پیپلز پارٹی کی مفاہمتی پالیسی سے صوبے میں سیاسی استحکام

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس مفاہمت سے صوبے کی سیاسی فضاء زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔


G M Jamali May 14, 2014
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس مفاہمت سے صوبے کی سیاسی فضاء زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر سندھ حکومت آئندہ مالی سال کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی) کی تیاری میں مصروف ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ سال کا اے ڈی پی غیر معمولی ہو گا اور اس میں کئی اہم اسکیموں کا بھی اعلان کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر غربت کے خاتمے کی اسکیموں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ گزشتہ ہفتے بھی پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اے ڈی پی کی تیاری کے سلسلے میں مسلسل پانچ روز تک اجلاس منعقد کیے۔ ان اجلاسوں میں تعلیم ، صحت ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، روڈ نیٹ ورک ، توانائی و بجلی کی پیداوار، زراعت اور آبپاشی کی نئی ترقیاتی اسکیموں پر تفصیلاً غور کیا گیا اور اس ضمن میں اہم فیصلے کیے گئے ۔ حکومت سندھ نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، واٹراینڈ سیوریج اتھارٹی (واسا) حیدر آباد اور کئی دیگر اداروں کی بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی بحال کردی۔ یہ سبسڈی گزشتہ کئی سالوں سے بند تھی۔

اس کی بحالی کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ ادارے اپنے بجلی کے بل بروقت ادا کر سکیں اور ان کی بجلی منقطع نہ ہو ۔ واسا حیدرآباد کی بجلی منقطع ہونے سے وہاں کے شہریوں کو طویل عرصے سے تکالیف کا سامنا تھا۔ سندھ حکومت آئندہ بجٹ میں نہ صرف صوبے کے بلدیاتی اور شہری اداروں کی گرانٹس میں اضافہ کرنے پر غور کر رہی ہے بلکہ ایک ایسے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہے جس کے ذریعے بلدیاتی ادارے اپنی آمدنی میں اضافہ کر کے خود انحصاری حاصل کر سکیں ۔ سندھ حکومت کی تیاریوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ صوبے کا آئندہ مالی سال کا بجٹ نہ صرف غیر روایتی ہو گا بلکہ غیر معمولی بھی ہوگا۔

گزشتہ ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے اور دیگر معاملات طے کرنے کے لیے دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس بھی منعقد ہوئے، جو انتہائی نتیجہ خیز رہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی ہدایت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی کا دورہ کیا اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے ہمراہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اورایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ رحمان ملک نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے بھی فون پر رابطہ کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کی یقین دہانی پر ایم کیو ایم نے اپنے لا پتہ کارکنوں کے حوالے سے احتجاج کا پروگرام مؤخر کردیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت نے رینجرز ، پولیس اور سندھ حکومت کے ماتحت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی کہ ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکن ان کے پاس نہیں ہیں ۔ ایم کیو ایم کو یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لیے حکومت سندھ اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔ ان ملاقاتوں میں دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے اور تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کی قائم کردہ 4 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے بھی دو اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ ان اجلاسوں میں ایم کیو ایم کی طرف سے پیش کردہ شواہد پر غور کیا گیا اور ان کی بنیاد پر لاپتہ کارکنوں کے لیے تحقیقات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس مفاہمت سے صوبے کی سیاسی فضاء زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ماضی میں سندھ خصوصاً کراچی کو تختہ مشق بنایا جاتا تھا لیکن اب عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کے لیے سندھ کے حالات زیادہ سازگار نہیں رہے۔ اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کو جاتا ہے ، جنہوں نے سندھ کی '' پولٹیکل کیمسٹری '' تبدیل کردی ہے ۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ جمہوری حکومت کے خلاف سندھ پہلے کی طرح استعمال نہیں ہو گا ۔ 11 مئی کو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کراچی میں اتنا متاثر کن سیاسی شو نہیں کر سکی ہیں ، جتنا ان سے توقع کی جا رہی تھی۔

لگتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے زلزلے کا مرکز کہیں اور منتقل ہو رہا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت کے بعد کوئی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ۔ کراچی جمہوری استحکام کے لیے زلزلے کا مرکز تھا ۔ سیاسی قیادت کے تدبر سے یہ مرکز کہیں اور منتقل ہو رہا ہے اور یہ بات نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے لیے خوش آئند ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی مفاہمت کی پالیسی کا اس حوالے سے بہت اہم کردار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں