ناول افسانے اور طنز و مزاح
اجمل اعجاز افسانہ و ڈرامہ نگاری کے اعتبار سے معروف نام ہے اور اب کئی سالوں سے شاعری بھی کر رہے ہیں
اس وقت میرے سامنے اردو نثر نگاری کی بہترین کتابیں صفحہ قرطاس پر رونمائی کرانے کے لیے بے چین ہیں۔ سو الحمد للہ میں نے قلم سنبھال لیا ہے۔ ان دنوں میں دو تین کتابوں کو اپنے کالم میں شامل کرتی ہوں تاکہ تاخیر کا عمل دھیما ہو جائے۔
''زندگی کہانی ہے'' یہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے لکھاری اجمل اعجاز ہیں، دوسری کتاب شجاع الدین غوری کی ہے، عنوان ہے ''اردو طنز و مزاح میں کتوں کا ذکر'' جب کہ ناول، ''چاند پور'' شاہد رضوان کی تخلیق ہے۔
اجمل اعجاز افسانہ و ڈرامہ نگاری کے اعتبار سے معروف نام ہے اور اب کئی سالوں سے شاعری بھی کر رہے ہیں، اجمل اعجاز کا یہ پانچواں افسانوں کا مجموعہ ہے، ایک ناول ''اصلی خزانہ'' کے عنوان سے بچوں کے لیے لکھ چکے ہیں، جن قارئین نے مصنف کے افسانے باقاعدگی اور تواتر سے پڑھے ہیں انھیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اجمل اعجاز بہتر سے بہتر کی طرف گامزن ہیں۔
''زندگی کہانی ہے'' میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں، اسلوب بیان کی تازگی نے افسانوں میں جدیدیت کا رنگ نمایاں کر دیا ہے سب سے پہلے جس افسانے نے مجھے متوجہ کیا وہ تھا ''سگریٹ، ماچس اور سنہری مچھلی'' کفایت لفظی سے کام لیتے ہوئے مصنف نے ایک کامیاب افسانہ تخلیق کیا ہے، موسم کی خوبصورتی، خاموش فضا اور موسیقی کے سحر نے ایک کشش پیدا کردی تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ ایک خاتون جوکہ فیض کے کلام کی دیوانی تھیں پاس آ کر بولیں'' کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں،''مرد نے عورت کو گہری نظر سے دیکھا اور اسے ساحل سمندر پر پڑے ہوئے ہموار پتھر کی طرف اشارہ کرکے بیٹھنے کی اجازت دی۔
مصنف نے دیکھا اس کے لباس میں اورنج اور سفید رنگ شامل ہے اور بالوں میں بھی اورنج رنگ کئی جگہ نمایاں تھا، دوران گفتگو اس بات سے مصنف کو آگاہی ہوئی کہ اس خاتون کے شوہر نے سنہری مچھلی کا شکار کیا ہے اور اب وہ سگریٹ کی تلاش میں مچھیروں کی بستی میں گئے ہیں۔ عورت نے سنہری مچھلی کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا'' اس کا پورا جسم سنہرا ہے، گلپھڑوں کے اطراف میں ایک نارنجی رنگ کا خوبصورت دائرہ ہے، لگتا ہے اس نے نارنجی رنگ کا نیکلس پہنا ہوا ہے۔''
عورت کی بات ختم ہوئی تو مچھلی کے شکاری کی نگاہ اس کے سراپے پر مجسم ہو گئی، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سنہری مچھلی اور اپنے شوہر کا انتظار کرنے والی عورت، دونوں کا قالب ایک ہی ہے، عورت نے گاڑی کی آواز سنی اور وہ یہ کہہ کر چل دی ''انور آگئے ہیں، ٹھیک ہے پر آپ یہ ماچس لیتی جائیں چونکہ میرے پاس سگریٹ نہیں ہے اور۔۔۔۔''۔ اس کے جانے کے بعد مرد کی سنہری مچھلی کا شکار کرنے کی طلب میں شدت آگئی۔
''شاعر سے روٹھی ہوئی غزل'' مصنف نے محض شک کی بنیاد پر افسانہ تخلیق کیا ہے اور میاں بیوی کے رشتے کی نزاکت کو چھوٹے چھوٹے جملوں (خواتین کی فطری عادات) میں سمو دیا ہے اور اختتام شک کے کیڑے کی ہلاکت پر ہوتا ہے، ''خواب دریچے'' بھی میاں بیوی کی محبت اور شکوک و شبہات کے اندھیروں میں پروان چڑھا ہے۔ اجمل اعجاز کے افسانوں کی خوبی اختصار اور حقیقت نگاری ہے، وہ مسلسل لکھ رہے ہیں اور اچھا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔
چیچا وطنی سے تعلق رکھنے والے شاہد رضوان جوکہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں ساتھ میں قلم کاری کا جادو جگانے میں طاق ہو چکے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں اللہ رب العزت کی دین ہے کہ یہ تحفہ خداوندی ہے وہ جسے بخش دے۔ اب یہ تخلیق کار پر منحصر ہے کہ وہ اپنے قلم کی حرمت کو داغدار کرتا ہے یا اس مصرع کے مصداق:
ظلم گوید کہ من شاہ جہانم
شاہد رضوان کے لکھنے کا عمل مسلسل جاری ہے وہ ارتقائی منزلوں کو طے کرنے میں مصروف ہیں۔ ناول ''چاند پور'' کی اشاعت سے قبل ان کے افسانوں کے مجموعے اور ناول شایع ہو چکا ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ شاہد رضوان کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔
مذکورہ ناول بھی اسلوب بیان اور قصہ گوئی کے حوالے سے منفرد ہے، واحد متکلم اور ان کا دوسرا ''ہم زاد'' ان کے ساتھ ہے، بس یہی دو کردار ہیں ایک عیاں ہے اور دوسرا نہاں، باقی وہ اپنی بیوی اور ماسی سے بھی ہم کلام ہوتے ہیں کورونا کا تذکرہ بھی مختصر انداز میں آتا ہے۔شاہد رضوان جہاں لفظوں کے آشنا ہیں، نئے نئے وہ الفاظ و محاورے استعمال کرتے ہیں جن سے عام قاری واقف نہیں، وہاں منظر نگاری ایسی کرتے ہیں کہ ماضی کے واقعات و مناظر اور ماحول سامنے آ جاتا ہے۔ ناول سے چند سطور۔
''ریلوے اسٹیشن کی پشت پر دائیں، بائیں دور دور تک پکھی واسوں کی جھونپڑیوں کی طرح کچھ آباد اور کچھ خانہ برباد سرکاری ملازمین کے کوارٹرز انگریزی عہد کی یادگار ہیں ہر کوارٹر کے باہر اگائی گئی نڑوں کی دیوار اپنی اپنی خانہ خرابی پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ زنگ آلود پٹری پر جگہ جگہ اگے نڑے، گھاس، کیکر اور جھاڑیاں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ نصیبوں جلی اپنی پیدائش کے وقت سے ہی اس حال میں ہے، اس پٹری پر بیٹھ کر نشئی چرس کے سگریٹ پیتے ہیں اور مارفیا کے انجکشن لگاتے ہیں، ایک وقت تھا جب لوگ شام کے اوقات میں پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرنے اور گپیں ہانکنے آیا کرتے تھے۔
کچھ من چلے نوجوان لڑکیوں پر جملے کستے، بوڑھا نوجوانوں کو دیکھ کر ماضی کی پگڈنڈی پر الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوتا ہے، ساتھ والے کا کہنا ہے یہ ان بھلے دنوں کی باتیں ہیں جب بوڑھا قلی تھا۔ اسی طرح ثقیل لفظوں کی کھیتی اور اس میں اگنے والے تازہ پھول، پھل بھی اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
شجاع الدین غوری کی تحقیقی کتاب ''اردو طنز و مزاح میں کتوں کا کردار'' چند ماہ قبل شایع ہوئی ہے۔ شجاع الدین کی چھ کتابیں شایع ہو کر داد حاصل کر چکی ہیں۔ کتاب کے دو حصے ہیں، پہلے میں پاکستانی مزاح نگاروں کے مضامین اور دوسرے حصے میں ہندوستانی مزاح نگاروں کی تحریریں نہ صرف یہ کہ معلومات میں اضافے کا باعث ہیں بلکہ ہنسنے، ہنسانے کا سامان بھی پیدا کرتے ہیں۔
''عرضِ ناشر'' کے عنوان سے شاعر علی شاعر نے محقق و مدون کا تعارف کروایا ہے۔ ''میلہ سگاں'' کتاب کا دوسرا مضمون ہے۔ ممتاز مزاح نگار انور احمد علوی کا تحریر کردہ انھوں نے اپنے عزیز دوست اور ان سے پہلی ملاقات کا ذکر کیا ہے اور کتاب کے تمام مضامین کو دلچسپ اور معلوماتی قرار دیا ہے وہ رقم طراز ہیں کہ ''طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ مضامین تر و تازہ ہیں، یہ کتے مختلف کتابوں اور رسالوں میں لوٹ رہے تھے جو غوری کی مہربانی سے متحد ہو گئے۔
انور علوی نے ایران پر قابض تاتاری حکمران اور جمال الدین افغانی کا واقعہ بھی درج کیا ہے اور کتے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ وہ کیسے کیسے کارنامہ انجام دیتا ہے اور وفا کی تاریخ اس کے ہی دم سے زندہ ہے۔ صفدر سلیم سیال کا یہ شعر بھی درج ہے:
کہہ رہا تھا ایک کتا اپنے ساتھی سے سلیم
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
مزاح نگاروں کی کہکشاں، شہنشاہ ظرافت مشتاق احمد یوسفی، پطرس بخاری، ابن انشا، ابراہیم جلیس، ''دو کتے ہی اچھے'' اس عنوان سے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا مضمون شامل ہے، بے شک محبت اور انسانیت کا جذبہ مرنے والے کو ہمیشہ زندہ رکھتا ہے، انتساب بھی ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے نام لکھا گیاہے کہ وہ وفات پانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
نورِ نگاہ چشم تمنا سے اٹھ گیا
مرحوم ایک ہی تھا جو دنیا سے اٹھ گیا
اسی شعر سے شجاع الدین نے انتساب مکمل کیا ہے، ''کالا کتا، گورا کتا'' انتظار حسین کے مضمون کا عنوان ہے۔ غوری صاحب کا مضمون جوکہ پہلے حصے کا آخری مضمون ہے۔ ''ایک کتے کی کہانی کچھ اس کی کچھ میری کہانی'' قتیل شفائی کا شعر بھی منافقت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تحریر میں شامل کیا ہے۔
دنیا میں قتیل اس جیسا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
کتے سے مکالمہ بھی دلچسپ ہے۔ ہندوستانی مزاح نگاروں میں ''سگ گزیدہ'' رشید احمد صدیقی کا مضمون'' ڈائریکٹر کا کتا'' مجتبیٰ حسین کتے پر پی ایچ ڈی کے مصنف محمد عمران اعظمی ہیں۔ غرض پوری کتاب اہم مصنفین کی مزاحیہ تحریروں سے آراستہ ہے، جناب غوری کی محنت اور تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کتاب کی صورت میں انھیں اپنی کاوشوں کا ثمر مل گیا ہے۔