مضبوط جمہوریت مسائل کے حل اور معاشی استحکام کیلئے ناگزیر

جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

15 ستمبر کو دنیا بھر میں جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر جمہوریت کی حالت پر غور کرنا اور ایسے اصولوں واقدامات کو فروغ دینا ہے جن کے ذریعے جمہوری نظام اور جمہوری معاشرے کو فروغ مل سکے۔

اس دن کو عالمی سطح پر باقاعدہ طور پر منانے کیلئے8 نومبر 2007 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کے ذریعے عالمی یوم جمہوریت کے لیے ایک خاص دن 15 ستمبر مختص کیا گیا جس کے بعد عالمی یوم جمہوریت کا پہلا جشن 2008 میں منعقد ہوا تھا۔

اس وقت سے آج تک ہر سال یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے اور ہر سال کا ایک خصوصی موضوع ہوتا۔ رواں برس عالمی یوم جمہوریت کا موضوع ہے آنے والی نسلوں کو با اختیار بنانا اور جمہوریت کو آگے بڑھانے کیلئے نوجوانوں کے کردار پر خصوصی توجہ دینا ہے۔

''ایکسپریس فورم'' میں جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر ''ملک میں جمہوری استحکام کیسے ممکن؟'' کے موضوع پر ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

(سربراہ شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب )

رواں برس اقوام متحدہ نے جمہوریت کے عالمی دن کو 'یوتھ امپاورمنٹ' سے جوڑا ہے جو انتہائی اہم ہے۔ پاکستان میں نوجوان آبادی زیادہ ہے جن میں بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے۔ اسی لیے دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہیں لہٰذا ہمیں ان نوجوانوں کی تربیت کرکے،ا نہیں باصلاحیت بنا کر فائدہ اٹھانا ہوگا۔جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ہمیں نوجوانوں کو جمہوری عمل میں شامل کرنا ہوگا۔نوجوانوں میں جوش زیاد ہ ہوتا ہے، ہمیں ان کے جوش کو درست سمت دینی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے منشور کے ذریعے مسائل کے حل کا لائحہ عمل دیتی ہیں مگر ہمارے ہاں منشور پر بات نہیں ہوتی بلکہ شخصیات کو ہی جمہوریت چلنے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں لوگوں کی سیاسی تربیت پر توجہ دینا ہوگی۔

سیاسی کارکنان سخت حالات کا سامنا کرنے کے باوجود جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیںمگر انہیں آگے آنے کے مواقع نہیں ملتے۔ خواتین کے حوالے سے معاشرے کی سوچ بدل رہی ہے، خاتون پورے گھر کی تربیت کرتی ہے لہٰذا فیصلہ سازی اور جمہوری عمل میں خواتین کی شمولیت سے فائدہ ہوگا۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں تکلیف دہ عمل سے گزرتی ہیں۔ سیاستدانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جلا وطنی تک کاٹنی پڑتی ہے مگر وہ پھر واپس آتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ واپس آنے کے پیچھے کوئی مشن موجود ہے۔ اس میں اہم یہ ہے کہ ان کی واپسی کو کس چیز سے لنک کیا جاتا ہے؟ کیا وہ اپنا بیانیہ درست انداز میں لوگوں تک پہنچاتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ عام آدمی تک کیا بیانیہ پہنچتا ہے اور کس طرح پہنچتا ہے۔ اس میں ایک اہم کردار میڈیا کا ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ جن بیانات سے لوگوں میں امید پیدا کی جاسکتی ہے انہیں ہی عوام کیلئے تکلیف دہ بنا دیا جاتا ہے۔

جمہوریت کی مضبوطی کیلئے جہاں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا کردار ہے وہاں میڈیا کا بھی انتہائی اہم اور ذمہ دارانہ کردار بنتا ہے، ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے پولرائزیشن بڑھ رہی ہے، سوشل میڈیا پر لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ خطرہ بن رہا ہے، سیاسی جماعتوں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اس پر توجہ دینا ہوگی، لوگوں کی تربیت کی جائے، سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں سوشل میڈیا اور نوجوانوں کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کریں،اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو حالات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں، ایسی زبان کا استعمال نہ کریں جس سے کسی کی تذلیل ہو اور سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کا رجحان بنے۔ نوجوانوں کا انداز گفتگو بدل گیا ہے۔

اس میں جذباتیت آگئی ہے۔ نوجوان اور ان میں موجود جذبہ ایک بڑی طاقت ہیں، انہی ملکی سا لمیت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یورپ میں جب جمہوریت آئی تو اس کی بنیاد معاشی وسائل تک یکساں رسائی بنی۔ آج کی جدید شکل میں سب کو یکساں مواقع ملنا جمہوریت کی بنیاد ہے۔

