اپنی اپنی جمہوریت
عام انتخابات سے پہلے جو الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا‘ اس میں چیئرمین کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا‘ ۔۔۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کااسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاجی جلسہ مسلم لیگ ن کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کے وفاقی وزراء سے لے کر صوبائی اور ضلع سطح کے عہدیدار تک یک زبان ہو کر ایسے برس رہے ہیں جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہے' خصوصاً خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ تو اس احتجاجی جلسے کو جمہوریت دشمن ایجنڈے کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ دونوں صاحبان عقل و دانش کے ایسے شگوفے چھوڑ رہے ہیں کہ لوگ ہنسنے کے بجائے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے' ایسا کیا ہو گیا ہے کہ دونوں صاحبان لال پیلے ہو رہے ہیں۔
میں عمران خان کا کبھی حامی یا مداح نہیں رہا بلکہ ان پر تنقید کرتا رہا ہوںلیکن میں یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ تحریک انصاف کے جلسے اور عمران خان کی تقریر میں ایسا کیا انوکھا پن تھا جس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خان نے جلسے میں کیا کہا ہے؟ انھوں نے اپنی تقریر کے دوران چند مطالبات پیش کیے ہیں۔قارئین آپ بھی پڑھ لیں۔ ''الیکشن کمیشن کے تمام ارکان استعفی دیں ۔ نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کرائی جائے۔ عام انتخابات میں بائیو میٹرک سسٹم لایا جائے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے۔ پھر انھوں نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی کہ وہ انھیں انصاف دلائے''۔
قارئین ان سارے مطالبات میں سے کون سا غیر جمہوری یا غیر آئینی ہے؟برائے مہربانی آپ ہی مجھے بتا دیں۔الیکشن کمیشن کے ارکان سے استعفے کا مطالبہ تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی کر دیا ہے۔ اب مسلم لیگ ن کے متوالے وزراء خورشید شاہ پر بھی جمہوریت دشمن کا لیبل لگا دیںکیونکہ وہ بادشاہ لوگ ہیں' انھیں کون پوچھے گا کہ وہ صحیح فرما رہے ہیں یا غلط۔
11مئی 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کی بات تنہا عمران خان نہیں کر رہے بلکہ چوہدری پرویز الٰہی بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ تو ایک پردہ نشین کا نام بھی لیتے ہیں جو لاہور کی جی او آر میں بیٹھ کر ریٹرننگ افسروں سے رابطے میں تھے۔ میری چوہدری صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس محترم ہستی کا نام بھی بتا دیں جو پردے میں رہ کر ''جمہوریت ''کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو گجرات سے ہرانے کی بھی پوری منصوبہ بندی کی گئی تھی' وہ تو چوہدری صاحب کی قسمت اچھی تھی اور کچھ ان کی اور ان کے کارکنوں کی ہمت کہ یہ منصوبہ ناکام ہو گیا' ورنہ دوستوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
چلیں ان دونوں کو یہ کہہ کر رد کر سکتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کے مخالفین ہیں لیکن دھاندلی کی بات تو آصف علی زرداری بھی کرتے ہیں جو آج کل جمہوریت کے تحفظ کے نام پر میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ قبل لاہور کے بلاول ہائوس میں سینئر صحافیوں کی موجودگی میں کہا تھا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو آر اوز (ریٹرننگ افسران) نے ہرایا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں تقریباً 30 یا 40 نشستوں پر دھاندلی سے ہرایا گیا۔ انھوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی اس واردات میں شریک قرار دیا تھا۔زرداری صاحب تو میاں صاحب کے اتحادی ہیں' اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو اسے دیوانے کی بڑ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ دال میں کہیں نہ کہیں کالا ضرور ہے۔
آصف زرداری تو اس لیے خاموش ہو گئے کہ وہ پانچ برس تک وفاق میں حکومت کے مزے لیتے رہے ۔ مئی 2013 کے عام انتخابات میں بھی انھیں سندھ کی حکومت مل گئی' یوں پیپلز پارٹی والے تو اقتدار کے کیک میں سے اپنا حصہ لے کر مست ہو گئے اور وہ سندھ میں موج کر رہے ہیں' اس لیے دھاندلی سے انھیں درد تو ہوا لیکن یہ میٹھا میٹھا درد ہے' جس کی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ مزہ آتا ہے لیکن جن کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے' ان کا درد میٹھا میٹھا نہیں ہے لہٰذا وہ شور نہ مچائیں تو اور کیا کریں۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کے ساتھ تو اصل ہاتھ ہوا ہے' وہ کیسے خاموش بیٹھ سکتے ہیں۔
