ڈاکٹر ادیب رضوی سالگرہ مبارک پہلا حصہ
پاکستان میں طب کے شعبے کے حوالے سے یہ مہینہ تاریخ میں خصوصی طور پر نہایت اہم تصور کیا جائے گا
ستمبر کا مہینہ کئی حوالوں سے اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم پاکستان میں طب کے شعبے کے حوالے سے یہ مہینہ تاریخ میں خصوصی طور پر نہایت اہم تصور کیا جائے گا۔
11 ستمبر 1938 کو برطانوی ہندوستان کے صوبے یوپی کے ایک شہر جون پور میں چیف انجینئر کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ادیب رضوی رکھا گیا۔ تقسیم کے بعد اس کے خاندان نے ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن 1955 میں جب اس بچے نے میٹرک مکمل کرلیا تو اس کے والدین نے اسے پاکستان جانے کا مشورہ دیا۔
سعادت مند بچے نے والدین کے حکم کی تعمیل کی اور کراچی آگیا۔ ڈی جے کالج میں داخلہ لیا ایک ہاسٹل میں رہائش اختیار کرلی۔ وہ درد مند انسان تھا لہٰذا ڈاکٹر بننے کی شدید خواہش رکھتا تھا اس خواہش کی ایک وجہ یہ بھی تھی کی ادیب رضوی کے سب سے بڑے بھائی ایک حادثے میں جاں بحق ہونے کے باعث طب کی تعلیم مکمل نہیں کرسکے تھے۔ ہندوستان میں وہ ''سرخوں'' کے درمیان رہے تھے۔ دنیا کو بہتر بنانے کا سودا سر میں سمایا ہوا تھا لہٰذا طلباء سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔
ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا۔ انھوں نے طلباء کے مسائل پر آواز بلند کرنا شروع کی، وہ مشتاق احمد گورمانی کا دور تھا۔ سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں ان کو گرفتار کرلیا گیا اور وہ تقریباً ایک سال تک جیل میں قید رہے۔ 1951میں ڈاکٹر سرور، رحمان علی ہاشمی، آصف جعفری، ہارون احمد اور دیگر نوجوان طلباء نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ یہ طلباء تنظیم کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی نظریاتی اتحادی تھی۔ ادیب رضوی بھی جمہوریت کے قیام اور استعمار کی شکست کے لیے اس تحریک میں شامل ہوگئے۔
50ء کی دہائی وہ دہائی ہے جب پاکستان میں خواب دیکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مشرقی پاکستان میں ماں بولی کی لڑائی لڑی جارہی تھی اور اس وقت کے مغربی پاکستان میں دانشوروں اور شاعروں کے گلے میں پنڈی سازش کیس کا پھندا ڈالا جارہا تھا اور 1960میں حسن ناصر ایسے دانشور اور نوجوان ترقی پسند رہنما کو لاہور کے شاہی قلعے میں اذیتیں دے کر قتل کیا جارہا تھا۔ ملک امریکا کی طفیلی ریاست بن رہا تھا ۔ مزدوروں اور طلبہ پر گولیاں چلتی تھیں ، ان کے لیے در زنداں کھلتا تھا اور وہاں بھی وہ خواب دیکھتے تھے۔
خواب کا جادو بھی کیا جادوہے کہ عقوبت خانوں میں بھی سر چڑھ کر بولتا ہے اور دیکھنے والے اسے پھانسی کے تختے پر بھی دیکھتے ہیں۔ آزادی اور امن کے لیے دیکھے جانے والے یہ خواب سفر میں رہتے ہیں، یہ ایک نسل سے دوسری نسل، ایک زمانے سے دوسرے زمانے، ایک زمین سے دوسری زمین تک سفر کرتے ہیں۔ اسکائی لس سے اسپارٹکس، سقراط سے منصور حلاج اور گلیلیو گلیلی تک ، روسو اور والٹیر سے فرانز فین اور سراج الدولہ سے منگل پانڈے اور بھگت سنگھ سے بھٹو خانوادے تک یہ خواب سفر میں رہتے ہیں۔
1961میں وہ ڈاکٹر بن کر نکلے تو انھوں نے شہر کے اسپتالوں کا حال دیکھا اور شہر کے فٹ پاتھوں پر رہنے والے غریبوں کی سیہ بختی دیکھی۔ 50ء کی دہائی میں ہر طرف افراتفری تھی۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنا زیادہ وقت سڑکوں، گلیوں یا سول اسپتال میں گزارتے جہاں غریب ٹوٹے پڑے تھے اور ان کی شنوائی نہ تھی۔ وہ درد اور آزار میں مبتلا لوگوں کو جھڑکیاں سنتے دیکھتے اور تلملا کر رہ جاتے۔ سوشلسٹ نظریات انھیں محبوب تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کا علاج مفت ہونے کے ساتھ ہی، ان کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔
انھوں نے سول اور جناح اسپتالوں کے فٹ پاتھ پر بستر لگانے والے بیماروں اور ان کے تیمارداروں کو دیکھا جن کی وحشت زدہ آنکھیں دل کو برماتی تھیں اور جنھیں ہر طرف سے دھتکارا جاتا تھا۔ وہ ڈاؤ میڈیکل سے پڑھ کر نکلے تو سرجری کے لیے ملنے والی ایک فیلو شپ پر انگلستان چلے گئے جہاں انھیں برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس نے بے حد متاثر کیا۔ وہاں کے بیمار اسپتالوں کے دروازوں پر ایڑیاں رگر کرنہیں مرتے تھے اور انھیں کراچی شہر کی وہ بڑھیا یاد آئی تھی جو اپنے کانوں کی بالیاں ہتھیلی پر رکھے فریاد کررہی تھی کہ اس کے عوض کوئی اسے دوا فراہم کردے۔
وہ اپنے ساتھیوں سے کہتے کہ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں تاکہ غریب بیماروں کا مفت علاج کرسکیں۔ ان کے دوست ان باتوں پر ہنستے اور اسے شیخ چلی کا خواب کہتے تھے لیکن وہ شیخ چلی نہیں سید ادیب الحسن رضوی تھے۔ انھوں نے جو خواب دیکھا تھا، اسے پورا کر دکھا یا اور آج ان کا قائم کیا ہوا ادارہ SIUT دنیا میں پاکستان کی پہچان بن چکا ہے، سول اسپتال کا گردوں کی بیماریوں کے علاج کا وہ یونٹ جس کا چارج انھیں دیا گیا تو وہ 8 بستروں پر مشتمل تھا، آج 800سے زیادہ بستروں پر مشتمل ہے، سول اسپتال کے بیچوں بیچ دو شاندار عمارتیں سر اٹھائے کھڑی ہیں جن میں کراچی شہر، اندرون سندھ اور سارے ملک سے آنے والے غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
انھوں نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن عطیات دینے والوں کی مدد سے سجایا، سنوارا، جدید اور مہنگی مشینیں خریدیں اورعوام کے عطیات سے لاکھوں انسانوں میں زندگی کا تبرک تقسیم کیا۔ وہ لوگ جنھیں گردے کی تکلیف ہےIUT Sجاتے ہیں ۔ ڈائلیسس مشین سے اپنا خون صاف کراتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔ کراچی اور سندھ کے دور دراز علاقوں سے آنے والے ناداروں کی ایک قطار ہے جو وہاں صبح و شام نظر آتی ہے اور جن سے ایک روپیہ لیے بغیر جدید ترین مشینوں پران کا خون صاف کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہم گردوں کے کام چھوڑ دینے کے اولین مرحلوں میں ڈائلیسس کے ذریعے مریض کی تکلیف کو کم کرسکتے یا کسی کی زندگی کی گھڑیوں میں اضافہ کرسکتے ہیں، لیکن ہمارے پاس وہ مریض بھی آتے ہیں جن کے گردے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور جنھیں صحت مند گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا گردہ جو کسی سے خریدا نہ گیا ہو بلکہ مریض کے کسی قریبی عزیز نے عطیہ کیا ہو۔
اس ادارے میں کام کرنے والے ڈاکٹر بعد از مرگ انسانی اعضاء کے عطیات پر لوگوں کو آمادہ کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں لیکن اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔ کہیں مذہب اور کہیں ریت اور رواج کے نام پر گزرجانے والے کے اعضاء کے عطیے کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے۔ اسے میت کی بے حرمتی قرار دیا جاتا ہے۔ گردے ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے یہاں جگر کا بھی ٹرانسپلانٹ ہوا۔
(جاری ہے)