میاں نواز شریف کا میثاق مفاہمت
زیرک اور نپی تلی گفتگو کے ماہر نواز شریف نے اس پہلے بھی سیاسی میدان میں کئی میثاقوں پر دستخط کیے ہیں
پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے لندن میں اعلان کیا ہے کہ ان کی پارٹی کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اکتوبر میں پاکستان واپس آرہے ہیں۔
میاں نواز شریف لگ بھگ چار برس سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے لندن میں مقیم ہیں اور وہاں سے پاکستان کی سیاست میں دائو پیچ آزما رہے ہیں۔ وہ اپنی سیاست میں خاصے کامیاب رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن کی پالیسی وہی منظور کرتے ہیں اور پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی جو بھی بڑے فیصلے ہوئے ہیں ' ان کی بھی میاں نواز شریف نے تائید کی تب ہی وہ فیصلے ممکن ہو سکے ہیں۔
میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر اپنی سیاسی قیادت سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں'انھیں ضرورت ہوتی ہے تو وہ قیادت کو اپنے پاس لندن بھی بلا لیتے ہیں جہاں سیاسی فیصلے کر دیے جاتے ہیں۔میاں نواز شریف مسلسل اس تگ و دو میں ہیں کہ کسی طرح وہ پاکستانی سیاست میں واپس آجائیںاور ان کی واپسی شاندار طریقے سے ہو اور وہ ایک بار پھر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جائیں۔
اتحادی حکومت کے بعد اب پاکستان میں نگران حکومت قائم ہو چکی ہے، میاں شہباز شریف وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے کے بعد میاں نواز شریف ملنے لندن پہنچے۔ وہاںطویل ملاقاتیں ہوئیں۔ان ملاقاتوں کے بعد میاں شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کی پاکستان واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔
باخبر حلقوں میں یہ چہ مگویاں ہو رہی ہیں کہ میاں نواز شریف جن کی پاکستانی سیاست پر گہری نظر ہے ، وہ پاکستان کے سیاسی میدان کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور تب تک واپسی کا جہاز نہیں پکڑنا چاہتے جب تک انھیں اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ وہ پاکستان پہنچ کر سیاست میں آزادانہ کردار ادا کر کے حکمرانی حاصل کرسکیں گے۔ میاں صاحب چند ماہ پہلے بھی پاکستان واپسی کے لیے رخت سفر باندھ سکتے تھے جب ان کے بھائی وزیر اعظم تھے لیکن نہ جانے کیوں انھوں نے اس وقت پاکستان واپسی کی پرواز نہیں پکڑی۔
ہمارے پاکستانی سیاست دانوں کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ حکمرانی کے لیے عوام کی طاقت سے رجوع کرنے اور ان کے ووٹ کو عزت دینے کے بجائے مقتدر حلقوں کی آشیر باد پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیںاور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ انھیں حکمرانی کے لیے کوئی کندھا مل جائے یا کوئی ایسا سہارامیسر آجائے جس کے بعد وہ یقینا اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جائیں۔
آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں جب معلومات کا تیز رفتا بہائو ہر وقت عوام کی پہنچ میں ہے، انھی لا محدود معلومات کے تناظر میںپاکستان کے عوامی سیاسی حلقوں میں جب ملک کی سیاسی پارٹیوں کے رجحانات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو ایک بات عمومی طور پر کہی جاتی ہے کہ پاکستان کی سیاست کے فیصلے سات سمندر پار لندن یا دبئی میں بیٹھ کر نہیں بلکہ عوام کے درمیان بیٹھ کر ہونے چاہئیں۔