عام انتخابات سے پہلے جو الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا' اس میں چیئرمین کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا' اصل پاور الیکشن کمیشن کے ارکان کے پاس تھی' فخر و الدین جی ابراہیم کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لایا گیا تھا' ان کی نیک نامی کو کیش کرایا گیا' وہ بیچارے صرف تنخواہ لیتے رہے' اس سے آگے' ان کے پاس کچھ نہیں تھا' ریٹرننگ افسران براہ راست اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ماتحت تھے اور وہ اپنے ریمارکس اور خطابات میں بین السطور بہت کچھ کہہ رہے تھے۔
پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن وہ صاحب تھے جنہوں نے لاہور میں پلازے گرانے کے احکامات دیے تھے۔ انھیں مسلم لیگ ن نے ہی نامزد کیا تھا' سندھ سے رکن کو پیپلز پارٹی نے ' بلوچستان سے فضل الرحمن نے اور خیبر پختونخوا سے اے این پی نے اپنے ارکان نامزد کیے تھے۔ فیصلہ سازی میں پنجاب' خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ارکان نے اتحاد کر لیا' یوں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کو ان چاروں ارکان نے عملاً بے بس کر دیا' اسی بے اختیاری کے دکھ کی وجہ سے وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ اس صورت حال سے انتخابی نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
پاکستان کے سیاستدانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ جمہوریت اسے کہتے ہیں جس میں ان کا اپنا اقتدار ہو' ان کی ناکامیوں کوتاہیوں اور خرابیوں کا ذکر کیا جائے تو انھیں جمہوریت بھی خطرے میں نظر آتی ہے اور آئین بھی ٹوٹتا نظر آتا ہے۔ عمران خان اگر عام انتخابات میں بائیو میٹرک سسٹم لانے کی بات کرتے ہیں تو اس میں کونسی ایسی غیر آئینی بات ہے کہ ان پر اچھل اچھل کرحملے کیے جائیں' بھارت میں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت ہی ووٹنگ ہوتی ہے' کسی کو انتخابی نتائج پر اعتراض نہیں ہوتا' اگر پاکستان میں اگلے عام انتخابات بائیو میٹرک سسٹم کے تحت ہوں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اپنی مقبولیت کا پتہ چل جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اور چوہدری برادران کو بھی علم ہو جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں' ایم کیو ایم' اے این پی' جے یو آئی اور جماعت اسلامی بھی اپنے سائز کے مطابق سیٹیں لیں گی۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کو اپنے اوپر تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ میاں نواز شریف جو حکم دیں' وہ آئین بن جائے' یا یہ کہا جائے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور باقی کسی ادارے کی کوئی اہمیت اور اوقات نہیں ہے۔ جمہوریت آئین سے مشروط ہے' آئین میں ہر ادارے اور عہدے کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار متعین ہے۔ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو بھی اتنا ہی اختیار حاصل ہے' جتنا آئین نے اسے دیا ہے' ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیراعظم جس سے ناخوش ہو' اسے برطرف کر دے' ایسا کرنے سے پہلے انھیں آئینی تقاضے پورے کرنا پڑیں گے۔
اسی طرح عدلیہ بھی اتنا ہی کام کر سکتی ہے جتنا اس کا مینڈیٹ ہے' ورنہ ماضی میں تو اس ملک میں ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک خاتون سے ایئر پورٹ پر وائن کی ایک یا دو بوتلیں برآمد ہوئیں تو جناب افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس لے لیا حالانکہ کسٹمز قوانین کے مطابق ایسا مال ضبط کر کے مسافر کو باعزت جانے دیا جاتا ہے لیکن پاکستان ایسا ملک ہے جہاں شیر کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ انڈا دے یا بچہ دے ۔
جمہوری نظام میں کوئی ادارہ سپریم نہیں ہوتا بلکہ جمہوری سسٹم میں سب سے زیادہ اہمیت بیلنس آف پاور کو ہوتی ہے۔یہ بیلنس رہے گا تو سسٹم چلے گا۔ میاں نواز شریف کی سابق حکومتیں اسی لیے ختم ہوئیں کہ انھوں نے پاور کے پنڈولم کو یکطرفہ طور پر اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی' وہ اب بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ اگر ملک میں فوجی آمریت جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے تو پاکستان کسی سہارتو' مارکوس یا حسنی مبارک کے شخصی اقتدار کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