سلمیٰ بٹ

(سابق رکن پنجاب اسمبلی رہنما پاکستان مسلم لیگ ،ن)

15 ستمبر کو ہر سال جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس پر دنیا بھر کے ممالک خود کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کی روشنی میںا ٓگے بڑھا جاتا ہے۔ وطن عزیز کی بات کریں تو پاکستان جمہوری طریقے سے اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعے معرض وجود میں آیا۔ ہماری بنیادوں میں جمہوری اقدار ہیں لہٰذا اگر پاکستان اور جمہوریت کو الگ کرنے کی کوشش کریں گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ پاکستان کی آزادی کی جدوجہد میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا خصوصاََ خواتین کا سیاسی کردار بہت نمایاں رہا ہے۔

مادر ملت فاطمہ جناحؒ، بیگم رعنا لیاقت علی سمیت خواتین ہراول دستہ رہی ہیں۔ یہی خواتین اپنے بعد آنے والی خواتین کو راستہ دکھانے والی ہیں۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو خواتین کے لیے رول ماڈل رہی ہیں۔ انہوں نے اپنا سیاسی کردار بھرپور انداز میں ادا کیا۔ میرے نزدیک جمہوری استحکام میں ہی ملکی استحکام ہے۔ جہاں جمہوریت نہ ہو وہاں پولرائزیشن ہوتی ہے۔ لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، حکومت پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے، جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے،متشدد رویوں کو فروغ ملتا ہے اور بدترین سماجی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

جس طرح عدلیہ و دیگر ادارے ہیں، ایسے ہی سیاست یعنی پارلیمنٹ بھی ایک ادارہ ہے، اسے مضبوط نہ کرنے کا مطلب سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنا ہے۔ افسوس ہے کہ جمہوری ملک میں آزادی کے بعد پہلا الیکشن 1970ء میں ہوا۔ یہاں صدراتی نظام کی باتیں کی جاتی ہیں، 1962ء کے صدراتی نظام کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور ہماری مضبوطی پالیمانی نظام میں ہی ہے۔ سیاستدانوں پر تنقید کرنا اور الزام تراشی آسان ہے مگرا س کے باوجود سیاستدان ہی ملک کو مسائل سے نکالتے ہیں۔سیاستدانوں کا قتل ہوا، پھانسیاں دی گئی، بار بار جلا وطن کیا گیا، جیلوں میں رکھا گیا مگر وہ پھر واپس اپنے وطن آتے ہیں ۔

افسوس ہے کہ ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ اگر بار بار سیاسی نظام کو ختم نہ کیا جاتا، حکومتوں میں مداخلت نہ ہوتی، سیاستدانوں کو ان کا کام کرنے دیا جاتا تو آج پارلیمنٹ مضبوط ہوتی، عوام کے مسائل حل ہوچکے ہوتے، ملک ترقی یافتہ ہوتا اور ہمارا شمار مضبوط جمہوری ممالک میں ہوتا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے ملک کی خاطر اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالا۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مخالف انتخاب لڑیں گے۔

اگر انتخابات میں سب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیں اور ایک دوسرے کے مدقابل انتخاب نہ لڑیں تو وہ پھر الیکشن کیسے ہوگا؟ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ہمیشہ کام کریں گے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور پر الیکشن لڑیں گی، عوام جسے منتخب کریں گے اس کی حکومت ہوگی۔

2006ء میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کرکے جمہوریت کو مضبوط کیا۔ اگر یہ میثاق نہ ہوتا تو 2008ء کے انتخابات نہ ہوتے۔ عوام کی بات کریں تو اس وقت ملکی آبادی کا 60 فیصد سے زائد نوجوان ہیں۔ اسی طرح خواتین بھی نصف آبادی سے زائد ہیں۔ کیا ہم انہیں صحیح معنوں میں انگیج کر رہے ہیں؟کہیں وہ نظر انداز تو نہیں ہو رہے؟ کہیں ان میں غصہ اور احساس محرومی تو پیدا نہیں ہورہا؟ہمیں معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ سیاسی اداروں کو مضبوط کیا جائے اور جمہوری عمل کو چلنے دیا جائے۔ سیاستدانوں پر الزام تراشی، سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے۔ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے، حقائق پر بات ہونی چاہیے مگر محض الزام تراشی سے کسی کی ساکھ کو متاثر کرکے لوگوں کو سیاستدان اور سیاست سے متنفر نہیں کرنا چاہیے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہ دیا گیا تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ملک میں معاشی استحکام صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جمہوری استحکام ہو۔ ابھی تک جمہوریت کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا اس کا نقصان ان شخصیات کو نہیں بلکہ ملک کو ہوا اور عوام آج بھی ان تجربات اور ایڈوانچرز کے اثرات بھگت رہے ہیں۔

