موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں اور درپیش چیلنجز

ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے


Editorial September 23, 2023
ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے (فوٹو :فائل)

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنا ہماری ترجیحات میں شامل ہیں۔ کوڈ19کی عالمگیر وبا، موسمیاتی تبدیلیوں اور تنازعات کے متعدد بحرانوں نے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آیندہ سربراہ اجلاس کوپ۔28 میں پاکستان میں موسمیاتی انصاف بالخصوص سو ارب ڈالر ڈرل کلائمنٹ فنڈزکی فراہمی کے اعلان پر عملدرآمد کا متمنی ہے، وہ نیویارک میں جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر اظہار خیال کر رہے تھے۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، عالمی سطح پر یقیناً اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو فنڈز بھی مہیا کیے جا رہے ہیں، لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو ہم سرکاری سطح پر مس مینجمنٹ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، ہم آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں، یعنی زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔

ہر سال بڑھتی شدید موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کا خاصہ بن چکی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہماری جسمانی اور دماغی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس آلودگی کی وجہ سے ہمارے موسموں اور بارشوں کے ادوار بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ریاست، بارش کی تباہ کاریوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ سیاست دان اور بیوروکریٹ اپنے دفاتر چھوڑکر منظرِ عام سے ہی غائب ہوجاتے ہیں تاکہ عوامی غیظ وغضب سے بچا جاسکے۔

انھیں معلوم ہے کہ موجودہ معاشی بحران اور بھیانک کرپشن میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا ادارہ2007 میں بنایا گیا۔ اس ادارے کے بنیادی فرائض میں سے ایک بحران کے انتظام اور آفات زدہ علاقوں میں کیے جانے والے امدادی کاموں سے متعلق پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہے، لیکن زلزلوں اور سیلاب کے دوران اس ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان موجود ہے۔

2012 میں بھی حکومتی سطح پر قومی موسمیاتی پالیسی ترتیب دی لیکن صد افسوس کہ سیاسی عدم دلچسپی کی بنا پر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا، گزشتہ پی ٹی آئی حکومت نے درخت لگانے کی مہم بھی شروع کی ، جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔

اب پاکستان کی فضائیں زہریلی ہو چکی ہیں۔ صاف شفاف ہوا آلودہ ہو چکی ہے۔ ندیاں چشمے اور دریا، بدبودار ہو چکے ہیں۔ زہریلی گیسوں اور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں کو پھاڑنا شروع کردیا ہے۔

خوفناک بیماریاں، تیر رفتاری سے پھیل رہی ہیں۔ ملک میں فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین سیم و تھورکا شکار ہو رہی ہے اور زمین کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کاشت کے اوقات اور نشوونما کے مراحل کے حساب سے مختلف فصلوں پر مختلف ہوتے ہیں۔ درجہ حرارت تھوڑے عرصے کے لیے بڑھتا ہے تواس سے گندم کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، جس سے پاکستان کے دیگر مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیاتیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے۔

جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے کیونکہ درخت زمین پر کیل کی مانند ہیں۔ پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف 4 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ اوزون لیئر فضائی آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، جوکہ زمین پر انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ساحلی علاقوں میں مینگروز کے جنگلات میں کمی، خطرے کی جانب ایک اور قدم ہے۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں جنگلات میں کمی ہو رہی ہے یعنی جنگلات پورے ملک کے رقبے کے 6 فیصد سے بھی کم ہیں۔ غیر قانونی ''ٹمبر مافیا'' مقامی پولیس کے ساتھ مل کر بے خوف وخطرکام کر رہا ہے جس وجہ سے وسیع پیمانے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔

ٹمبر مافیا اپنے منافع کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ ریاست اکثر گھروں کو ماحول دوست توانائی فراہم کرنے سے قاصر ہے اور اس وجہ سے اکیسویں صدی میں آج بھی لوگ کھانا پکانے کے لیے لکڑی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی معمول ہے۔ دہائیوں پہلے جو علاقے جنگلات تھے آج بنجر ہو چکے ہیں۔

آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے روزمرہ کے معمولات اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں۔ گلیوں اور بازاروں میں بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ ہمارے ماحول کو بری طرح متاثر کر رہا ہے، جب کہ ماحولیاتی آلودگی جلد، آنکھوں اور سانس کی بہت سی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔

گردوغبار اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں بھی ماحول میں ایسی گیسیں بڑھانے کا باعث ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ جگہ جگہ ٹریفک جام، ٹو اسٹروک رکشوں، پرانی گاڑیوں کا دھواں اور ربڑ پگھلانے والی فیکٹریاں بھی فضائی آلودگی کا باعث بنی رہی ہیں۔ صنعتوں سے مضرِ صحت کیمیائی مادوں کا اخراج، شہروں اور دیہات میں آبادی کے نزدیک کھلے گندے نالے، نہروں، دریاؤں اور سمندروں میں ڈالا جانے والا بغیر ٹریٹمنٹ آلودہ پانی ہیپاٹائٹس، پیچش، ٹائیفائیڈ اورکینسر جیسے امراض کا باعث بن رہا ہے۔

اس آلودہ پانی کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی زہریلا بنتا جا رہا ہے۔ کراچی اور لاہور میں اربن فلڈ ، شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں پہاڑی تودوں کی تباہی، سندھ کے علاقوں میں قحط اور پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں شدید گرمی ایک مسلسل حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ کراچی میں زیادہ تر اموات غریب محنت کشوں کی تھیں۔ مزدوروں کو شدید گرمی کے باوجود کوئی چھٹی نہیں دی جاتی اور نہ ہی پینے کے لیے مناسب مقدار میں پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

اس وجہ سے کئی مزدور جسم میں پانی کی کمی ہوجانے کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی بدقسمت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف عوامی سفری سہولیات میں ریاستی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے تو دوسری جانب حکومت کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی گاڑیوں کی فنانسنگ اسکیموں کی وجہ سے سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

تقریباً تمام گاڑیاں شدید فضائی آلودگی پھیلاتی ہیں کیونکہ پورے ملک میں کہیں بھی گاڑیوں کی معیاری سرکاری چیکنگ اور نگرانی کا نظام موجود نہیں ہے۔مینوفیکچرنگ صنعت شاید ہی کسی ماحولیاتی قانون کی پاسداری کرتی ہے۔

یہ زہریلے دریا دیہی علاقوں میں رہنے والی عوام کی زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں جو نہروں اور دریاؤں سے پینے سمیت روزمرہ ضروریات کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔ دریا کینسرکا سبب بننے والے مادوں (Carcinogens) سے بھرے پڑے ہیں اورآرسینک، سیسہ، کیڈمیم، کرومیم وغیرہ محفوظ حدود سے بے تحاشا تجاوزکر چکے ہیں۔ دریاؤں میں موجود کم وبیش تمام مچھلیاں زہریلے مادوں سے آلودہ ہوچکی ہیں اور پھر یہی زہر کھانے کے راستے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مصیبت ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کرم کش کیمیکلز کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

اس سارے تناظر میں آلودگی کے خاتمے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے جائیں کم ہیں، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پانی کے ذخائر کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے عوامی آگاہی مہم کا آغازکرے ، بارشوں اور سیلابوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مزید ڈیم تعمیرکیے جائیں تاکہ کم سے کم انسان کا جانی و مالی نقصان ہو۔ شہروں اور دیہاتوں میں سیوریج کے نظام، تعلیم اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے۔

بچوں کو تعلیمی اداروں میں ان موضوعات پر تربیت دی جائے۔ صفائی پر کس قسم کا سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے کوڑا جلانے پر پابندی اور جرمانہ رکھا جائے۔ ایسی تمام گاڑیوں، فیکٹریز اور ملوں پر جرمانہ لگایا جائے جو فضا میں آلودگی بڑھا رہے ہیں۔

خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے اور مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں