اس شہر میں کیا رکھا ہے

شہری اور دیہی زندگی کا موازنہ کرتا ہوں تو بڑا فرق محسوس کرتا ہوں ۔۔۔۔


Dr Naveed Iqbal Ansari May 14, 2014
[email protected]

ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ جب پاکستان میں ''دبئی چلو'' کی ہوا ہر طرف چل رہی تھی، دیہی اور شہری علاقوں میں بیرون ملک دولت کمانے کے لیے جانے کے رجحان کا بخار ہر دوسرے بندے کو چڑھا ہوا نظر آتا تھا۔ یہ ہوا اس قدر شدت سے چل رہی تھی کہ اس پر فلمسازوں نے فلمیں بھی بنائیں اور ڈرامے بھی بنائے گئے۔ اس زمانے میں دیہی لوگوں نے زیادہ تر دبئی جانے کا رخ کیا اور جو دبئی پہنچنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے تھے وہ پیسے کمانے کی غرض سے شہروں کا رخ کرتے تھے جن میں کراچی شہر سرفہرست تھا۔

شہروں میں دولت کمانے اور بیرون ملک سے دولت کمانے کے بعد دیہی لوگوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آنے لگی، لائف اسٹائل میں تبدیلی آنے لگی اور بہت بڑی تعداد میں خاندان شہری علاقوں میں منتقل ہو گئے، آج بھی شہروں میں ایسے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو دیہی علاقوں سے یہاں منتقل ہوئی۔

بات محض پیسہ کمانے کی نہیں تھی بلکہ ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس قسم کے لوگوں کا ایمان اس بات پر پختہ ہوچکا تھا کہ شہری زندگی ان کے لیے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ دیہی زندگی سے بہتر ہے اسی لیے اس قسم کے خاندانوں نے دیہی زندگی پر شہری زندگی کے لائف اسٹائل کو ترجیح دی بالفاظ دیگر وہ شہری زندگی پر مکمل ایمان لا چکے تھے کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ طرز زندگی قطعی درست اور بہتر ہے۔ بات یہ ہے کہ جب انسان کا کسی چیز پر ایمان پختہ ہو جائے تو پھر وہ اسے اپنا لیتا ہے اور اس ضمن میں مشکلات کو بھی نظرانداز کر دیتا ہے اور اپنے اس ایمان پر مشکلات کی قیمت بھی ادا کرتا ہے۔ ایمان کی قیمت کس طرح چکانی پڑتی ہے آئیے! اس مسئلے کا تھوڑا سا جائزہ لیں۔

میں اپنے ایک دوست کے گھر پہنچا، اس کی والدہ بہت بیمار تھیں معلوم ہوا کہ ان کو سانس کی بیماری ہے اور ڈاکٹر نے کہا ہے کہ انھیں کھلی فضا میں رکھیں۔ میرے دوست کا گھر شہر کے دیگر چھوٹے علاقوں کے مکانوں کی طرح تنگ گلیوں میں واقع چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا جس میں صحن بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔

ان کی والدہ سے بات ہوئی تو اپنے دیہی علاقوں کی زندگی کو یاد کر کے کہنے لگیں کہ وہ دن بھی کتنے اچھے تھے، کھلے صحن والا گھر تھا، قریب میں کھیت تھے جہاں سے تازہ ہوا گھروں میں آتی تھی، یہاں تو دم گھٹتا ہے اب تو ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا ہے کہ کھلے علاقے میں صحن والا گھر استعمال کریں۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ اماں جی آپ جب اتنی اچھی جگہ پرفضا مقام پر زندگی گزار رہی تھیں تو پھر بھلا اس آلودگی والے شہر میں آپ کو منتقل ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ اماں کہنے لگیں کہ بیٹا! میری کب مرضی تھی اپنا آبائی گھر اور علاقہ چھوڑنے کی یہ تو میرے بیٹے کو دَھن کمانے اور شہر آنے کی دُھن سوار تھی۔

دوستوں کی دیکھا دیکھی اس نے بھی شہر آ کر کمانے کا سوچا۔ اتنا پیسہ تو تھا نہیں کہ دبئی جاتا لہٰذا اس نے شہر آ کر نوکری کر لی اور یہاں سے پیسے بھیجتا تھا۔ مگر جب میری بیٹی کی شادی ہو گئی اور میں تنہا ہو گئی تو پھر اس بیٹے نے مجھے بھی اس شہر میں اپنے پاس بلا لیا۔ اماں نے ایک آہ بھر کر پھر کہا کہ نہ جانے میرے بیٹے کو اس شہر میں کیا نظر آیا ہے یہاں کا ہی ہو کر رہ گیا ہے۔ میرے دوست کی اماں نے شکوہ شکایت کا دفتر کھولتے ہوئے کہا کہ بیٹا! اپنے دوست کو سمجھاؤ، اس شہر میں کیا رکھا ہے، یہاں نہ دودھ خالص ملتا ہے نہ کھانے پینے کی دیگر اشیا خالص ہیں، ہوا بھی خالص نہیں دھوئیں اور گرد و غبار سے بھری پڑی ہے، بجلی چلی جائے تو سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

