جمال شاہ نگران وزیر ثقافت

ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ایسے شخص کو ایک ایسے محکمے کاوزیربنایا گیاہے جس کے بارے میں وہ جانتا بھی ہو


Saad Ulllah Jaan Baraq September 17, 2023
[email protected]

کوئی حیرانی سی حیرانی ہے بلکہ انگشت بہ دندانی اورناطقہ سر بہ گریبانی ہے کہ یہ انہونی کیسے ہوگئی کہ اس مرتبہ نگران سیٹ اپ میں ہی سہی کسی نے ثقافت کوکسی شمارقطارمیں سمجھا اور جمال شاہ کو وزیرثقافت بنایا گیا۔

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورجام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہوشراب میں

ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ایسے شخص کو ایک ایسے محکمے کاوزیربنایا گیاہے جس کے بارے میں وہ جانتا بھی ہو ورنہ یہاں تو ماہرتعلیم کو وزیرجنگلات ، ماہرصحت کو وزیرآثارقدیمہ بلکہ ایسے بچوں کو وزیر خارجہ بنادیاجاتاہے جنھیں گھرسے باہرنکلنے پر بھی کسی بزرگ کاساتھ ہونا ضروری ہوتاہے اورایسے ایسے وزیرداخلہ بن جاتے ہیں کہ نہ پوچھ ۔

جمال شاہ کو ہم اس زمانے سے جانتے ہیں جب طالب علم تھا ان کے بڑے عابد شاہ عابد مرحوم سے ہماری دوستی تھی جو کئی کتابوں کے مصنف اورپشتو اکیڈمی کے چیئرمین تھے ان کے گھر کی بیٹھک میں جمال شاہ سے پہلی بارتعارف ہوا تو ہم نے جانا کہ اس لڑکے کے اندر ایک جوہرقابل موجود ہے اورپھر اس نے عملاً اسے ثابت کردیا وہ بیک وقت ایک اچھا گلوکار بھی ہے ،اداکار بھی ہے، پینٹر بھی ہے، مطلب کہ ثقافت کی ہرگلی کوچے سے واقف ہے ،وہ اگرچاہتا تو صرف گلوکاری یا اداکاری کو بھی کیرئیر بنا سکتا تھا لیکن اس نے دوسرے خارزاروں میں بھی اپنے پائوں فگار کیے ہوئے ہیں

عزلت آباد صدف میں قیمت گوہرنہیں

چنانچہ کوئٹہ سے اسلام آباد منتقل ہوکر اس نے ادب و ثقافت کے ہردشت کی سیاحی کی اس پیشے سے متعلق کئی ادارے قائم کیے، بڑی بڑی کانفرنسز اورسیمنارز منعقد کیں اورایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپی زندگی ادب ثقافت کے لیے وقف کردی۔

اگر چہ نگران وزارت میں نہ اتنا وقت ہوتا ہے اورنہ اختیارات کہ اس میدان میں کارنامے کیے جاسکیں لیکن پھر بھی جمال شاہ پر ہمیں بھروسہ ہے کہ اس کاخلوص جوش وخروش اورثقافت سے اس کی کمٹمنٹ کچھ نہ کچھ کرکے دکھائے گی۔

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گونہ پائوں اس کابھید

پریہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکرکھلا

کم سے کم ثقافت کو یاد تو کیاگیا ورنہ اس ملک میں ثقافت کو کوئی باعزت تو کیا برائے نام مقام بھی حاصل نہیں اسے کمی کمینوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ کسی قوم وملک کی پہچان اس کی ثقافت سے ہوتی ہے اس لیے مقام شکر ہے کہ برائے نام ہی سہی ثقافت کانام تو لیاگیا۔

خوش ہوں کہ میراحسن طلب کام تو آیا

خالی ہی سہی میری طرف جام تو آیا

اس سلسلے میں سب سے بڑا حال ہمارے اس خدامارے صوبے خیبر پختون خوا کا ہے دودومرتبہ ''نگران'' آئے جن کے لیے کھود کھود کرایسے ایسے ''خاندانی''ڈھونڈے گئے کہ ان کے اوران کے آبائو واجداد کے کارنامے سن کر بہرے بھی اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔ ایک افریقی ملک کاصدر برطانیہ کے دورے پر آیا تھا اس نے انگریزوں سے اپنا رشتہ بتاتے ہوئے کہا کہ انگریزوں سے میرا خون کارشتہ ہے عرصہ ہوا میرے آبائو اجداد نے ایک انگریزی پادری کو کھالیا تھا ۔ مطلب یہ کہ ان کا ادب وثقافت سے رشتہ تو تھا

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

اس سلسلے میں پڑوسی ملک کی کچھ مثالیں ہمارے سامنے ہیں کیوں کہ وہ ثقافت وفن والوں کو ڈوم میراثی نہیں بلکہ ماہرین سمجھتے ہیں۔یہ جو موجودہ بی جے پی حکومت ہے اس نے گانگریس کے راہول گاندھی کو اپنی سیٹ پر ہرانے کے لیے ''سمرتی ایرانی''کو چنا اور کامیاب ہوئی ، سمرتی ایرانی مشہور ڈرامے ''ساس بھی کبھی بہوتھی'' کی ہیروئن تلسی ہے اوروہ مودی ٹیم کی سب سے معروف پسندیدہ اورکام کی وزیرہے۔ سائوتھ میں ایک اوراداکار این ٹی آر وزیراعلیٰ رہا ہے جو اتنا مقبول اورہردل عزیز رہا کہ جب تک زندہ رہا عوام اسے وزیراعلیٰ کے طورپر چنتے رہے ۔

جے للیتا بھی ایک اداکارہ تھی دھر میندرکے مقابل اس نے ایک ہندی فلم میں بھی کام کیا وہ بھی تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ رہی جو اتنی مقبول تھی کہ اس کے مرنے پر ساڑھے چارسو لوگ جان سے گزرگئے، دو ڈھائی سو کے تو ہارٹ فیل ہوگئے تھے اورباقیوں نے خودکشی کرلی تھی کیوں کہ اس نے اپنی کارکردگی اور عوام دوستی سے پورے تامل ناڈو کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، حالاںکہ اس وقت وہ ایک بوڑھی عورت تھی۔

جیا پرادہ نام کی اداکارہ بھی آج کل کسی صوبے کی وزیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ دل والے ہوتے ہیں اوردل سے عوام کی خدمت کرکے دلوں میں جاگزیں ہوجاتے ہیں مطلب کہنے کایہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی جمال شاہ سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ خداکرے آگے بھی چلتا رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں