قومی ایئرلائن کی بدحالی
پاکستان ایئر لائن کسی زمانے میں دنیا کی بہترین ایئر لائن تصور کی جاتی تھی
قومی اہمیت کے حامل اداروں کی تباہی اور بربادی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اِن اداروں کی اس تباہی میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔
جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کے علاوہ اِن اداروں کے افسروں اور ملازمین نے بھی ان کی پامالی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ سب نے انھیں لوٹنے اور برباد کرنے میں خوب کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان ایئر لائن کسی زمانے میں دنیا کی بہترین ایئر لائن تصور کی جاتی تھی اور '' باکمال لوگ اور لاجواب سروس'' کے لوگو اور سلوگن کے ساتھ یہ دنیا میں اپنا نام بھی کما رہی تھی۔ ہم بلاشبہ اپنی اس ایئرلائن میں فخر بھی کیا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور آج یہ حال ہے کہ اسے زندہ رکھنے کے لیے اربوں روپے کے ٹیکے لگائے جارہے ہیں۔
اس کے فلیٹ میں صرف 21 طیارے رہ گئے ہیں اور جن میں سے صرف 16 طیارے فنکشنل ہیں۔ باقی ناکارہ ہوکر ہینگرز میں کھڑے ہیں۔
ہماری اس ایئر لائن نے اپنی ماہرانہ قابلیت کی وجہ سے کبھی امارات ایئر لائن کی بھی تربیت کی تھی، جس ایئرلائن کو اس نے چلنا سکھایا تھا وہ آج کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہماری اپنی ایئر لائن تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کمپنی یا ادارے کو تباہ کرنا ہو تو اس میں ضرورت سے زیادہ اسٹاف بھر دیا جائے۔
پاکستان اسٹیل ملز کو اسی طرح تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ 1988 میں جب جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالا آمرانہ دور کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کا موقعہ ملا تو اس نے اپنے ساتھ کی گئی ضیا دورکی زیادتیوں کا بدلا اس طرح لیا کہ قومی تحویل میں شامل ہر ادارے میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کر کے اسے خساروں سے دوچار کر دیا۔
پیپلز پلیسمنٹ بیورو بنا کر اپنے چاہنے والے کارکنوں اور افراد کو کسی میرٹ کے بغیر صرف سیاسی بنیادوں پر ملازمت دے کر اداروں کو ایسی تباہی سے دوچار کردیا کہ سب کے سب یا تو آج برباد ہوچکے ہیں یا پھر عنقریب ہونے والے ہیں۔ میرٹ کے بغیر بھرتیوں پر نااہل افراد کو بھرتی کر کے ایک طرف مالی بوجھ کا اضافہ کیا تو دوسری جانب اِن نااہل افراد نے جو صرف مال کمانے کی غرض سے اِن اداروں میں شامل ہوئے تھے دونوں ہاتھوں سے اسے نوچنے اور لوٹنے لگے۔
پاکستان اسٹیل ملز کو ہر ایک نے لوٹا۔ افسروں اور ملازمین نے بھاری بھاری تنخواہوں کے علاوہ تمام مراعات سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ صحت اور دیگر مفت سہولتوں سے خود بھی فیض یاب ہوتے رہے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی نوازتے رہے۔
اسپتالوں اور ڈاکٹروں نے بھی پینل حاصل کر کے جعلی بلوں میں خوب مال کمایا۔ اسی طرح ملک بھر کے ٹھیکیداروں نے بھی من مانے ریٹس پر ٹینڈر حاصل کیے اور افسروں اور مزدور یونین کے اہل کاروں کو بھاری رشوتیں دیکر انھیں پاس بھی کروا لیا۔ نتیجہ بالآخر وہی ہوا جو ایسے اداروں کا ہوا کرتا ہے۔
اچھے بھلے چلتے ہوئے ادارے کس طرح تباہ وبرباد کیے جاتے ہیں یہ اسٹیل ملز کی موجودہ حالت دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اسٹیل ملز بے شک پیپلزپارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کی کاوشوں کا نتیجہ تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسے تباہ بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے ہی کیا۔ وہ آج بھی اس کی نج کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
قوم اپنی جیب سے ہر سال ان اداروں کے خسارے پورے کررہی ہے اور پیپلزپارٹی غریبوں اور مزدوروں کی ہمدرد بن کر ہر الیکشن میں ووٹ بھی حاصل کرتی رہی ہے۔ اِن سسکتے اداروں کو چلانے کے لیے ہماری ہر حکومت قومی خزانے سے ہرسال اربوں روپے خرچ کرتی ہے اور یہ ادارے ہیں کہ مسلسل برباد ہوتے جارہے ہیں۔ آج بھی اگر کوئی حکومت پی آئی اے اور اسٹیل ملزکی نج کاری کی بات کرتی ہے اور سب سے پہلے اس کی مخالفت پاکستان پیپلز پارٹی ہی کرتی ہے۔
پی آئی اے کے پاس اب نئے طیارے خریدنے کے لیے بھی پیسہ نہیں۔ 16 طیاروں پر مشتمل فلیٹ کے ساتھ یہ ایک قومی ایئرلائن کہلاتی ہے جب کہ دنیا کی بیشتر پرائیویٹ ایئرلائنز کے پاس بھی اس سے زیادہ طیاروں کے فلیٹ ہیں۔ ہم کس طرح اپنی اس قومی ایئرلائن پر فخر کرسکتے ہیں جب کہ ہم بہت سی دوسری ایئر لائنوں کے سیکڑوں طیاروں پر مشتمل فلیٹ دیکھتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ ہم جلد سے جلد اس کی نج کاری کر دیں اس سے پہلے کہ کوئی اسے لینے والا بھی نہ ہو۔
ملازمین کو یہ خوف ہے کہ وہ اس طرح بے روزگار ہوجائیں گے تو انھیں یہ جاننا ہوگا کہ نج کاری کرنے سے وہ مزید تباہی سے بچ سکتے ہیں کیونکہ اسے خریدنے والا اُسے بند نہیں کرے گا، بلکہ پیسہ لگا کراس میں نئے طیاروں کو بھی شامل کرے گا اور اس طرح نہ صرف اُن کی نوکریاں بھی محفوظ ہونگی بلکہ ملازمت کے نئے مواقع بھی نکلیں گے۔ محنت سے کام کرنے والوں کو کوئی بھی نہیں نکالے گا۔
سرکاری اداروں میں مزدور یونینز ہمیشہ ورکروں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر حکومتوں کو بلیک میل کیا کرتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے اس عمل سے اداروں کو مزید تباہ و برباد بھی کیا کرتی ہیں۔ اسے چاہیے کہ ورکروں کو نیک نیتی سے کام کرنے پر راغب کرے ناکہ کام چوروں اور نااہل افراد کی حوصلہ افزائی کیا کرے ۔
ہمیں یہ جان لینا ہوگا کہ جب تک خسارے میں چلنے والے اداروں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتے کبھی بھی غیرملکی قرضوں سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔ واپڈا، گیس کمپنیاں ، ریلوے ، اسٹیل ملز، پی آئی اے سمیت نجانے کتنے ادارے ہیں جن کے خسارے ہر سال قومی خزانے سے پورے کیے جاتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اس طرز عمل پر سنجیدگی سے غورکرے اور اگر وہ ملک اور قوم سے مخلص ہے تو ایسے اداروں کو منافع بخش بنانے کی کوئی تجاویز پیش کرے ناکہ انھیں پرائیوٹائز کرنے کی مخالفت کرے۔ آج ہمارے یہاں ایک نہیں بلکہ تین چار نجی ایئرلائنز کام کر رہی ہیں اور کسی کی حالت ہماری اس قومی ایئرلائن کی مانند نہیں ہے۔ تو آج اگر اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نج کاری کردی جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔
یہ یقینا قوم کے مفاد میں ہی ہوگا۔ ملک اور قوم اپنی آمدنی سے اِن اداروں کے خسارے پورے کرنے سے نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ یہ ادارے بھی مکمل تباہ و برباد اور نیست و نابود ہونے سے بچ جائیں گے۔