عمائدین پاکستان اگر پاکستانی عوام کے درمیان بیٹھ کر سیاسی فیصلے کریں تو عوام ان فیصلوں کی توثیق کر سکتے ہیں ورنہ عوام اب اپنے سیاسی رہنمائوں سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور اتنے آگے کہ عوام کے قدموں سے اٹھنے والے گردو غبار میں یہ سیاسی رہنماء گم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ سیاست دان جن کا سیاسی اوڑھنا بچھونا ہی عوام ہوتے ہیں، وہ مہنگائی میں پستے عوام کے سیاست مخالف ردعمل سے گھبرا رہے ہیں اور کسی بھی سیاسی مہم جوئی سے پہلے یہ تسلی کر لینا چاہتے ہیں کہ عوام ان کو ووٹ کے ذریعے عزت دے دیں۔
میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی کے لیے ان کی جماعت نے پنجاب میں ورکرز کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مختلف شہروں میں تنظیمی سطح پر ورکر کنونشن منعقد کیے جارہے ہیں ۔جن میں آیندہ انتخابات کی مہم میںگزشتہ ساڑھے تین سالہ نواز حکومت کے دوران پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے عوامی خدمت کے منصوبوں کو بنیاد بنا کر سیاسی بیانیہ بناکر عوام میں جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ماضی کی حکومت کی کارکردگی کو بنیاد بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ چونکہ گزشتہ سولہ ماہ کی حکومت جس میں مسلم لیگ نوازکی نمایندگی کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف اپنے وزرائے خزانہ مفتاح اسماعیل اوراسحاق ڈار کے ساتھ حکمرانی کے منصب پر فائز رہے ہیں لیکن اس سولہ ماہی حکومت میں وہ اپنی جماعت کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کرنے سے قاصر رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس سولہ ماہی حکومت نے نواز لیگ کی سیاست کا نقصان کیا ہے اور عوام کو ناراض کر کے وہ رخصت ہوئے ہیں۔
میاں شہباز شریف جن کی بطور وزیراعلیٰ کامیابیوں کی شہرت تھی، وہ بطور وزیر اعظم متاثر کن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے اور اپنی پارٹی کے لیے سیاسی میدان میں مشکلات چھوڑ گئے ہیں۔
یہ سیاسی رہنما ہی ہوتے ہیں جو قوم کو مشکلات سے نکالتے ہیں اور اس کی درست سمت رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ جمہوریت اور سیاست لازم و ملزوم ہیں اور جمہوریت جیسی بھی ہو ہم اس کو ترک نہیں کر سکتے حالانکہ ہماری لولی لنگڑی جمہوریت نے ہمیں کبھی سکھ نہیں دیا لیکن اس کے باوجود بھی جمہوری نظام حکومت ہی بہتر گردانا جاتا ہے جب تک سیاسی رہنماء میدان سیاست میں موجود رہتے ہیں، جمہوریت قائم ودائم رہتی ہے لیکن جب کسی بھی تجربہ کار اور قدرے اصلاح یافتہ سیاسی رہنماء کو سیاسی زندگی سے خارج کر دینے کی کوشش ہوتی ہے تو جمہوری عمل میں اس کو کسی دانشمندی سے تعبیر نہیں کیا جاتا ہے۔
سیاسی رہنماء ہی سیاسی میدان میں سجتے ہیں اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی بھی اکیلاسیاسی میلہ سجانے کی ایک اور کوشش ہے ۔ پاکستان میں ان کی پارٹی کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کسی حد تک تیار ہو چکی ہے اور میاں نواز شریف میثاق مفاہمت پر عمل درآمد کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
سیاسی میدان میں زیرک اور نپی تلی گفتگو کے ماہر نواز شریف نے اس پہلے بھی سیاسی میدان میں کئی میثاقوں پر دستخط کیے ہیں جن میں پہلا میثاق شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں ہی طے پایا تھا جس پر دونوں پارٹیوں نے پانچ پانچ سالہ اقتدار کی صورت میں عمل درآمد کیا۔اس کے بعد ان کی پارٹی نے سولہ ماہ پہلے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ساتھ میثاق معیشت بھی کیا جس کے بدلے میں شہباز شریف وزرات عظمیٰ کے حقدار ٹھہرے۔ اب ایک بار پھر میاں نواز شریف پاکستانی مقتدرہ کے ساتھ میثاق مفاہمت کر کے پاکستان واپس لوٹنے کی تیاریوں میں ہیں، دیکھتے ہیں اس میثاق مفاہمت کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