بشریٰ خالق

(ایگزیکٹیو ڈائریکٹر وائز)

جمہوریت میں جمہور کے انفرادی اور اجتماعی رویے اہم ہوتے ہیں۔جمہوری طرز عمل جمہور کے ریوروں کی اجتماعی تصویر ہوتا ہے۔ اگر ہم انفرادی رویوں کی بات کریں تو ہمارے گھروں میں رویے غیر جمہوری ہیں۔ ہم گھریلو مسائل اور معاملات کو جمہوری انداز میں چلانے کے عادی نہیں ہیں۔ یہ طے ہے کہ گھر کا سربراہ مرد ہے لہٰذا گھر کے مرد ہی گھر کو آگے لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے خاندانی مسائل کی ایک بڑی وجہ غیر جمہوری رویے اور گھر کی خواتین اور بچوں کی رائے کا شامل نہ ہونا ہے۔

ہمارے خاندان ریاست کا ایک اہم حصہ ہیںجو بچوں کو جمہوری تربیت نہیں دے رہے۔ خواتین کوفیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ مدارس اور سکول کے طلبہ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں جمہوری عمل میں شامل کریں مگر طلبہ تنظیموں پر پابندی ہے۔ ان کی سیاسی تربیت نہیں ہو رہی جس کے باعث مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

ہمارے نوجوانوں میں قوم کے بجائے ایک ہجوم کی کیفیت زیادہ نظر آتی ہے اور اس کا بار ہا مظاہرہ بھی ہوچکا ہے۔ بدقسمتی سے گھر سے لے کر سیاسی جماعتوں تک، ہمارے رویے غیر جمہوری ہیں اور ان میں امتیاز شامل ہے۔ ہمارے تربیتی اداروں میں بھی جمہوری عمل نظر نہیں آتا ، فیصلہ سازی میں شخصیات کا کردار ہوتا ہے۔

مسائل کو سمجھتے ہوئے ہمیں خواتین، نوجوانوں اور بچوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا اور ان کے جمہوری حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔دنیا کے ہر کونے سے یہ آواز آرہی ہے کہ جمہوریت ہی واحد حل ہے جس کے ذریعے ایک اچھا سیاسی نظام لایا جاسکتا ہے۔سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ اچھی کارکردگی دکھا کر ملک اور عام آدمی کے مسائل حل کر سکتی ہیں۔ خواتین اراکین اسمبلی نے مثبت کردار ادا کیا۔ گزشتہ دس برسوں میں خواتین کی جمہوری نظام اور سیاسی میں شمولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں خواتین کیلئے سیاسی فضاء بنائی گئی۔ خواتین کونسلرز منتخب ہوئی۔ اسمبلیوں میں خواتین کیلئے مخصوص نشستیں بھی رکھی گئی۔ابھی خواتین کے سیاسی کردار کے حوالے سے بہت سارا کام باقی ہے۔

ہمارے ہاں 33 برس غیر جمہوری حکومتیں رہی ہیں، ایسے میں سیاسی جماعتیں خود کو کیسے میچور کرتی ؟ لوگوں کی سیاسی تربیت کیسے ہوتی؟ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اب جمہوری حکومتوں کا تسلسل ہے لہٰذا ہمیں سیاسی حوالے سے سازگار ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی 'گیٹ کیپر' ہوتی ہیں، یہ سیاسی جماعتوں کو طے کرنا ہے کہ انہیں نظام مضبوط کرنا ہے یا خود کو، اگر جمہوری نظام مضبوط ہوگا تو سیاسی جماعتیں خود بخود مضبوط ہوجائیں گی۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسانی حقوق کا تحفظ، انصاف کی فراہمی، قانون کی حکمرانی، مساوات، احتساب، میڈیا کی آزادی ، سیاسی جماعتوں کی مضبوطی، جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔ ہم شہریوں کے حقوق، سیاسی جماعتوںاور آئین کو بھی مانتے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارا شمار دنیا کے کمزور جمہوریت والے ممالک میں ہوتا ہے۔

جمہوریت کا تسلسل ٹوٹنا، سیاسی جماعتوں کا کمزور ہونا، قانون اور اقدار میں نچلے نمبروں پر ہونا ہمیں جمہوری طور پر کمزور کر رہا ہے، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور اکیڈیمیا کو مل کر لائحہ عمل بنانا اور آگے بڑھنا ہوگا۔ امید ہے ملک میں بہار ضرور آئے گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