کی ' درد سری' پیدا کرتا ہے۔ اس کا ازالہ بہ نفس نفیس ہمارا لوگوں سے ملنا جلنا ہے۔ خلوص دل کے ساتھ اور بغیر کسی فائدے کے اگر ہم یہ باتیں صرف سماج کو بہتر کرنے کے لیے لوگوں تک پہنچائیں گے، تو یقیناً یہ تعمیری سرگرمی ہمیں اندر سے ایک اطمینان فراہم کرے گی۔ ہماری بتائی ہوئی راہ سے اگر کوئی بچہ، نوجوان یا طالب علم اپنے اخلاق وکردار کو سنوارے گا، تو یہی ہماری محنت کا اصل ثمر اور حاصل ہوگا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے اردگرد اپنے مزاج اور دل چسپی کے تعلق سے ایسے حلقے ترتیب دیں، جہاں احباب باہم تبادلۂ خیال کر سکیں۔ لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی اخلاقی، سماجی اور مثبت سیاسی فکر کی تربیت ہو، ایک صحت مند مکالمہ اور بحث قائم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ' اسکرین' پر قید ایک 'مصنوعی' اور 'غیر حقیقی' دنیا کی قید سے رہائی پا کر اپنے گرد وپیش میں کھل کر سانس لے سکیں اور انسانی زندگی کا کچھ لطف پا سکیں۔