ہالینڈ کی عدالت کا فیصلہ
وہ مسلسل مسلح محافظوں کے حصار میں رہتا ہے تاکہ اسے کوئی جذباتی مسلمان قتل نہ کر دے
میڈیا کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ ہالینڈ کی عدالت نے پاکستان کے ایک سابق کرکٹر خالد لطیف کو ایک ڈچ سیاستدان گیریٹ ویلڈرز کے سرکی قیمت لگانے پر بارہ سال قید کی سزا سنائی ہے۔
اس کے بارے میں جو معلومات میرے علم میں آئی ہیں' وہ یہ ہیںکہ گیرٹ ویلڈرز ہالینڈ کا معروف سیاستدان ہے وہ اسلام مخالف سیاستدان کے طور پر مشہور ہے۔
کبھی اسلام پر حملے، کبھی توہین آمیز خاکے شایع کرنا، کبھی توہین آمیز خاکوں کے مقابلوں کا انعقاد کرنا،اس کی سیاست و فکر کا حصہ ہے' بھلے ہی اس کے ایسے افعال سے مسلمانوں کے دل دکھتے رہیں لیکن اسے اس کی پرواہ نہیں اور نہ ہی مغربی حکومتوں اور وہاں کی عدالتوں نے اسے اس قسم کی شرانگیزی سے روکنے کی کوشش کی۔ اس نے 2018 میں توہین آمیز خاکے بنانے کا مقابلہ منعقد کروانے کا شرانگیز اعلان کیا جس پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے، جب دباؤ بڑھا تو اس نے اعلان واپس لے لیا ۔
وہ مسلسل مسلح محافظوں کے حصار میں رہتا ہے تاکہ اسے کوئی جذباتی مسلمان قتل نہ کر دے۔ جب اس نے 2018 میں توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا تو فرانس میں مقیم ایک مسلم نوجوان نے اعلان کیا کہ وہ اس گیرٹ ویلڈرز کو سبق سکھانے ہالینڈ جارہا ہے، اس نوجوان نے اپنے فیس بک اکاونٹ پر یہ اعلان پوسٹ بھی کردیا جس پر وہاں کی پولیس حرکت میں آئی اور اس نوجوان کو گرفتار کرلیا۔
گیریٹ ویلڈرز نے 2008میں ایک فلم "فتنہ" کے نام سے بنائی۔ جس میں اسلام کا روشن چہرہ مسخ کرکے پیش کیاگیا ۔ لیکن ہالینڈ کے کسی ٹی وی چینل نے یہ فلم چلانے کے لیے رضا مندی ظاہر نہیں کی، اور کچھ سیاست دانوں نے بھی اس پر پابندی لگانے کی کوشش کی، مگر ویلڈرز نے اسے انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دیا۔ اس وقت ہالینڈ کی حکومت نے کہا تھا کہ اس متنازع فلم کی وجہ سے ہالینڈ کے سپاہیوں اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
دوسرے مغربی ملک بھی اس کے ان شرپسند نظریات کے مخالف ہیں۔ برطانوی حکومت نے اس کے ملک میں داخلے پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی لیکن عدالت میں اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ یہ شخص 1963 میں ہالینڈ کے شہر فینلو میں پیدا ہوا۔
وہ خود کو غیرمذہبی قرار دیتا ہے۔اس نے اپنی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کی بنیاد رکھی، جس نے شروع میں کچھ کامیابیاں حاصل کیں، تاہم 2017 کے قومی انتخابات میں اس پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم اس کے باوجود فریڈم پارٹی 20 نشستوں کے ساتھ پارلیمان کی دوسری بڑی جماعت بننے میں کامیاب ہو گئی۔اس وقت انتخابی مہم میں فریڈم پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ہالینڈ کو یورپی یونین سے باہر نکال دے گی،ہالینڈ میں تمام مسجدیں بند کروا دے گی اور قرآن پر پابندی لگا دے گی۔ اس کے علاوہ فریڈم پارٹی کے منشور میں برقعے اور حلال گوشت پر پابندی عائد کرنا بھی شامل تھی۔
انھی انتہا پسندانہ نظریات کی بنیاد پر اس کو کئی مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2009میں ایک مقدمہ چلا جس میں اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے اسلام کی توہین کی ہے۔ تاہم جون 2011 میں عدالت نے یہ مقدمہ خارج کر دیا۔
اس سے قبل ایک عدالت نے اسے ایک نسلی گروہ کی بے عزتی کرنے اور امتیازی سلوک پر اکسانے پر مجرم قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ویلڈرز نے مارچ 2014 میں تقریر کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہالینڈ میں مراکش سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کم ہو۔ تاہم عدالت نے اس پر کوئی سزا یا جرمانہ عائد نہیں کیا تھا۔
گیرٹ ویلڈرز کے ایسے ہی انتہا پسندانہ نظریات اور مہمات کے باعث دنیا بھر کے مسلمان اضطراب کا شکارہوئے۔ لیکن مغربی حکومتیں اور عدالتیں گیرٹ ویلڈرز کو اشتعال انگیزی اور مسلم مخالف نظریات کی ترویج سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے دل دکھانے کا لائسنس اس شخص کو تھما دیا گیا۔
اب آئیے پاکستانی سابق کرکٹر کے ایشو پر' واقعات کے مطابق جب گیرٹ ویلڈرز نے توہین آمیز خاکوں کا اعلان کیا تو اس وقت جذبات میں آ کر سابق ٹیسٹ کرکٹر خالد لطیف نے اس کے سر کی قیمت اکیس ہزار یورو مقرر کرنے کی پوسٹ کر دی۔
جس پر ہالینڈ کی عدالت نے انھیں 12 برس قید کی سزا سْنا دی ہے۔ پاکستان اور ہالینڈ کے مابین ایسا کوئی معاہدہ تو نہیں ہے جس کے تحت ملزمان یا مجرمان کا تبادلہ ہو لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی مسلم ملک کی حکومت، انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار تنظیموں، این جی اوز نے ہالینڈ کی عدالت کے یکطرفہ فیصلے پر ردعمل نہیں دیا کیونکہ فیصلہ سابق کرکٹر کی غیر حاضری میں سنایا گیا ہے۔
اسے صفائی کا موقع نہیں ملا ہے'اگر پاکستان کی کسی عدالت نے توہین مذہب کے مرتکب کسی غیر مسلم کو ایسی سزا سنائی ہوتی تو کونے کھدروں سے برساتی مینڈکوں کی طرح ان علمبرداروں نے نکلنا تھا اور شور شرابہ کرکے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔
یہاں تو ان کی زبانوں کو لقوہ مار گیا ہے۔ ایک ایسا انتہا پسند سیاستدان جو پوری دنیا کے امن کے لیے مسلسل خطرات پیدا کر رہا ہے جو بین المذاہب ٹکراؤ کا سبب بنا ہوا ہے،مغربی ممالک کے قوانین اسے روکنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں۔
کیا مغربی لیڈر شپ کو پتہ نہیں چل رہا کہ ان کے نظام کی کمزوریوں سے انتہا پسندوں اور مذاہب کی توہین کرنے والے فائدہ اٹھا کر تہذیبوں کے تصادم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ کیا اظہار رائے کی آزادی صرف اسلام مخالفوں کے لیے ہے، اسلام سے تعلق رکھنے والوں کے لیے نہیں؟ مغرب کب تک ایسی دو رنگیوں کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔ اہل مغرب اور وہاں کی حکومتوں کو حالات کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے۔
انھیں اپنے ملکوں میں ہونے والی ناپاک جسارتوں کے سلسلے کو روکنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مغربی ممالک کی عدالتیں لاکھ ایسے فیصلے سناتی رہیں، حالات میں بہتری نہیں آئے گی کیونکہ سزاؤں سے ذہن تبدیل نہیں ہوتے۔