بڑھتی آبادی کا سیلاب
کیا اس دھماکے دار آبادی کی روک تھام کے لیے ہمارے پاس کوئی پالیسی، کوئی پروگرام ہے
جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں وفاقی وزارتِ لوکل گورنمنٹ و رورل ڈویلپمنٹ کو غیرضروری سمجھتے ہوئے لپیٹ دیا گیا تھا۔ جب جناب میر ظفراﷲ خان جمالی وزیرِ اعظم بنے تو انھوں نے اس اہم وفاقی وزارت کو بحال کر دیا۔وزارت بحال تو ہو گئی لیکن اس میں صرف ایک ڈپٹی سیکریٹری کی آسامی تھی۔
سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری،جوائنٹ سیکریٹری حتیٰ کہ سیکشن آفسر بھی نہیں تھا۔اپریل 2003میں وزارتِ لوکل گورنمنٹ میں ایک جوائنٹ سیکریٹری کی آسامی دے کر مجھے اس پر تعینات کر دیا گیا۔ جناب میر ظفراﷲ خان جمالی کو دلچسپی تھی کہ لوکل باڈیزکے عہدے داروں ، خصوصی طور پر ضلع ناظم اور تحصیل ناظم کو تربیت دے کر اس قابل بنایا جائے کہ وہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر لیڈر شپ کے ساتھ فعال کردار ادا کرتے ہوئے اچھے ترقیاتی کام کریں اور عوام کی زندگیوں میں آسانی و بہتری لائیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ایک جامع تربیتی پروگرام بنایا گیا اور تمام ناظمین کو براہِ راست فنڈز مہیا کیے گئے تاکہ ضلع،تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر عوامی نمائندوں کو تربیت دی جا سکے لیکن پھر وہی ہوا جو پاکستان میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
تربیت تو کوئی خاص نہیں ہوئی البتہ تربیتی پروگراموں/ ورکشاپوں کے نام پر بل بن گئے اور ورلڈ بینک سے قرض کی مد میں لیے گئے فنڈز کھا لیے گئے، البتہ کاغذات میں تمام عوامی نمائندے تربیت یافتہ ضرور بن گئے۔مئی2003کے پہلے ہفتے میں نے وزارتِ لوکل گورنمنٹ و رورل ڈویلپمنٹ کو جوائن کیا۔
سابق وزیرِ اعظم مرحوم میر ظفراﷲ جمالی ایک باوقار اور بہت شفیق فرد تھے۔انھوں نے مجھے طلب فرمایا اور کہا کہ ایک پروگرام بنائیں جس میں قومی اسمبلی کے تمام ممبران سے ان کے حلقہ ء انتخاب کی ترقیاتی اسکیمیں طلب کی جائیں۔
وزارتِ لوکل گورنمنٹ و رورل ڈویلپمنٹ ان اسکیموں کا ماہرین کی مدد سے جائزہ لے اور متعلقہ وفاقی محکمے کو اس مد میں فنڈز جاری کر کے ترقیاتی کام کرایا جائے۔اس پروگرام کو خوشحال پاکستان پروگرام کا نام دیا گیا۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ خوشحال پاکستان پروگرام کے پہلے انچاج اور کوآرڈینیٹر کے طور پر اس پروگرام کو نہ صرف بنیادی فریم ورک فراہم کیا بلکہ اس کے ذریعے ممبرانِ قومی اسمبلی کی دی ہوئی ترقیاتی اسکیموں کو متعلقہ سرکاری محکموں کے توسط سے پورا کرنے کی تگ و دو بھی کی۔
اس دوران مشکلات بھی آئیں اور کچھ ممبرانِ قومی اسمبلی مجھ سے الجھ بھی پڑے۔ وہ تقاضہ کرتے تھے کہ فنڈز محکموں کے بجائے انھیں دئے جائیں لیکن سابق وزیرِ اعظم جناب جمالی کی سختی سے ہدایت تھی کہ فنڈز کسی ممبر قومی اسمبلی کو نہ دئے جائیں،البتہ ان کے تجویز کردہ ترقیاتی کاموں کو اچھے معیار کے مطابق جلد از جلد پایہء تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔وفاقی وزارتِ لو کل گورنمنٹ و رورل ڈویلپمنٹ کا ایک بہت ہی اہم تربیتی ادارہ نیشنل سینٹر فار رورل ڈویلپمنٹ NCRD ہے۔اس تربیتی ادارے کے سربراہ یعنی ڈائریکٹر جنرل کی آسامی خالی پڑی تھی۔
حکومت نے وقتی طور پر مجھے اس کا بھی چارج دے دیا۔ہندوستان میں رورل ڈویلپمنٹ اور زراعت سے متعلق اکثر ادارے حیدر آباد دکن میں واقع ہیں۔انھی دنوں انڈیا سے ایک دعوت نامہ ملا جس میں بتایا گیا تھا کہ انڈین نیشنل انسٹیٹیوٹ آف رورل ڈویلپمنٹ NIRDمیں دو ہفتے پر محیط ایک پروگرام ترتیب دیا گیا ہے اور مجھے دعوت دی گئی تھی کہ میں بھی اس پروگرام میں شرکت کروں۔چونکہ اس دورے کے تمام اخراجات انڈیا برداشت کر رہا تھا اور حکومتِ پاکستان کے فنڈز خرچ نہیں ہو رہے تھے۔
اس لیے خیال ہوا کہ کیوں نہ اس پروگرام میں شرکت کی جائے۔میں حیدر آباد دکن دیکھنے کا بہت متمنی تھا۔خوش قسمتی سے انھی دنوں جناب خواجہ ظہیر صاحب کو وزارت کا سیکریٹری تعینات کر دیا گیا۔خواجہ ظہیر صاحب نہایت سلجھے ہوئے، ایمان دار،لائق اور قابل افسر ہیں۔ خواجہ صاحب نے بھی میرے ہندوستان جانے اور پروگرام میں شرکت کو ضروری جانا۔
یہ اگست 2003کا پہلا ہفتہ تھا جب میں حیدر آباد کے لیے روانہ ہوا۔اُن دنوں انڈیا اور پاکستان کے مابین تعلقات نہایت کشیدہ تھے۔دہلی یا ممبئی کے لیے پاکستان سے کوئی فلائٹ نہیں تھی اس لیے لمبے راستے سے پہلے دوبئی،دوبئی سے ممبئی اور ممبئی سے حیدر آباد کی فلائٹ لی۔
میں وہاں 3اگست کو پہنچا تھا اور مجھے 17اگست تک حیدر آباد دکن کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف رورل ڈویلپمنٹ میں ہونے والے جانکاری پروگرام میں شرکت کرنی تھی۔ہندوستان کا یہ انسٹیٹیوٹ ایک اچھا تربیتی اور تحقیقی ادارہ ہے۔اس قیام کے دوران میں نے حیدر آباد کے گرد و نواح میں کو ئی چالیس سے زیادہ ہندوستانی دیہات میں لوگوں کا رہن سہن اور ان کی کھیتی باڑی کے طور طریقے دیکھے۔زراعت کے ماہرین، کسانوں کو بہتر پیداوار حاصل کرنے کی مسلسل جانکاری دے رہے تھے لیکن ایک چیز جو ہر جگہ کھٹکتی تھی وہ بے انتہا غربت تھی۔میں خود تلہ گنگ سے متصل ایک گاؤں میں پلابڑھا ہوں۔
اس لیے دیہاتی رہن سہن سے بخوبی واقف ہوں مگر غربت کی جو شکل میں نے حیدر آباد دکن کے نواحی دیہات میں دیکھی ، وہ پہلی مرتبہ میرے تجربے میں آ رہی تھی۔ وہاں قیام کے دوران 15اگست کو انڈیا کا یومِ آزادی آ گیا۔اس دن صبح ساڑھے دس بجےNIRDمیں ایک تقریب کا اہتمام تھا۔جناب شکلا این آئی آر ڈی کے سربراہ اس بہت خاص دن بھی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے بہت عام سا لباس پہنے ہوئے تھے۔
تقریب میں مجھے ایک شیلڈ سے نوازا گیا۔شیلڈ وصول کرنے کے لیے میں صاحب ِ صدر کے پاس گیا تو انھوں نے بہت عزت کی اور کافی دیر میرا ہاتھ تھامے رہے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ آج شام کا کھانا میرے ساتھ کھائیں،میں اپنے ایک مسلمان ملازم کے گھر سے کھانا منگوا رہا ہوں۔ہم دونوں کھانا کھائیں گے اور گفتگو ہو گی۔
وہ شعر و شاعری اور موسیقی میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ کھانے کے دوران میں نے ان سے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ ہندوستان ترقی توکر رہا ہے لیکن غربت بہت نمایاں ہے۔میرے سوال پر لمبی آہ بھر کر کہنے لگے اس کی وجہ بے تحاشہ بڑھتی آبادی ہے۔
آپ جتنے بھی اچھے منصوبے بنا لیں،جتنے بھی کمالات دکھا لیں لیکن اتنی بڑی آبادی کے ہوتے ہوئے ایک فیصد بلکہ آدھا فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا بھی محال ہوتا ہے۔کہنے لگے کسی بھی سیکٹر میں جتنی بھی ترقی ہو جائے لیکن ایک ارب کی آبادی سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے۔مسٹر شکلا کے الفاظ آج بھی مجھے جھنجھوڑتے ہیں۔
چھ،سات سال پہلے کی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 22کروڑ تھی اور ابھی اگست کے پہلے ہفتے جس ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری گئی، اس میں ہم 25کروڑ کو چھو رہے ہیں۔لگتا ہے پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس پچاس لاکھ بڑھ جاتی ہے۔کیا اتنی تیزی سے بڑھتی آبادی جن مسائل اور چیلنجز کوجنم دے رہی ہے ان سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔
کیا اس دھماکے دار آبادی کی روک تھام کے لیے ہمارے پاس کوئی پالیسی، کوئی پروگرام ہے۔وفاقی یا صوبائی سطح پر کبھی کسی ایسے اجلاس کا نہیں سنا جس میں اس بھیانک خطرے سے نبٹنے کا سوچا گیا ہو۔
ایسے لگتا ہے ہم بہت حد تک پاکستان کو درپیش چیلنجز سے بے پروا ہو چکے ہیں۔ جس رفتار سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں کوئی منصوبہ بندی حقیقی نہیں ہو سکتی۔بہت بڑی آبادی ایک تند و تیز سیلاب ہے جس کی روک تھام جلد کرنی ہوگی۔