میرے دوست کی اماں کی باتیں اپنی جگہ وزن رکھتی تھیں، میں جب خود غور کرتا ہوں اور شہری اور دیہی زندگی کا موازنہ کرتا ہوں تو بڑا فرق محسوس کرتا ہوں مثلاً سب سے اہم ترین بات آلودہ ماحول اور شہری زندگی میں طرز رہائش ہے چھوٹے علاقوں کے مکانات ہوں یا پوش علاقوں کے فلیٹس نما طرز رہائش یہ سب صحت کے نقطہ نظر سے سخت نقصان دہ ہیں دھوپ، روشنی اور ہوا کے مناسب گزر نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر حضرات بھی کہتے ہیں کہ ایسی طرز رہائش میں پرورش پانیوالے بچے ہڈیوں اور دیگر بیماریوں کا شکار کثرت سے ہو رہے ہیں اور پیدائش کے وقت خواتین کو ڈلیوری کے وقت آپریشن ہی کرنا پڑتا ہے۔

شہر کراچی کے مرکزی اور معروف ترین علاقوں میں فلیٹس اور اوپر تلے کثیر منزلہ مکانات میں جہاں گلیاں اور گزرگاہیں بھی بہت تنگ ہیں شہریوں کی بڑی تعداد خوشی کے ساتھ رہ رہی ہے کیونکہ انھیں گھر سے باہر نکلتے ہی بیشمار سہولیات دستیاب ہوتی ہیں مثلاً بڑے بڑے کاروباری ادارے، ان کے دفاتر، ملازمت کے لیے موجود، خریداری کے لیے بڑے بازار موجود اور چٹ پٹے کھانوں کے لذیذ اور مشہور مراکز بھی موجود مگر اس طرف کسی کی توجہ نہیں کہ تحقیقی نتائج کے مطابق شہر میں آلودگی تو ہے مگر ان علاقوں میں آلودگی کی کثرت ہے۔

شہر کا مرکزی علاقہ ہونے کے باعث سب سے زیادہ ٹریفک نہ صرف صبح و شام یہاں سے گزرتا ہے بلکہ ٹریفک جام کے باعث دھواں بھی رات گئے تک فضا کو آلودہ رکھتا ہے یہاں کے ٹریفک سپاہیوں کے خون کے تجزیے کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے خون میں سیسے کی مقدار بھی سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ دن بھر یہاں ڈیوٹی دیتے ہیں، اندازہ کیجیے کہ جو یہاں کے 24 گھنٹے کے رہائشی ہیں ان کی حالت زار کیا ہو گی؟ مگر اس طرز زندگی پر ان رہائشیوں کا ایمان اس قدر پختہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنی صحت کے اس نقصان کی پرواہ نہیں کرتے۔

آپ شہر سے باہر دیہی علاقے میں جا کر کبھی رات کو آسمان کا نظارہ کریں، پورا آسمان آپ کو ستاروں سے جگ مگ کرتا نظر آئیگا مگر شہری علاقوں میں آپ کو یہ ستارے بمشکل ہی اس قسم کا نظارہ پیش کرینگے کیونکہ آلودگی اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔میں نے اپنے دوست سے کہا کہ تم اپنے گھر والوں کو لے کر اپنے آبائی علاقے چلے جاؤ۔ اس طرح تمہیں وہاں بغیر ملاوٹ کے کھانے، دودھ، دہی، تازہ سبزیاں اور خالص ہوا بھی ملے گی تمہاری والدہ کی صحت بھی بنے گی، یہاں کی شہری زندگی کے مسائل مثلاً بیمار ہونے پر ڈاکٹروں کے لیے کلینک و اسپتالوں کی بڑی بڑی قطاروں میں کھڑے ہونے کی زحمت سے بچو گے، سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں جانوروں کی طرح سفر کرنے سے بچو گے، بارش کے بعد گٹروں کے گند اور بارش سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی بچو گے، بھاری تعلیمی اخراجات سے بھی بچو گے۔

میری بات سن کر بھی میرے دوست شہری زندگی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئے شاید وہ یہاں پینٹ شرٹس پہن کر، شہری زندگی کے چٹخارے دار اور رنگین نظاروں پر ایمان لا چکے تھے اور وہ خرابی صحت اور اس پر اٹھنے والے اخراجات، آلودہ ماحول، شہری مسائل سے بھرپور زندگی پر ایمان لا کر اس کی قیمت ادا کرنے کے عادی ہو چکے تھے یہ بھی بھول گئے کہ یہاں جتنا کماتے ہیں اس سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے جب کہ گاؤں کی سادہ زندگی میں اخراجات بھی کم ہوتے ہیں۔

بات صرف شہری اور دیہی زندگی کی نہیں ہے ہم جیسے شہری بھی اکثر معاملات میں اپنے اس قسم کے غلط ایمان کی قیمت چکاتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ایک دوست شدید گرمی میں بھی کورٹ پہنے ہوئے نظر آتے ہیں اور جس سیمینار میں بھی تقریر کرنے جاتے ہیں انگریزی ہی میں تقریر کرتے ہیں محض ایک لفظ بھی اردو میں نہیں بولتے حالانکہ حاضرین میں تمام لوگ اردو ہی سمجھنے والے ہوتے ہیں۔ 100 فیصد انگریزی سمجھنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ جو پیغام حاضرین تک دینا چاہتے ہیں وہ پوری طرح حاضرین تک منتقل نہیں ہو پاتا دوسری جانب وہ دن بھر گرمی میں کورٹ پہن کر مصیبت میں گرفتار رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے میں عزت حاصل کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ گویا وہ اس طرح اپنے ایمان کی قیمت نہ چاہتے ہوئے بھی ادا کر رہے ہیں۔

ہم میں سے نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہیں جو ایسی باتوں پر فخر سے عمل کر رہے ہیں جو ان کے لیے سودمند نہیں مگر وہ اس پر ایمان لا چکے ہیں اس لیے وہ ایمان کی قیمت چکا رہے ہیں۔ آئیے غور کریں کہ ہم کہاں کہاں اپنے غلط ایمان کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں